Blog
Books
Search Hadith

سورۂ حج {یَا اَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ}کی تفسیر

3 Hadiths Found

۔ (۸۶۷۹)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ فِی بَعْضِ أَسْفَارِہِ، وَقَدْ تَفَاوَتَ بَیْنَ أَ صْحَابِہِ السَّیْرُ رَفَعَ بِہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ صَوْتَہُ: (({یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌیَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ} [الحج: ۱۔۲] حَتّٰی بَلَغَ آخِرَ الْآیَتَیْنِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ أَصْحَابُہُ بِذٰلِکَ حَثُّوا الْمَطِیَّ وَعَرَفُوا أَ نَّہُ عِنْدَ قَوْلٍ یَقُولُہُ، فَلَمَّا تَأَ شَّبُوا حَوْلَہُ قَالَ: ((أَ تَدْرُونَ أَ یَّیَوْمٍ ذَاکَ؟)) قَالَ: ((ذَاکَ یَوْمَیُنَادٰی آدَمُ فَیُنَادِیہِ رَبُّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: یَا آدَمُ! ابْعَثْ بَعْثًا إِلَی النَّارِ؟ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ! وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ کُلِّ أَ لْفٍ تِسْعَ مِائَۃٍ وَتِسْعَۃً وَتِسْعِینَ فِی النَّارِ وَوَاحِدٌ فِی الْجَنَّۃِ۔))، قَالَ: فَأَ بْلَسَ أَ صْحَابُہُ حَتّٰی مَا أَ وْضَحُوْا بِضَاحِکَۃٍ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّکُمْ لَمَعَ خَلِیقَتَیْنِ مَا کَانَتَا مَعَ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا کَثَرَتَاہُیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَمَنْ ہَلَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ وَبَنِی إِبْلِیسَ۔))، قَالَ: فَأُسْرِیَ عَنْہُمْ ثُمَّ قَالَ: ((اعْمَلُوْا وَأَ بْشِرُوْا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَ نْتُمْ فِی النَّاسِ إِلَّا کَالشَّامَۃِ فِی جَنْبِ الْبَعِیرِ، أَ وْ الرَّقْمَۃِ فِی ذِرَاعِ الدَّابَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۰۱۴۳)

۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ایک سفر میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی چلنے میں دورجا چکے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بآواز بلند یہ دو آیتیں تلاوت کیں: {یَا أَ یُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ۔ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ۔} … لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقتیہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہوگا۔ جب صحابہ کرام نے یہ آیات سنیں تو اپنی سواریوں کو ایڑیاں لگائیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی ضروری بات کہنا چاہتے ہیں، جب لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کونسا دن ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود ہی فرمایا: یہ وہ دن ہو گا کہ آدم علیہ السلام کو بلایا جائے گا، اللہ تعالی ان کو آواز دیں گے: اے آدم! جہنم میں بھیجے جانے والوں کو جہنم میں بھیج دو، وہ کہیں گے: اے میرے رب! کتنی تعداد؟ اللہ تعالی کہے گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں بھیج دو۔ یہ سن کر آپ کے صحابہ کرام حیران و ششدر رہ گئے اوران کی ہنسی بند ہو گی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ صورتحال دیکھی تو فرمایا: عمل کرو اور خوش ہو جائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم دو قسم کی ایسی مخلوقات کے ساتھ ہو گے کہ وہ جس کے ساتھ ہوں، ان کی تعداد کو زیادہ کر دیتی ہیں،یعنییاجوج ماجوج، بنو آدم میں سے ہلاک ہونے والے اور ابلیس کی اولاد۔ یہ سن کر صحابہ سے وہ کیفیت چھٹ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمل کرو اور خوش ہوجائو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے: تم ان لوگوں میں اونٹ کے پہلو میں چھوٹے سے نشان کی مانند ہو گے یا جانور کے گھٹنے میں نشان کی مثل ہوگے۔

Haidth Number: 8679

۔ (۱۱۰۸۹)۔ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ حِینَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّی الظُّہْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَذَکَرَ السَّاعَۃَ، وَذَکَرَ أَنَّ بَیْنَیَدَیْہَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَسْأَلَ عَنْ شَیْئٍ فَلْیَسْأَلْ عَنْہُ، فَوَاللّٰہِ لَا تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْئٍ إِلَّا أَخْبَرْتُکُمْ بِہِ مَا دُمْتُ فِی مَقَامِیہٰذَا۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَأَکْثَرَ النَّاسُ الْبُکَائَ حِینَ سَمِعُوا ذٰلِکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَکْثَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَیْنَ مَدْخَلِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((النَّارُ۔)) قَالَ: فَقَامَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ حُذَافَۃَ فَقَالَ: ((مَنْ أَبِییَا رَسُولَ اللّٰہِ؟)) قَالَ: ((أَبُوکَ حُذَافَۃُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَکْثَرَ أَنْ یَقُولَ: ((سَلُونِی۔)) قَالَ: فَبَرَکَ عُمَرُ عَلَی رُکْبَتَیْہِ، فَقَالَ: ((رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَسُولًا۔)) قَالَ: فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَالَ عُمَرُ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ آنِفًا فِی عُرْضِ ہٰذَا الْحَائِطِ، وَأَنَا أُصَلِّی فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ۔)) (مسند احمد: ۱۲۶۸۸)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن جب سورج ڈھل گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، نماز سے سلام پھیرا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیامت کا اور قیامت تک رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات کا ذکر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی بھی چیز کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہو وہ پوچھ لے، اللہ کی قسم! میں جب تک اس1 جگہ پر ہوں تم جو بھی پوچھو گے، میں تمہیں اس کے بارے میں بتا دوں گا؟ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں نے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ باتیں سنیں تو سب لوگ بہت زیادہ رو دئیے، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی بار بار کہتے جاتے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر دریافت کیا:اللہ کے رسول! آخرت میں میرا انجام کیا ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جہنم۔ سیدنا عبداللہ بن حذافہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُٹھے اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ! یہ محدود انداز میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بات کی تھی کہ میں جب تک اس جگہ پر موجود ہوں آپ کے سوالوں کے جوابات دوں گا۔ ظاہر ہے کہ آپ کو ایک خاص حد تک لوگوں کو آگاہ کرنے کا بتایا گیا۔ اس سے آپ کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ کیونکہیہ اللہ کی صفت ہے جس پر بہت سی قرآنی نصوص دلالت کرتی ہیں اور بہت سارے واقعات و احادیث سے آپ کے متعلق عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ (عبداللہ رفیق) میرا باپ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذافہ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی بار بار فرمایا: پوچھو، اور پوچھو۔ یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے:ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابھی میں نماز پڑھا رہا تھا تو اس دیوار کی طرف میرے سامنے جنت اور جہنم کو پیش کیا گیا، اچھا اور برا ہونے کے لحاظ سے میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا۔

Haidth Number: 11089
سیدہ درہ بنت ابی لہب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس موجود تھی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا، تو میں اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پانی کے برتن کی طرف لپکیں اورمیں نے پانی کا برتن پکڑ لیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور میری طرف نظر اٹھا کر فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

Haidth Number: 11980