Blog
Books
Search Hadith

{وَالَّذِیْنَیُؤْتُوْنَ مَا اُتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ} کی تفسیر

5 Hadiths Found

۔ (۸۶۸۳)۔ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ الْمَکِّیُّ قَالَ: حَدَّثَنِی أَ بُو خَلَفٍ مَوْلٰی بَنِی جُمَحٍ: أَ نَّہُ دَخَلَ مَعَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ عَلٰی عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ فِی سَقِیفَۃِ زَمْزَمَ لَیْسَ فِی الْمَسْجِدِ ظِلٌّ غَیْرُہَا، فَقَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَہْلًا بِأَ بِی عَاصِمٍ یَعْنِی عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ، مَا یَمْنَعُکَ أَ نْ تَزُورَنَا أَ وْ تُلِمَّ بِنَا؟ فَقَالَ: أَخْشَی أَ نْ أُمِلَّکِ، فَقَالَتْ: مَا کُنْتَ تَفْعَلُ؟ قَالَ: جِئْتُ أَ نْ أَ سْأَ لَکِ عَنْ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ کَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَؤُہَا؟ فَقَالَتْ: أَ یَّۃُ آیَۃٍ، فَقَالَ: {الَّذِینَیُؤْتُونَ مَا آتَوْا} أَ وْ {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} [المؤمنون: ۶۰] فَقَالَتْ: أَ یَّتُہُمَا أَ حَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَإِحْدَاہُمَا أَ حَبُّ إِلَیَّ مِنْ الدُّنْیَا جَمِیعًا، أَوْ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا، قَالَتْ: أَ یَّتُہُمَا؟ قُلْتُ: {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} قَالَتْ: أَ شْہَدُ أَ نَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَذٰلِکَ کَانَ یَقْرَؤُہَا وَکَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ، أَ وْ قَالَتْ: أَ شْہَدُ لَکَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ وَکَذٰلِکَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْرَؤُہَا وَلٰکِنَّ الْہِجَائَ حَرْفٌ۔ (مسند احمد: ۲۵۱۴۸)

۔ ابو خلف عبید بن عمیرکے ساتھ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس زمزم کے چبوترہ میں آئے، اس کے سوا اس وقت مسجد میں سایہ نہ تھا، سیدہ نے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور کہا: ہماری ملاقات میں تمہیںکیا رکاوٹ ہے؟ عبید نے کہا: مجھے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں ڈال دوں گا،سیدہ نے کہا: کیسے آئے ہو؟ عبید نے کہا میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ سے ایک آیت کے بارے میں سوال کرنا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیسے پڑھا کرتے تھے۔سیدہ نے کہا: وہ کونسی آیت ہے، اس نے کہا: {الَّذِینَیُؤْتُونَ مَا آتَوْا} یا {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا}سیدہ نے کہا: تمہیں ان میں سے کونسی تلاوت زیادہ پسند ہے؟ عبید نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!ان میں سے ایک قرأت مجھے دنیا وما فیہا سے زیادہ پسند ہے، سیدہ نے کہا: وہ کونسی قرأت ہے؟ عبید نے کہا : {الَّذِینَیَأْتُونَ مَا أَ تَوْا} سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی اور اسی طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پڑھا کرتے تھے، لیکن حروف تہجی والی بھی ایک قرأت ہے۔

Haidth Number: 8683
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آیت: {الَّذِینَیُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَ نَّہُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ}… اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں (سورۂ مومنون: ۶۰) میں نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) کیا اس آیت کا مصداق وہ آدمی ہے، جو چوری کرنے والا، زنا کرنے والا اور شراب پینے والا ہو، جبکہ وہ ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے بھی ڈر رہا ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اے بنت ِ صدیق! اس آیت سے مراد وہ آدمی ہے، جو نماز بھی پڑھتا ہے، روزے بھی رکھتا ہے اور صدقہ بھی کرتا ہے، لیکنیہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال قبول ہی نہ ہوں۔

Haidth Number: 8684

۔ (۱۱۰۹۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: لَمَّا أَعْطٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَعْطٰی مِنْ تِلْکَ الْعَطَایَا فِی قُرَیْشٍ وَقَبَائِلِ الْعَرَبِ، وَلَمْ یَکُنْ فِی الْأَنْصَارِ مِنْہَا شَیْئٌ، وَجَدَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنَ الْأَنْصَارِ فِی أَنْفُسِہِمْ حَتّٰی کَثُرَتْ فِیہِمُ الْقَالَۃُ حَتّٰی قَالَ قَائِلُہُمْ: لَقِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْمَہُ فَدَخَلَ عَلَیْہِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا الْحَیَّ قَدْ وَجَدُوْا عَلَیْکَ فِی أَنْفُسِہِمْ لِمَا صَنَعْتَ فِی ہٰذَا الْفَیْئِ الَّذِی أَصَبْتَ، قَسَمْتَ فِی قَوْمِکَ وَأَعْطَیْتَ عَطَایَا عِظَامًا فِی قَبَائِلِ الْعَرَبِ، وَلَمْ یَکُنْ فِی ہٰذَا الْحَیِّ مِنَ الْأَنْصَارِ شَیْئٌ، قَالَ: ((فَأَیْنَ أَنْتَ مِنْ ذٰلِکَ یَا سَعْدُ!)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا أَنَا إِلَّا امْرُؤٌ مِنْ قَوْمِی وَمَا أَنَا، قَالَ: ((فَاجْمَعْ لِی قَوْمَکَ فِی ہٰذِہِ الْحَظِیرَۃِ۔)) قَالَ: فَخَرَجَ سَعْدٌ فَجَمَعَ النَّاسَ فِی تِلْکَ الْحَظِیرَۃِ، قَالَ، فَجَائَ رِجَالٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ فَتَرَکَہُمْ فَدَخَلُوا، وَجَائَ آخَرُونَ فَرَدَّہُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا أَتَاہُ سَعْدٌ فَقَالَ: قَدِ اجْتَمَعَ لَکَ ہٰذَا الْحَیُّ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ بِالَّذِی ہُوَ لَہُ أَہْلٌ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! مَا قَالَۃٌ بَلَغَتْنِی عَنْکُمْ، وَجِدَۃٌ وَجَدْتُمُوہَا فِی أَنْفُسِکُمْ، أَلَمْ آتِکُمْ ضُلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ، وَعَالَۃً فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ، وَأَعْدَائً فَأَلَّفَ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ؟)) قَالُوا: بَلْ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَمَنُّ وَأَفْضَلُ، قَالَ: ((أَلَا تُجِیبُونَنِییَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ!)) قَالُوْا: وَبِمَاذَا نُجِیبُکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ وَلِلّٰہِ وَلِرَسُولِہِ الْمَنُّ وَالْفَضْلُ، قَالَ: ((أَمَا وَاللّٰہِ! لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ فَلَصَدَقْتُمْ وَصُدِّقْتُمْ: أَتَیْتَنَا مُکَذَّبًا فَصَدَّقْنَاکَ، وَمَخْذُولًا فَنَصَرْنَاکَ، وَطَرِیدًا فَآوَیْنَاکَ، وَعَائِلًا فَأَغْنَیْنَاکَ، أَوَجَدْتُمْ فِی أَنْفُسِکُمْ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ فِی لُعَاعَۃٍ مِنَ الدُّنْیَا؟ تَأَلَّفْتُ بِہَا قَوْمًا لِیُسْلِمُوا وَوَکَلْتُکُمْ إِلٰی إِسْلَامِکُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّاۃِ وَالْبَعِیرِ،وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی رِحَالِکُمْ؟ فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ! لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَکَ النَّاسُ شِعْبًا وَسَلَکَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَسَلَکْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ، اللَّہُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَأَبْنَائَ الْأَنْصَارِ وَأَبْنَاء َ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ۔)) قَالَ: فَبَکَی الْقَوْمُ حَتّٰی أَخْضَلُوا لِحَاہُمْ وَقَالُوْا: رَضِینَا بِرَسُولِ اللّٰہِ قِسْمًا وَحَظًّا، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَتَفَرَّقْنَا۔ (مسند احمد: ۱۱۷۵۳)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اموالِ غنیمت میں سے قریش اور دیگر عرب قبائل کو بہت کچھ عنایت فرمایا اور ان میں سے انصار کو کچھ بھی نہ ملا تو اس کی وجہ سے انصار کے اس گروہ نے اپنے دلوں میں کچھ انقباض محسوس کیایہاں تک کہ اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہونے لگیںیہاں تک کہ بعض نے تو یہ تک کہہ دیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ان کی قوم کی محبت غالب آگئی ہے۔ سعد بن عبادہ خزرجی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا اللہ کے رسول آپ نے اس مال غنیمت کی جس انداز سے تقسیم کی ہے لوگوں کے دلوں میں اس کی وجہ سے وسوسے پیدا ہوئے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی قوم، قریش اور دیگر عرب قبائل کو تو بڑے بڑے عطیے عنایت فرما دئیے اور انصار کے قبیلہ کو کچھ بھی نہیں ملا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! ایسی باتیں ہو رہی ہیں تو تم کہاں ہو ؟ انہوں نے عرض کیااللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں تو اپنی ہی قوم کا فرد ہوں۔ لیکن میرے دل میں تو ایسی کوئی بات نہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنی قوم ( انصار) کو اس باڑے میں جمع کرو۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور اپنی ساری قوم جو جمع کر کے اس باڑے میں لے آئے۔ کچھ مہاجرین آئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ اندر آگئے کچھ اور بھی آنا چاہا تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں واپس بھیج دیا، جب سب لوگ جمع ہو گئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حکم کے مطابق انصار جمع ہو چکے ہیں۔ تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے اللہ کے شایانِ شان تعریف کی پھر فرمایا، اے انصار کی جماعت ! تمہاری طرف سے یہ کیسی بات مجھ تک پہنچی ہے؟ کیا تم نے اپنے دلوں میں کچھ رنجش محسوس کی ہے ؟ کیایہ حقیقت نہیں کہ میں تمہارے پاس آیا تو تم راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے تو اللہ نے تمہیں ہدایت سے سرفراز کیا؟ اور تم تنگ درست تھے تو اللہ نے تمہیں مال دار بنا دیا؟ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ؟ سب انصار نے کہا کہ یہ بالکل صحیح ہے اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت فضل اور احسان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اے انصار! کیا تم میری ایک بات نہیں مانو گے؟ وہ بولے اللہ کے رسول! کونسی بات؟ ہم پر تو اللہ اور اس کے رسول کا بہت احسان اور فضل ہے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تمہاری بات ہو گی بھی درست ( کہ تم یوں کہو) کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس ایسی حالت میں آئے جب لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ( یعنی رسول کی ) تکذیب کرتے تھے ہم ( انصار) نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ( آپ کی قوم نے) بے یارومددگارچھوڑا ہوا تھا۔ ہم ( انصار) نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی، قوم نے آپ کو اپنے شہر اور وطن سے بے دخل کر دیا تھا ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رہنے کی جگہ دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ( رسول اور مسلمان،مہاجرین) تنگ دست تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مال دار کیا تو اے انصار کیا تم نے دنیوی معمولی متاع کی وجہ سے دلوں میں رنجش پیدا کر لی، میں نے تو ان لوگوں کو یہ مال اس لیے دیا ہے تاکہ وہ اسلام میں پختہ ہو جائیں اور میں نے تمہیںتو تمہارے اسلام کے سپرد کیا، اے انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کر لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کر گھروں کو واپس لوٹو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جان ہے اگر ہجرت والی سعادت نہیں ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی دوسری گھاٹی میں سے گزریں تو میں بھی اس گھاٹی میں چلوں گا جہاں سے انصار چلیں گے۔ یا اللہ انصار پر، ان کی اولادوں پر اور ان کی اولادوں کی اولادوں پر سب پر رحم فرما۔ ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باتیں سن کر وہ لوگ اس قدر بلک بلک کر رونے لگے کہ آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔ اور وہ کہنے لگے ہم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تقسیم اور اپنے حصہ پر راضی ہیں۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے آئے اور ہم بھی چلے آئے۔

Haidth Number: 11093
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور دریافت فرمایا: کیا تمہارے اندر تمہارے علاوہ کوئی دوسرا فرد تو نہیں ہے؟ انہوں نے بتلایا: جی نہیں، صرف ہمارا ایک بھانجا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بھانجا تو اسی قوم کا ہی فرد ہوتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریش تازہ تازہ کفر چھوڑ کر اور شکست کی مصیبت سے دوچار ہوئے ہیں، میں ان کو کچھ دے دلا کر ان کی تالیف قلبی کرنا چاہتا ہوں، کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ لوگ دنیا کا مال لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں کو جاتے ہوئے اللہ کے رسول کو ساتھ لے کر جاؤ، اگر عام لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار کسی پہاڑی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی گھاٹی کو ترجیح دیتے ہوئے اسی میں چلوں گا۔

Haidth Number: 11094
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ کپڑے لائے گئے، ان میں ایک چھوٹی سی ایک اونی چادر بھی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: تم اس چادر کا سب سے زیادہ کس کو مستحق سمجھتے ہو؟ صحابۂ کرام خاموش رہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لائو۔ پس اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے وہ کپڑا اسے پہنا دیا اور دو دفعہ فرمایا: تم اس کو بوسید کرو، تم اس کو بوسیدہ کرو (یعنی تم زندہ رہو اور دیر تک اسے استعمال کرو)۔ اور آپ اس چادر کے اوپر موجود سرخ یا زرد علامات کو اچھی طرح دیکھتے اور فرماتے: ام خالد! بہت اچھے، بہت اچھے۔ حدیث میں وارد لفظ سناہ حبشی زبان کا ہے، اس کے عربی میں معانی عمدہ، اچھا اور بہترین کا ہے۔

Haidth Number: 11995