Blog
Books
Search Hadith

سورۂ نور {اَلزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ} کی تفسیر

3 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی کہ کیا وہ ام مہزول نامی ایک عورت سے نکاح کر سکتا ہے، یہ خاتون زناکار تھی اور اس نے اس سے شرط لگائی تھی کہ وہ اس پر خرچ کرے گا، جب اس آدمی نے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کییا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَ وْ مُشْرِکٌ} … زناکار عورت سے صرف زنا کار یامشرک مرد ہی نکاح کر سکتا ہے۔ عارم کہتے ہیں: میں معتمر سے حضرمی کے بارے میں پوچھا، انھوں نے کہا: وہ ایک قصہ گو آدمی تھا اور میں نے اس کو دیکھا تھا۔

Haidth Number: 8686

۔ (۱۱۱۰۵)۔ عَنْ أَبِی حُرَّۃَ الرَّقَاشِیِّ عَنْ عَمِّہِ قَالَ: کُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیقِ أَذُودُ عَنْہُ النَّاسَ، فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَتَدْرُونَ فِی أَیِّ شَہْرٍ أَنْتُمْ، وَفِی أَیِّیَوْمٍ أَنْتُمْ، وَفِی أَیِّ بَلَدٍ أَنْتُمْ؟)) قَالُوْا: فِییَوْمٍ حَرَامٍ وَشَہْرٍ حَرَامٍ وَبَلَدٍ حَرَامٍ، قَالَ: ((فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِیَوْمِکُمْ ہٰذَا، فِی شَہْرِکُمْ ہٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ ہٰذَا، إِلٰییَوْمِ تَلْقَوْنَہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اسْمَعُوْا مِنِّی تَعِیشُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا أَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّہُ لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِیبِ نَفْسٍ مِنْہُ، أَلَا وَإِنَّ کُلَّ دَمٍ وَمَالٍ وَمَأْثَرَۃٍ کَانَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمِی ہٰذِہِ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ یُوضَعُ دَمُ رَبِیعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِی بَنِی لَیْثٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَیْلٌ، أَلَا وَإِنَّ کُلَّ رِبًا کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ مَوْضُوعٌ، وَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَضَی أَنَّ أَوَّلَ رِبًا یُوضَعُ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَکُمْ رُء ُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، أَلَا وَإِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِیَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، ثُمَّ قَرَا:َٔ {إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنْفُسَکُمْ} أَلَا لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، أَلَا إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ أَیِسَ أَنْ یَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ، وَلٰکِنَّہُ فِی التَّحْرِیشِ بَیْنَکُمْ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فِی النِّسَائِ، فَإِنَّہُنَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٍ لَا یَمْلِکْنَ لِأَنْفُسِہِنَّ شَیْئًا، وَإِنَّ لَہُنَّ عَلَیْکُمْ وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ حَقًّا، أَنْ لَا یُوطِئْنَفُرُشَکُمْ أَحَدًا غَیْرَکُمْ وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمْ لِأَحَدٍ تَکْرَہُونَہُ، فَإِنْ خِفْتُمْ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ۔)) قَالَ حُمَیْدٌ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: مَا الْمُبَرِّحُ؟ قَالَ: الْمُؤَثِّرُ ((وَلَہُنَّ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوہُنَّ بِأَمَانَۃِ اللّٰہِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ أَمَانَۃٌ فَلْیُؤَدِّہَا إِلٰی مَنْ ائْتَمَنَہُ عَلَیْہَا۔)) وَبَسَطَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟)) ثُمَّ قَالَ: ((لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّہُ رُبَّ مُبَلَّغٍ أَسْعَدُ مِنْ سَامِعٍ۔)) قَالَ حُمَیْدٌ: قَالَ الْحَسَنُ حِینَ بَلَّغَ ہٰذِہِ الْکَلِمَۃَ: قَدْ وَاللّٰہِ! بَلَّغُوْا أَقْوَامًا کَانُوا أَسْعَدَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۷۱)

ابو حرہ رقاشی سے مروی ہے، وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا:ایام تشریق کے دوران میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہٹا رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ تم اس وقت کس مہینے کس دن اور کس شہر میں ہو؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: ہم حرمت والے دن، حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر قیامت تک اسی طرح حرام ہیں، جیسے آج کے دن کی اس مہینے اور شہر میں حرمت ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میری بات سنو، تم میرےبعد زندہ رہو گے، خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، خبردار! زیادتی نہ کرنا، خبردار! ظلم نہیں کرنا، کسی کے لیے کسی دوسرے کا مال اس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔ خبردار! ہر خون، مال اور جاہلیت والی قابلِ فخر بات اب قیامت تک میرے ان قدموں کے نیچے ہے، ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب جو کہ بنو لیث کے ہاں زیر پرورش تھا اور اسے بنو ھذیل نے قتل کر دیا تھا، ہم نے اس کا بدلہ لینا تھا مگر میں سب سے پہلے اس کا قتل معاف کرتا ہوں۔ اور دورِ جاہلیت کا ہر سود معاف ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر دیا ہے۔ سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے وہ سود جو انہوں نے لوگوں سے وصول کرنے ہیں، معاف کرتا ہوں۔ تم اپنے اصل مال لے سکتے ہو۔ تمہیں کسی پر ظلم کرنے کا اور کسی کو تمہارے اوپر ظلم کرنے کا حق نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی {إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیہِنَّ أَنْفُسَکُمْ} … جس دن سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا بے شک اسی دن سے اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیںیہی دین کا سیدھا راستہ ہے تم ان مہینوں کی حرمت کو پامال کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کرنا۔ (سورۂ توبہ: ۳۶) خبردار ! تم میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہیں ہو جانا، خبردار شیطان اب اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی عبادت کریں۔ لیکن وہ تمہارے درمیان لڑائی اور اختلاف کے بیج بونے کی کوشش کرتا رہے گا۔ تم بیویوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہاری خدمت گار ہیں۔ انہیں اپنی جانوں کا کچھ اختیار نہیں۔ بے شک ان کے تمہارے ذمے اور تمہارے ان کے ذمہ بہت سے حقوق ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ جس آدمی کو تم پسند کرتے ہو وہ اسے تمہارے بستر پر کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہ دیں، اور جسے تم پسند نہیں کرتے وہ اسے تمہارے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہ دیں۔ اگر تمہیں اپنی بیویوں کی سرکشی کا اندیشہ ہو تو پہلے انہیں وعظ ونصیحت کرو اور ان سے بستر الگ کر لو، ان کو مارو تو بہت زیادہ نہ مارو۔ حمید کہتے ہیں: میں نے حسن بصری سے دریافت کیا کہ مبرح کا کیا مفہوم ہے؟ کہا اتنا نہ مارو کہ ان کے جسم پرنشانات پڑ جائیں۔ ان کا حق ہے کہ تم انہیں معروف یعنی رواج کے مطابق یااپنی استطاعت کے مطابق کھانا اور لباس دو۔ تم انہیں اللہ کی امانت کا واسطہ دے کر لائے ہو۔ اور تم نے اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق ان کی شرم گاہوں کو اپنے لیے حلال سمجھتا ہے۔ کسی نے تم میں سے کسی کو امین سمجھ کر اس کے پاس امانت رکھی ہو تو اسے واپس کرے، پھر فرمایا خبردار! کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟خبردار کیا میں نے اللہ کا دین تم تک پہنچا دیا؟ پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جن تک بات پہنچائی جائے۔ وہ براہ راست سننے والوں کی نسبت اسے بہتر سمجھنے اور یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ حمید نے بیان کیا کہ حسن بصری جب اس کلمہ پر پہنچے تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم صحابہ کرام نے یہ باتیںایسے لوگوں تک پہنچائیں جنہوں نے ان کو بہتر طور پر سمجھا اور یاد رکھا۔

Haidth Number: 11105
سیدہ ام فروہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، جنھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے اول وقت پر ادا کرنا۔

Haidth Number: 11997