Blog
Books
Search Hadith

سورۂ ص {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰھًا وَاحِدًا} کی تفسیر

5 Hadiths Found

۔ (۸۷۳۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ فَأَ تَتْہُ قُرَیْشٌ وَأَ تَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعُودُہُ، وَعِنْدَ رَأْسِہِ مَقْعَدُ رَجُلٍ فَقَامَ أَ بُو جَہْلٍ فَقَعَدَ فِیہِ، فَقَالُوْا: إِنَّ ابْنَ أَ خِیکَیَقَعُ فِی آلِہَتِنَا، قَالَ: مَا شَأْنُ قَوْمِکَ یَشْکُونَکَ؟ قَالَ: ((یَا عَمِّ! أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی الْعَجَمُ إِلَیْہِمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالَ: مَا ہِیَ؟ قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔))، فَقَامُوْا فَقَالُوْا: أَ جَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا، قَالَ: وَنَزَلَ {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ} فَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ {إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} [ص:۱۔ ۵]، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ الْاِمَامَ اَحْمَدَ): قَالَ اَبِیْ: وَحَدَّثَنَا اَبُوْا اُسَامَۃَ حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَبَادٌ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ،وَقَالَاَبِیْ: قَالَ الْاَشْجَعِیُّ: یَحْیَی بْنُ عَبَادٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ابو طالب بیمار پڑ گئے، قریشی ان کے پاس آئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کی تیمار داری کے لئے تشریف لے آئے،ان کے سر کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تو تھی، لیکن ابو جہل کھڑا ہوا اور اس جگہ میں بیٹھ گیا، پھر قریشیوں نے کہا: ابو طالب! تمہارا یہ بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابو طالب نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: کیا بات ہے، یہ آپ کی قوم آپ کی شکایت کررہی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں انہیں ایک ایسے کلمہ پر متحد کرنا چاہتا ہوں کہ جس کو قبول کرنے سے عرب ان کے تابع ہوں گے اور عجم انہیں جزیہ دیں گے۔ ابو طالب نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: کیا اس نے سب معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا ہے، اس وقت سورۂ ص کییہ آیات نازل ہوئیں: {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْر … … إِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ}

Haidth Number: 8735

۔ (۸۷۳۶)۔ (وَعَنْہُ اَیْضًا) قَالَ: قَالَ لَمَّا مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَہْطٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْہُمْ أَ بُو جَہْلٍ، فَقَالُوْا: یَا أَ بَا طَالِبٍ! ابْنُ أَ خِیکَیَشْتِمُ آلِہَتَنَا یَقُولُ وَیَقُولُ وَیَفْعَلُ وَیَفْعَلُ، فَأَ رْسِلْ إِلَیْہِ فَانْہَہُ، قَالَ: فَأَ رْسَلَ إِلَیْہِ أَ بُو طَالِبٍ، وَکَانَ قُرْبَ أَ بِی طَالِبٍ مَوْضِعُ رَجُلٍ فَخَشِیَ إِنْ دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی عَمِّہِ أَ نْ یَکُونَ أَ رَقَّ لَہُ عَلَیْہِ فَوَثَبَ فَجَلَسَ فِی ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَجِدْ مَجْلِسًا إِلَّا عِنْدَ الْبَابِ فَجَلَسَ، فَقَالَ أَ بُو طَالِبٍ: یَا ابْنَ أَ خِی! إِنَّ قَوْمَکَ یَشْکُونَکَ،یَزْعُمُونَ أَ نَّکَ تَشْتُمُ آلِہَتَہُمْ، وَتَقُولُ وَتَقُولُ وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، فَقَالَ: ((یَا عَمِّ! إِنِّی إِنَّمَا أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی إِلَیْہِمْ بِہَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالُوْا: وَمَا ہِیَ نَعَمْ وَأَ بِیکَ عَشْرًا، قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔)) قَالَ: فَقَامُوْا وَہُم یَنْفُضُوْنَ ثِیَابَہُمْ وَھُمْ یَقُوْلُوْنَ: {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} قَالَ: ثُمَّ قَرَاَ حَتّٰی بَلَغَ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} [ص: ۵۔ ۸]۔ (مسند احمد: ۳۴۱۹)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے تو قریشیوں کا ایک گروہ ان کی تیمار داری کے لئے آیا، ان میں ابو جہل بھی تھا، انہوں نے کہا: ابو طالب ! تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتا ہے، یہ کہتا ہے، یہ کہتا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے۔ ابو طالب نے آپ کو اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا، ابو طالب کے قریب ایک آدمی کی جگہ خالی تھی، ابو جہل کو خدشہ تھاکہ اگر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داخل ہوئے تو قریب ہو کر بیٹھ جائیں گے، اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو طالب کو اپنے بھتیجے پر ترس آ جائے، اس لیےیہ کود کر اس خالی جگہ پر بیٹھ گیا، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داخل ہوئے اوربیٹھنے کی جگہ نہ پائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ ابو طالب نے کہا: اے بھتیجے! تمہاری قوم تمہاری شکایت کر رہی ہے کہ تم ان کے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو اور یہیہ کہتے ہو اور ایسے ایسے کرتے ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں ان سے ایسا کلمہ چاہتا ہوں کہ جس کی وجہ سے عرب ان کے تابع ہو جائیں گے اور عجمی ان کو جزیہ دیں گے۔ انہوں نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ تیرے باپ کی قسم! ہم یہ اور اس طرح کی دس باتیں قبول کریں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ ہے۔ یہ سن کر وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے (جیسا کہ اللہ تعالی نے کہا:) {اَجَعَلَ الْآلِھَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} … کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا ؟ بلاشبہ یہیقینا بہت عجیب بات ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آگے تلاوت کی،یہاں تک کہ {لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ} تک پہنچ گئے۔

Haidth Number: 8736

۔ (۱/۱۱۳۲۲)۔ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: کُنْتُ أَرْعَی غَنَمًا لِعُقْبَۃَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ، فَمَرَّ بِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ، فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ! ہَلْ مِنْ لَبَنٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلَکِنِّی مُؤْتَمَنٌ، قَالَ: ((فَہَلْ مِنْ شَاۃٍ لَمْ یَنْزُ عَلَیْہَا الْفَحْلُ؟)) فَأَتَیْتُہُ بِشَاۃٍ، فَمَسَحَ ضَرْعَہَا، فَنَزَلَ لَبَنٌ، فَحَلَبَہُ فِی إِنَائٍ، فَشَرِبَ، وَسَقَی أَبَا بَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اِقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَیْتُہُ بَعْدَ ہَذَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ، قَالَ: فَمَسَحَ رَأْسِی، وَقَال: ((یَرْحَمُکَ اللَّہُ، فَإِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلَّمٌ۔)) وَفِیْ رِوَایۃ: ثُمَّ أَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِصَخْرَۃٍ مُنْقَعِرَۃٍ، فَاحْتَلَبَ فِیہَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبَ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ: ((اقْلِصْ۔)) فَقَلَصَ، فَأَتَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ، فَقُلْت: عَلِّمْنِی مِنْ ہَذَا الْقَوْلِ؟ قَال: ((إِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ۔)) قَال: فَأَخَذْتُ مِنْ فِیہِ سَبْعِینَ سُورَۃً، لَا یُنَازِعُنِی فِیہَا أَحَدٌ۔ (مسند احمد: ۳۵۹۸)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عقبہ بن ابو معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لڑکے! کیا دودھ موجود ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، لیکن مجھے اس مال پر امین بنایا گیا ہے (لہذا میں اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسی بکری ہے، جس کی بکرے سے جفتی نہ کرائی گئی ہو؟ پس میں اس قسم کی ایک بکری لے آیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے تھن کو چھوا تو اس میں دودھ اتر آیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو ایک برتن میں دوہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود بھی پیا اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی پلایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس دین میں کچھ تعلیم دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تعالی تجھ پر رحم کرے، تو تو پیارا سا تعلیمیافتہ لڑکا ہے۔ ایک روایت میں ہے: پھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پیالہ نما پتھر لے کر آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں دودھ دوہا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور میں نے دودھ پیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تھن سے فرمایا: سکڑ جا۔ پس وہ سکڑ گیا۔ اس کے بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اس دین میں کچھ سکھا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو تو سکھایا ہوا لڑکا ہے۔ پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دہن مبارک سے ستر سورتیں سیکھی تھیں، اس میں کسی کا مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔

Haidth Number: 11322
حمادبن سلمہ کہتے ہیں: میں نے قیس قبیلہ کے ایک بزرگ سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کر رہے تھے کہ انھوں نے کہا: نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ ہماری ایک سرکش اونٹنی تھی، ہم اس کو قابو نہیں کر سکتے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے قریب ہوئے، اس کے تھنوں کو چھوا، پس وہ تو دودھ سے بھر گئے، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دودھ دوہا۔ جب میرے باپ فوت ہوئے تو میں نے ان کو ان کے کفن میں لپیٹا اور کھجور کے درخت کا کانٹا لے کر اس کے ذریعے ان کے کفن کو باندھ دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے باپ کو اس کانٹے کے ذریعے تکلیف نہ دے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سینے سے کپڑا ہٹایا، جھلی کو پھینک دیا اور ان کے سینے پر تھوکا،یہاں تک کہ میں نے باقاعدہ ان کے سینے پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تھوک کے قطرے دیکھے۔

Haidth Number: 11322
سیدنا خباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیٹی سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرے باپ ایک لشکر میں چلے گئے، نبی ٔ کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارا بہت خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے لیے ہماری بکری بھی دوہ دیتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو دوہتے تھے تو دودھ برتن سے بہہ پڑتا تھا، لیکن جب سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوٹے اور اسی بکری سے دودھ دوہا تو پہلے کی طرح دودھ کم ہو گیا، ہم نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس بکری کا دودھ دوہتے تھے تو دودھ بہہ پڑتا تھا، لیکن برتن بھر جاتا تھا، لیکن جب آپ نے دودھ دوہا ہے تو یہ دودھ واپس چلا گیا ہے۔

Haidth Number: 11322