Blog
Books
Search Hadith

{قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ} کی تفسیر

3 Hadiths Found

۔ (۸۸۰۴)۔ حَدَّثَنَا أَ بُو الْیَمَانِ أَ خْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنْ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَ خْبَرَنِی عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی ثَوْرٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ لَمْ أَ زَلْ حَرِیصًا عَلٰی أَنْ أَسْأَ لَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ الْمَرْأَ تَیْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللَّتَیْنِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} حَتّٰی حَجَّ وَحَجَجْتُ مَعَہُ وَعَدَلَ وَعَدَلْتُ مَعَہُ بِإِدَاوَۃٍ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ جَائَ فَسَکَبْتُ عَلٰییَدَیْہِ مِنْہَا فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ لَہُ: یَا أَ مِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَنِ الْمَرْأَ تَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللَّتَانِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا} قَالَ: وَاعَجَبًا لَکَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! ہُمَا عَائِشَۃُ وَحَفْصَۃُ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ عُمَرُ الْحَدِیثَیَسُوقُہُ قَالَ کُنْتُ أَ نَا وَجَارٌ لِی مِنْ الْأَ نْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہُمْ مِنْ عَوَالِی الْمَدِینَۃِ وَکُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَنْزِلُیَوْمًا وَأَ نْزِلُ یَوْمًا فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُہُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مِنْ الْوَحْیِ أَ وْ غَیْرِہِوَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذٰلِکَ وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی الْأَ نْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَأْخُذْنَ مِنْ أَ دَبِ نِسَائِ الْأَ نْصَارِ فَصَخِبْتُ عَلَی امْرَأَ تِی فَرَاجَعَتْنِی فَأَ نْکَرْتُ أَ نْ تُرَاجِعَنِی قَالَتْ وَلِمَ تُنْکِرُ أَ نْ أُرَاجِعَکَ فَوَاللّٰہِ إِنَّ أَ زْوَاجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیُرَاجِعْنَہُ وَإِنَّ إِحْدَاہُنَّ لَتَہْجُرُہُ الْیَوْمَ حَتَّی اللَّیْلِ فَأَ فْزَعَنِی ذٰلِکَ وَقُلْتُ لَہَا قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکِ مِنْہُنَّ ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ لَہَا: أَیْ حَفْصَۃُ! أَ تُغَاضِبُ إِحْدَاکُنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْیَوْمَ حَتَّی اللَّیْلِ قَالَتْ نَعَمْ فَقُلْتُ قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ أَ فَتَأْمَنِینَ أَنْ یَغْضَبَ اللّٰہُ لِغَضَبِ رَسُولِہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَہْلِکِی لَا تَسْتَکْثِرِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا تُرَاجِعِیہِ فِی شَیْئٍ وَلَا تَہْجُرِیہِ وَسَلِینِی مَا بَدَا لَکِ وَلَا یَغُرَّنَّکِ أَ نْ کَانَتْ جَارَتُکِ أَ وْضَأَ مِنْکِ وَأَ حَبَّ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُرِیدُ عَائِشَۃَ قَالَ عُمَرُ: وَکُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَ نَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَیْلَ لِغَزْوِنَا فَنَزَلَ صَاحِبِی الْأَ نْصَارِیُّیَوْمَ نَوْبَتِہِ فَرَجَعَ إِلَیْنَا عِشَائً فَضَرَبَ بَابِی ضَرْبًا شَدِیدًا وَقَالَ أَ ثَمَّ ہُوَ فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ الْیَوْمَ أَ مْرٌ عَظِیمٌ، قُلْتُ: مَا ہُوَ؟ أَ جَائَ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا بَلْ أَ عْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَہْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَائَہُ وَقَالَ عُبَیْدُ بْنُ حُنَیْنٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ فَقَالَ اعْتَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَزْوَاجَہُ فَقُلْتُ خَابَتْ حَفْصَۃُ وَخَسِرَتْ قَدْ کُنْتُ أَ ظُنُّ ہٰذَا یُوشِکُ أَ نْ یَکُونَ فَجَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی فَصَلَّیْتُ صَلَاۃَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَشْرُبَۃً لَہُ فَاعْتَزَلَ فِیہَا وَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَإِذَا ہِیَ تَبْکِی فَقُلْتُ: مَا یُبْکِیکِ أَ لَمْ أَ کُنْ حَذَّرْتُکِ ہٰذَا؟ أَ طَلَّقَکُنَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: لَا أَدْرِی، ہَا ہُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِی الْمَشْرُبَۃِ فَخَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَی الْمِنْبَرِ فَإِذَا حَوْلَہُ رَہْطٌ یَبْکِی بَعْضُہُمْ فَجَلَسْتُ مَعَہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ الْمَشْرُبَۃَ الَّتِی فِیہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ لِغُلَامٍ لَہُ أَ سْوَدَ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ فَکَلَّمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ کَلَّمْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَانْصَرَفْتُ حَتّٰی جَلَسْتُ مَعَ الرَّہْطِ الَّذِینَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ فَقُلْتُ لِلْغُلَامِ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّہْطِ الَّذِینَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَ جِدُ فَجِئْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیَّ فَقَالَ قَدْ ذَکَرْتُکَ لَہُ فَصَمَتَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ مُنْصَرِفًا قَالَ إِذَا الْغُلَامُ یَدْعُونِی فَقَالَ قَدْ أَ ذِنَ لَکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی رِمَالِ حَصِیرٍ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ فِرَاشٌ قَدْ أَ ثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِہِ مُتَّکِئًا عَلَی وِسَادَۃٍ مِنْ أَ دَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ثُمَّ قُلْتُ وَأَ نَا قَائِمٌ یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَ طَلَّقْتَ نِسَائَکَ فَرَفَعَ إِلَیَّ بَصَرَہُ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللّٰہُ أَ کْبَرُ ثُمَّ قُلْتُ وَأَ نَا قَائِمٌ أَ سْتَأْنِسُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَوْ رَأَ یْتَنِی وَکُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ لَوْ رَأَ یْتَنِی وَدَخَلْتُ عَلٰی حَفْصَۃَ فَقُلْتُ لَہَا لَا یَغُرَّنَّکِ أَ نْ کَانَتْ جَارَتُکِ أَ وْضَأَ مِنْکِ وَأَ حَبَّ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُرِیدُ عَائِشَۃَ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَبَسُّمَۃً أُخْرٰی فَجَلَسْتُ حِینَ رَأَ یْتُہُ تَبَسَّمَ فَرَفَعْتُ بَصَرِی فِی بَیْتِہِ فَوَاللّٰہِ مَا رَأَ یْتُ فِی بَیْتِہِ شَیْئًایَرُدُّ الْبَصَرَ غَیْرَ اُہْبَۃٍ ثَلَاثَۃٍ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ فَلْیُوَسِّعْ عَلٰی أُمَّتِکَ فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْہِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْیَا وَہُمْ لَا یَعْبُدُونَ اللّٰہَ فَجَلَسَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ: ((أَوَفِی ہٰذَا أَ نْتَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ! إِنَّ أُولَئِکَ قَوْمٌ عُجِّلُوا طَیِّبَاتِہِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! اسْتَغْفِرْ لِی فَاعْتَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نِسَائَہُ مِنْ أَ جْلِ ذٰلِکَ الْحَدِیثِ حِینَ أَ فْشَتْہُ حَفْصَۃُ إِلٰی عَائِشَۃَ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً وَکَانَ قَالَ مَا أَ نَا بِدَاخِلٍ عَلَیْہِنَّ شَہْرًا مِنْ شِدَّۃِ مَوْجِدَتِہِ عَلَیْہِنَّ حِینَ عَاتَبَہُ اللّٰہُ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ فَبَدَأَ بِہَا فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِنَّکَ کُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَیْنَا شَہْرًا وَإِنَّمَا أَ صْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً أَ عُدُّہَا عَدًّا فَقَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً فَکَانَ ذٰلِکَ الشَّہْرُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً قَالَتْ عَائِشَۃُ: ثُمَّ أَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی آیَۃَ التَّخَیُّرِ فَبَدَأَ بِی أَوَّلَ امْرَأَ ۃٍ مِنْ نِسَائِہِ فَاخْتَرْتُہُ ثُمَّ خَیَّرَ نِسَائَہُ کُلَّہُنَّ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَۃُ۔ (مسند احمد: ۲۲۲)

۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: مجھے ہمیشہیہ خواہش رہی کہ میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھوں کہ وہ کون سی دو عورتیں ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}… اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہیقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، (قضاء حاجت کے لئے) وہ راہ سے ہٹے، میں بھی ان کے ساتھ لوٹا لے کر مڑگیا، جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر لوٹے سے پانی ڈالا، انہوں نے وضو کیا، اب میں نے کہا: اے امیرالمومنین! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وہ دو بیویاں کون کون سی ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا}… اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ کرو (تو بہتر ہے) کیونکہیقینا تمھارے دل (حق سے) ہٹ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا: اے ابن عباس! مجھے تم پر بڑا تعجب آرہا ہے، سنو، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ ہیں، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بقیہ حدیث بیان کی کہ میں اور ایک میرا انصاری پڑوسی (محلہ) بنی امیہ میں رہتے تھے، جو مدینہ کے اونچے علاقہ میں واقع تھا، ہم دونوں باری باری سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، جس دن میں جاتا، اپنے ساتھی کو اس دن کی وحی وغیرہ کی تمام خبریں آکر بتا دیتا اورجب وہ جاتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا، بات یہ ہے کہ ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ انصاری عورتیں مردوں پر غالب ہیں، ہماری عورتیں بھی انصاری خواتین کی باتیں سیکھنے لگیں، ایک دن میںاپنی بیوی پر چیخا، اس نے آگے سے جواب دے دیا، اس کا پلٹ کر جواب دینا مجھے ناگوار گزرا، لیکن اس نے کہا: میرا جواب کیوں برا لگتا ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویاں بھی آپ کو جواب دیتی ہیں اور کوئی کسی دن رات تک آپ کو چھوڑ بھی دیتی ہے، میں اس بات سے گھبرایا اور میں نے کہا: جس نے یہ کیا اس کا ستیاناس ہو، پھر میں تیار ہو کر چلا اور حفصہ کے پاس جا کر پوچھا؛ اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو رات تک خفا رکھتی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں نے کہا: وہ تو نامراد اور خسارہ میں ہے، کیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے غصہ سے اللہ کو غصہ آجائے اور اس طرح وہ عورت ہلاک ہوجائے، اب تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ مانگا کرو نہ آپ کو کچھ جواب دیا کرو اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے باتیں کرنی چھوڑا کرو، اگر تمہیں ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو اور تجھے یہ چیز دھوکے میں نہ ڈالے کہ تیری پڑوسن تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پسندیدہ ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مراد سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تھیں، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم یہ بات سنتے رہتے تھے کہ غسان (شام کا بادشاہ) ہم سے لڑنے کے لئے گھوڑوں کے نعل لگوا رہا ہے، ایک مرتبہ میرا انصاری دوست اپنی باری کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر رہا اور شام کو واپس آیا تو میرا دروازہ زور سے کھٹکھٹایااور پوچھا: عمر ہیں؟ میں گھبرا کر ان کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا: آج ایک بڑا حادثہ رونما ہوا ہے، میں نے کہا: وہ کیا؟ کیا غسانی لشکر تو نہیں آگیا؟ اس نے کہا: یہ بات نہیں، اس سے بھی بڑی بات واقع ہوئی ہے، ایک ہولناک واقعہ ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے کہا: بس حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تو نامراد اور خسارے میں ہوگئی، میرا خیال تھا کہ عنقریب ایسے ہوگا، میں نے کپڑے پہنے اور صبح کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ادا کی، (نماز سے فارغ ہو کر) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ایک بالائی کمرے میں چلے گئے اور اس کے گوشے میں جا کر بیٹھ گئے اور میں حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس چلا گیا،کیا دیکھتا ہوں کہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تو رو رہی ہیں، میں نے پوچھا: کس بات سے رو رہی ہو؟ کیا میں نے تمہیں ڈرایا نہیں تھا؟ کیا تم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ اس نے جواب دیا: مجھے معلوم نہیں ہے، آپ اس بالاخانے میں تشریف فرما ہیں پھر میں نکل کر منبر کے پاس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہیں اور بعض رو رہے ہیں، میں تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھارہا، پھر میرا دل نہ رہ سکا اور میں اسی بالائی کوٹھڑی کے پاس، جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجودتھے، آیا اور آپ کے حبشی غلام سے کہا: میرے لئے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت لو، غلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جا کر عرض کیا اور واپس آکر کہا کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا اور تمہارا ذکر کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چپ ہو رہے، میں واپس آکر پھر ان لوگوں ساتھ بیٹھ گیا، جو منبر کے پاس تھے پھر دل نے بے قرار کیا اور میں نے غلام سے جا کر کہا: میرے لئے اجازت مانگو، وہ جا کر پھر لوٹا اور کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تمہارا ذکر کیا ہے، مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، پھر میں ان لوگوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا، پھر میرا دل بے قرار ہوا اور میں نے جا کر غلام سے کہا: میرے لئے ایک مرتبہ پھر جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت مانگو، غلام اندر گیا اور واپس آکر مجھے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تمہارا ذکر کیا ہے، مگر آپ خاموش ہو رہے ہیں، پھر پلٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک غلام نے کہا:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تم کو اجازت دے دی، جب میں اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرکار دوعالم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چھال بھرا تکیہ رکھے کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، جس سے آپ کے جسد اطہر پر نشان پڑ گئے ہیں، میں نے جا کر کھڑے ہی کھڑے کہا: السلام علیکم، اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف آنکھ اٹھا کر فرمایا: نہیں، میں نے متعجب ہو کر کہا: اللہ اکبر، پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے دل بہلانے کے واسطے عرض کیا: کاش آپ میری طرف متوجہ ہوں، ہم قریشی لوگ عورتوں پر غالب تھے، لیکن جب مدینہ آئے تو یہاں ایسی قوم کو دیکھا کہ ان کی عورتیں مردوں پر غالب ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے، پھر میں نیعرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ میرا حال سنیں تو میںکچھ کہنا چاہتا ہوں، میں نے حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر اس سے کہا: تجھے یہ بات دھوکے میں نہ ڈالے کہ تیری پڑوسن یعنی عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا تجھ سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ کی محبوب بیوی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوبارہ مسکرانے لگے، میں سرکار دوعالم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہنستے دیکھ کر بیٹھ گیا، آپ کے مکان کے اندر ہر طرف نگاہ اٹھا کر میں نے دیکھا، بس اللہ کی قسم! وہاں تین کھالوں کے علاوہ مجھے اور کوئی چیز نظر نہ آئی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول: آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی کرے، فارس اورروم پر تو ہر چیز کی فراوانی کی گئی ہے اور ان کے پاس بے حد دنیاوی سامان ہے، جبکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ٹیک لگائے بیٹھے تھے، یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اس خیال کے بندے ہو؟ ان لوگوں کی اچھائیوں کا بدلہ ان کو اسی دنیا میں ملتا ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ میرے لئے بخشش کی دعا فرمائیے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی بات کی وجہ سے جو کہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر ظاہر کردی تھی، اپنی بیویوں سے انتیس دن تک الگ ہوگئے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غصے سے فرمایا: میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا۔ جب انتیس دن گذرگئے، تو آپ پہلے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، ابھی تک تو انتیس دن ہوئے ہیں، میں مسلسل گن رہی ہوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مہینہ انتیس کا ہی ہوا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: پھر اللہ نے آیت ِ تخییر نازل فرمائی، سب بیویوں سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا، میں نے آپ کو اختیار کیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب بیویوں کو اختیار دیا، ان سب نے میری طرح کا جواب دیا۔

Haidth Number: 8804

۔ (۸۸۰۵)۔ عَنْ أَ نَسٍ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ فِی ثَلَاثٍ، أَ وْ وَافَقَنِی رَبِّی فِی ثَلَاثٍ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوِ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّی، قَالَ: فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی} [البقرہ: ۱۲۵] وَقُلْتُ: لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنَّہُ یَدْخُلُ عَلَیْکَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَأُنْزِلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ، قَالَ: وَبَلَغَنِی عَنْ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئٌ فَاسْتَقْرَیْتُہُنَّ أَ قُولُ لَہُنَّ لَتَکُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَ وْ لَیُبْدِلَنَّہُ اللّٰہُ بِکُنَّ أَ زْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ، حَتّٰی أَ تَیْتُ عَلٰی إِحْدٰی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَقَالَتْ: یَا عُمَرُ! أَ مَا فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا یَعِظُ نِسَائَہُ حَتّٰی تَعِظَہُنَّ، فَکَفَفْتُ فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {عَسٰی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَ نْ یُبْدِلَہُ أَ زْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ} [التحریم: ۵] الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اپنے رب سے تین کاموں میں موافقت کی ہے یا میرے ربّ نے مجھے سے موافقت کی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالیں تو یہ آیت نازل ہوئی {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی}… تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کی عورتوں پر نیک اور بد سب داخل ہوتے ہیں، اگر آپ انہیں پردہ کرنے کا حکم دے دیں تو بہتر ہے، پس پردہ والی آیت نازل ہوئی اور جب مجھے امہات المومنین کے متعلق ایک بات پہنچی میں نے ان کا معاملہ گہری دلچسپی سے دیکھا اورمیں نے ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایسا رویہ اپنانے سے باز رہو، وگرنہ اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے تم سے بہتر بیویاں تبدیل کردے گا، جو مسلمان ہوں گی، جب میں ان میں سے ایک ام المومنین کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: اے عمر! کیا تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں کو نصیحت کرتے ہو؟ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود نہیں کر سکتے؟ پس میں رک گیا، لیکن اُدھر اللہ تعالییہ حکم نازل کر دیا: {عَسٰی رَبُّہٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا} … اس کارب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔

Haidth Number: 8805
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پردہ کو اٹھا دیا جانا تمہارے لیے آگے آجانے کی اجازت کے مترادف ہے اور تم میری راز کی باتوں کو سننے کے بھی مجازہو، یہاں تک کہ میں تمہیں اس سے روک دوں۔ ابو عبدالرحمن نے کہا: سِوَاد کے معانی راز کے ہیں،یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں راز کی باتیں سننے کی اجازت دے رکھی تھی۔

Haidth Number: 11491