Blog
Books
Search Hadith

سورۃ الانفال کی تفسیر : {یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ}

8 Hadiths Found

۔ (۸۶۰۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَشَہِدْتُ مَعَہُ بَدْرًا، فَالْتَقَی النَّاسُ، فَہَزَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَۃٌ فِی آثَارِہِمْ یَہْزِمُونَوَیَقْتُلُونَ، فَأَکَبَّتْ طَائِفَۃٌ عَلَی الْعَسْکَرِ یَحْوُونَہُ وَیَجْمَعُونَہُ، وَأَ حْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُصِیبُ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ وَفَائَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ الَّذِینَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَیْنَاہَا وَجَمَعْنَاہَا فَلَیْسَ لِأَ حَدٍ فِیہَا نَصِیبٌ، وَقَالَ الَّذِینَ خَرَجُوا فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ نَفَیْنَا عَنْہَا الْعَدُوَّ وَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَالَ الَّذِینَ أَ حْدَقُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ أَ حْدَقْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخِفْنَا أَ نْ یُصِیبَ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً وَاشْتَغَلْنَا بِہِ، فَنَزَلَتْ: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَوَاقٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَ غَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَ قْبَلَ رَاجِعًا وَکُلَّ النَّاسِ نَفَلَ الثُّلُثَ، وَکَانَ یَکْرَہُ الْأَ نْفَالَ، وَیَقُولُ: ((لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِینَ عَلٰی ضَعِیفِہِم۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۴۲)

۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، میں غزوۂ بدر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب لوگوں کا مقابلہ ہوا تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دی، لشکرِ اسلام میں سے کچھ لوگ دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے اور ان کو قتل کرتے ہوئے ان کاپیچھا کرنے لگ گے اور ایک حصہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اس کو جمع کرنے لگا اور ایک حصے نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے میں لے لیا، تاکہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور سارے لوگ لوٹ آئے، غنیمتیں جمع کرنے والوں نے کہا: ہم نے یہ مال جمع کیا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، دشمن کا پیچھا کرنے والے گروہ نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کے مستحق نہیں ہو، ہم نے اس مال سے دشمن کو ہٹایا اور اس کو شکست دی، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حفاظت کرنے والوں نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کا حق نہیں رکھتے، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے رکھا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نقصان پہنچا دے اور اس طرح ہم اُدھر مصروف رہے، پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} … وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کے فَوَاق کی مقدار کے برابر وقت میں اس مال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی سرزمین میں حملہ کرتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے تھے اور اگر واپسی پر ایسا ہوتا ہے تو مجاہدین کی تھکاوٹ کی وجہ سے ایک تہائی حصہ زائد دیتے تھے، ویسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کو ناپسند کرتے تھے کہ لوگ زائد حصے کی حرص رکھیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: قوی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کمزوروں کو زائد حصوں میں شریک کریں۔

Haidth Number: 8606
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبادہ بن صامت سے انفال والی آیت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: ہم بدر والوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، جب ہم نے مالِ غنیمت میں اختلاف کیا اور اس بارے میں ہم سے بداخلاقی ہونے لگی تو اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں سے یہ چیز چھین لی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دیا۔

Haidth Number: 8606
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن جب میرا بھائی عمیر قتل ہوا اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار پکڑ لی، اس تلوار کا نام ذُوْ الْکَتِیفَۃِ تھا۔ میں وہ تلوار لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس کو مال غنیمت میں رکھ دو۔ پس میں لوٹا، لیکن میرے بھائی کے قتل کی وجہ سے مجھے صدمہ تھا، وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا تھا اور میرا مخالف سے چھینا ہوا مال بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لے لیا، بس میں تھوڑی دیر ہی آگے چلا تھا کہ سورۂ انفال نازل ہو گئی اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: سعد جائو اپنی تلوار لے لو۔

Haidth Number: 8607
۔ (دوسری سند) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی جانب سے شفا دے دی ہے، پس آپ یہ تلوار مجھے عطا کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تلوار تمہاری ہے نہ میری،یہ مال غنیمت ہے، لہٰذا اس کو رکھ دو۔ میں نے اس رکھ دیا اور پھر واپس آ گیا، لیکنیہ خیال آ رہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ تلوار ایسے شخص کو دے دی جائے، جو میری طرح کے جوہر نہ دکھا سکے، اتنے میں مجھے میرے پیچھے سے کوئی آدمی بلا رہا تھا، میں نے سوچھا کہ میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے تلوار کا سوال کیا تھا، لیکن وہ میری نہیں تھی، اب وہ مجھے بطورِ ہبہ دی جا چکی ہے، لہٰذا اب یہ تیری ہے۔ یہ آیت نازل ہوئی تھی: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ}

Haidth Number: 8607

۔ (۱۰۸۹۶)۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلٰی بَنِی أَحْسِبُہُ قَالَ: جَذِیمَۃَ، فَدَعَاہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَلَمْ یُحْسِنُوا أَنْ یَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا یَقُولُونَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا، وَجَعَلَ خَالِدٌ بِہِمْ أَسْرًا وَقَتْلًا، قَالَ: وَدَفَعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرًا حَتّٰی إِذَا أَصْبَح یَوْمًا أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ یَقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِیرَہُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ لَا أَقْتُلُ أَسِیرِی، وَلَا یَقْتُلُرَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِی أَسِیرَہُ، قَالَ: فَقَدِمُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرُوا لَہُ صَنِیعَ خَالِدٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَفَعَ یَدَیْہِ: ((اللّٰہُمَّ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ۔)) مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۶۳۸۲)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بنو جزیمہ کی طرف روانہ کیا، انہوں نے جا کر انہیں اسلام کی دعوت پیش کی، وہ اچھی طرح اَسْلَمْنَا ( ہم مسلمان ہیں) نہ کہہ سکے، اس کی بجائے انہوں نے صَبَأْنَا صَبَأْنَا (ہم صابی ہو گئے، صابی ہو گئے) کہا۔ ان کییہ بات سن کر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے بعض کو قتل اور بعض کو قیدی بنانا شروع کیا اور انہوں نے ایک ایک قیدی کو ہمارے حوالے کیایہاں تک کہ ایک دن صبح ہوئی تو انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے ہر آدمی اپنے اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں تو اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ پھر جب صحابہ کرام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا،یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کو اُٹھا کر دو دفعہ فرمایا: یا اللہ ! خالد نے جو کچھ کیا ہے، میں اس سے برائت اور لا تعلقی کا اظہار کرتا ہوں۔

Haidth Number: 10896

۔ (۱۱۸۰۲)۔ عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ الْحَرُورِیُّ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ الصِّبْیَانِ، وَعَنِ الْخُمُسِ لِمَنْ ہُوَ؟ وَعَنِ الصَّبِیِّ مَتٰی یَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ؟ وَعَنِ النِّسَائِ ہَلْ کَانَ یُخْرَجُ بِہِنَّ أَوْ یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ؟ وَعَنِ الْعَبْدِ ہَلْ لَہُ فِی الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ؟ قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ، أَمَّا الصِّبْیَانُ فَإِنْ کُنْتَ الْخَضِرَ تَعْرِفُ الْکَافِرَ مِنَ الْمُؤْمِنِ فَاقْتُلْہُمْ، وَأَمَّا الْخُمُسُ فَکُنَّا نَقُولُ: إِنَّہُ لَنَا فَزَعَمَ قَوْمُنَا أَنَّہُ لَیْسَ لَنَا، وَأَمَّا النِّسَائُ فَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْرُجُ مَعَہُ بِالنِّسَائِ فَیُدَاوِینَ الْمَرْضٰی وَیَقُمْنَ عَلَی الْجَرْحٰی وَلَا یَحْضُرْنَ الْقِتَالَ، وَأَمَّا الصَّبِیُّ فَیَنْقَطِعُ عَنْہُ الْیُتْمُ إِذَا احْتَلَمَ، وَأَمَّا الْعَبْدُ فَلَیْسَ لَہُ مِنَ الْمَغْنَمِ نَصِیبٌ وَلٰکِنَّہُ قَدْ کَانَ یُرْضَخُ لَہُمََََََََْ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۷)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نجدہ حروری نے ان کے نام ایک خط لکھ کر ان سے یہ مسائل دریافت کئے: بچوں کو قتل کرنا کیسا ہے؟ خمس کے اہل کون لوگ ہیں؟بچے پر سے یتیمی کا اطلاق کب ختم ہوتا ہے؟ کیا عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیںیا نہیں؟ کیا مال غنیمت میں غلام کا بھی حصہ ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواباً تحریر کیا: اگر تم خضر ہو اور جانتے ہو کہ بچہ بڑا ہو کر کافر بنے گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو ، رہا مسئلہ خمس کا تو ہم تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ہمارا یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق ہے، اب ہم میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ہمارا حق نہیں۔اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواتین کو اپنے ساتھ جہاد میں لے جایا کرتے تھے، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتیں، مریضوںکی تیمارداری کرتیں، البتہ جنگ میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔بچہ جب بالغ ہو جائے تو اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔غلام کا مال غنیمتمیں کچھ حصہ نہیں، البتہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ بطور عطیہ دیا جاتا تھا۔

Haidth Number: 11802

۔ (۱۱۸۰۳)۔ عَنْ یَزِیدَ بْنِ ہُرْمُزَ قَالَ: کَتَبَ نَجْدَۃُ بْنُ عَامِرٍ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ یَسْأَلُہُ عَنْ أَشْیَائَ، فَشَہِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِینَ قَرَأَ کِتَابَہُ وَحِینَ کَتَبَ جَوَابَہُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَاللّٰہِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّہُ عَنْ شَرٍّ یَقَعُ فِیہِ مَا کَتَبْتُ إِلَیْہِ وَلَا نَعْمَۃَ عَیْنٍ، قَالَ: فَکَتَبَ إِلَیْہِ إِنَّکَ سَأَلْتَنِی عَنْ سَہْمِ ذَوِی الْقُرْبَی الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ ہُمْ؟ وَإِنَّا کُنَّا نُرٰی قَرَابَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ہُمْ فَأَبٰی ذٰلِکَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلَہُ عَنِ الْیَتِیمِ مَتٰی یَنْقَضِی یُتْمُہُ؟ وَإِنَّہُ إِذَا بَلَغَ النِّکَاحَ، وَأُونِسَ مِنْہُ رُشْدٌ، دُفِعَ إِلَیْہِ مَالُہُ وَقَدِ انْقَضٰی یُتْمُہُ، وَسَأَلَہُ ہَلْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْتُلُ مِنْ صِبْیَانِ الْمُشْرِکِینَ أَحَدًا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَقْتُلْ مِنْہُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ الَّذِی قَتَلَہُ، وَسَأَلَہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ وَالْعَبْدِ ہَلْ کَانَ لَہُمَا سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟ وَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ لَہُمْ سَہْمٌ مَعْلُومٌ إِلَّا أَنْ یُحْذَیَا مِنْ غَنَائِمِ الْمُسْلِمِینَ۔ (مسند احمد: ۲۲۳۵)

یزید بن ہرمز سے مروی ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خط لکھ کر ان سے چند مسائل دریافت کئے، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب اس کا خط پڑھ کر اس کے سوالات کے جوابات لکھوائے تو میں بھی وہاں موجود تھا، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ جس شر یعنی برائی اور فتنے میں گرر ہا ہے، اگر میں اس کو اس سے بچانا نہ چاہ رہا ہوتا تو میں اس کے خط کا جواب نہ دیتا اور نہ اس طرح اسے خوش کرتا، چنانچہ انہوںنے اسے لکھا کہ تم نے مجھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ان قرابت داروں کے حصوں کے متعلق دریافت کیاہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیاہے، کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں، ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ ان قرابت داروں سے ہم ہییعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب مراد ہیں۔ لیکن اب ہماری قوم اس بارے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتی،نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ یتیم سے یتیمی کا اطلاق کب زائل ہوتا ہے؟انہوںنے لکھا کہ جب بچہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور سمجھدار ہوجائے، تب اس کا مال اس کے حوالے کر دیا جائے، اس سے یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔ نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے جواباً لکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکین کے کسی بچے کو قتل نہیں کیا، تم بھی ان میں سے کسی کو قتل نہ کرو، الایہ کہ تم خضر کی طرح علم رکھتے ہو(کہ فلاں بچہ کافر ہی ہو گا تو تم اسے قتل کر سکتے ہو)، اسی طرح نجدہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ آیا مال غنیمت میں عورتوں اور غلاموں کا بھی حصہ مقرر ہے؟ جبکہ وہ میدان جنگ میں حاضر ہوں؟ انھوں نے لکھا کہ عورتوں اور غلاموں کا حصہ مال غنیمت میں سے مقرر نہیں ہے، البتہ ان کو مسلمانوں کے اموال غنیمت میں سے (حوصلہ افزائی کے طور پر) کچھ حصہ بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے۔

Haidth Number: 11803

۔ (۱۲۳۸۰)۔ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عِیَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِیِّ، قَالَ: جَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ شَدَّادٍ، فَدَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَنَحْنُ عِنْدَہَا جُلُوسٌ، مَرْجِعَہُ مِنَ الْعِرَاقِ لَیَالِیَ قُتِلَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَتْ لَہُ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ شَدَّادٍ! ہَلْ أَنْتَ صَادِقِی عَمَّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ، تُحَدِّثُنِی عَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: وَمَا لِی لَا أَصْدُقُکِ؟ قَالَتْ: فَحَدِّثْنِی عَنْ قِصَّتِہِمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمَّا کَاتَبَ مُعَاوِیَۃَ وَحَکَمَ الْحَکَمَانِ خَرَجَ عَلَیْہِ ثَمَانِیَۃُ آلَافٍ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ، فَنَزَلُوْا بِأَرْضٍ یُقَالُ لَہَا: حَرُورَائُ مِنْ جَانِبِ الْکُوفَۃِ، وَإِنَّہُمْ عَتَبُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا: انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِیصٍ أَلْبَسَکَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَاسْمٍ سَمَّاکَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہِ، ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَکَّمْتَ فِی دِینِ اللّٰہِ، فَلَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ تَعَالَی، فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مَا عَتَبُوْا عَلَیْہِ، وَفَارَقُوہُ عَلَیْہِ، فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا، فَأَذَّنَ أَنْ لَا یَدْخُلَ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتِ الدَّارُ مِنْ قُرَّائِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِیمٍ فَوَضَعَہُ بَیْنَیَدَیْہِ، فَجَعَلَ یَصُکُّہُ بِیَدِہِ وَیَقُولُ: أَیُّہَا الْمُصْحَفُ! حَدِّثِ النَّاسَ، فَنَادَاہُ النَّاسُ فَقَالُوْا: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! مَا تَسْأَلُ عَنْہُ؟ إِنَّمَا ہُوَ مِدَادٌ فِی وَرَقٍ، وَنَحْنُ نَتَکَلَّمُ بِمَا رُوِینَا مِنْہُ، فَمَاذَا تُرِیدُ؟: قَالَ أَصْحَابُکُمْ ہٰؤُلَائِ الَّذِینَ خَرَجُوْا، بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ کِتَابُ اللّٰہِ، یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ فِی امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا} فَأُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَۃً مِنْ امْرَأَۃٍ وَرَجُلٍ، وَنَقَمُوا عَلَیَّ أَنْ کَاتَبْتُ مُعَاوِیَۃَ، کَتَبَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَقَدْ جَائَ نَا سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَیْبِیَۃِ حِینَ صَالَحَ قَوْمَہُ قُرَیْشًا، فَکَتَبَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ سُہَیْلٌ: لَا تَکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَقَالَ: ((کَیْفَ نَکْتُبُ؟)) فَقَالَ: اکْتُبْ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَاکْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) فَقَالَ: لَوْ أَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَمْ أُخَالِفْکَ، فَکَتَبَ ہٰذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ قُرَیْشًا،یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} فَبَعَثَ إِلَیْہِمْ عَلِیٌّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَخَرَجْتُ مَعَہُ حَتّٰی إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْکَرَہُمْ، قَامَ ابْنُ الْکَوَّائِ یَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ: یَا حَمَلَۃَ الْقُرْآنِ! إِنَّ ہٰذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَمَنْ لَمْ یَکُنْیَعْرِفُہُ، فَأَنَا أُعَرِّفُہُ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَا یَعْرِفُہُ بِہِ ہٰذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِیہِ وَفِی قَوْمِہِ {قَوْمٌ خَصِمُونَ} فَرُدُّوہُ إِلٰی صَاحِبِہِ، وَلَا تُوَاضِعُوہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَقَامَ خُطَبَاؤُہُمْ فَقَالُوْا: وَاللّٰہِ! لَنُوَاضِعَنَّہُ کِتَابَ اللّٰہِ، فَإِنْ جَائَ بِحَقٍّ نَعْرِفُہُ لَنَتَّبِعَنَّہُ، وَإِنْ جَائَ بِبَاطِلٍ لَنُبَکِّتَنَّہُ بِبَاطِلِہِ، فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللّٰہِ الْکِتَابَ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَرَجَعَ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃُ آلَافٍ کُلُّہُمْ تَائِبٌ، فِیہِمْ ابْنُ الْکَوَّائِ حَتّٰی أَدْخَلَہُمْ عَلٰی عَلِیٍّ الْکُوفَۃَ، فَبَعَثَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی بَقِیَّتِہِمْ، فَقَالَ: قَدْ کَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَیْتُمْ، فَقِفُوا حَیْثُ شِئْتُمْ حَتّٰی تَجْتَمِعَ أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، أَنْ لَا تَسْفِکُوا دَمًا حَرَامًا، أَوْ تَقْطَعُوا سَبِیلًا، أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّۃً، فَإِنَّکُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَیْکُمُ الْحَرْبَ عَلٰی سَوَائٍ، إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ، فَقَالَتْ لَہُ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: یَا ابْنَ شَدَّادٍ! فَقَدْ قَتَلَہُمْ، فَقَالَ: وَاللّٰہِ! مَا بَعَثَ إِلَیْہِمْ حَتّٰی قَطَعُوا السَّبِیلَ، وَسَفَکُوا الدَّمَ، وَاسْتَحَلُّوا أَہْلَ الذِّمَّۃِ، فَقَالَتْ: أَاللّٰہِ؟ قَالَ: أَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ؟ لَقَدْ کَانَ قَالَتْ فَمَا شَیْئٌ بَلَغَنِی عَنْ أَہْلِ الذِّمَّۃِ،یَتَحَدَّثُونَہُیَقُولُونَ ذُو الثُّدَیِّ وَذُو الثُّدَیِّ، قَالَ: قَدْ رَأَیْتُہُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَیْہِ فِی الْقَتْلٰی، فَدَعَا النَّاسَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُونَ ہٰذَا؟ فَمَا أَکْثَرَ مَنْ جَائَ یَقُولُ: قد رأَیْتُہُ فی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَرَأَیْتُہُ فِی مَسْجِدِ بَنِی فُلَانٍ یُصَلِّی، وَلَمْ یَأْتُوا فِیہِ بِثَبَتٍ یُعْرَفُ إِلَّا ذٰلِکَ، قَالَتْ: فَمَا قَوْلُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ قَامَ عَلَیْہِ کَمَا یَزْعُمُ أَہْلُ الْعِرَاقِ، قَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَتْ: ہَلْ سَمِعْتَ مِنْہُ أَنَّہُ قَالَ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: اللّٰہُمَّ لَا، قَالَتْ: أَجَلْ صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، یَرْحَمُ اللّٰہُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، إِنَّہُ کَانَ مِنْ کَلَامِہِ لَا یَرٰی شَیْئًایُعْجِبُہُ إِلَّا قَالَ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، فَیَذْہَبُ أَہْلُ الْعِرَاقِ یَکْذِبُونَ عَلَیْہِ وَیَزِیدُونَ عَلَیْہِ فِی الْحَدِیثِ۔ (مسند احمد: ۶۵۶)

عبیداللہ بن عیاض بن عمرو قاری کہتے ہیں کہ ہم سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر تھے کہ عبیداللہ بن شداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، یہ سید نا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے دنوں کا واقعہ ہے، وہ عراق سے آئے تھے، تو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے فرمایا، عبیداللہ بن شداد! میں تم سے جو پوچھوں کیا تم مجھے سچ سچ بتلاؤ گے؟ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بتلاؤ جن کو علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قتل کیا؟ وہ کہنے لگے مجھے کیا ہے کہ میں آپ کو سچ سچ نہ بتلاؤں؟ تو سیدہ نے فرمایا تو مجھے ان کا پورا واقعہ بیان کر، انہوںنے کہا کہ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ خط و خطابت کی اور دو حاکموں نے فیصلہ کیا تو آٹھ ہزار قاریوں نے ان کے خلاف خروج کیا اور وہ کوفہ کے قریب حروراء کے مقام پر جمع ہوگئے اور انہوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو صلح کرنے پر سرزنش کی، وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قمیص پہنایا اور ایک نام دیا ہے،(قمیص سے مرادخلافت اور نام سے امیر المومنین کا لقب ہے)۔آپ یہ صلح کر کے ان دونوں کے اہل نہیں رہے ہے، کیونکہ آپ نے اللہ کے دین میںغیر کو حکم تسلیم کیاہے، جبکہ فیصلہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک ان لوگوں کی یہ بات پہنچی جس کی اساس پر وہ لوگ ان سے الگ ہوئے تھے تو انہوں نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا اس نے اعلان کیا کہ امیر المومنین کے پاس صرف وہ آدمی آئے جسے قرآن مجید یا دہو، قراء سے گھر بھر گیا تو انہوں نے قرآن مجید منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ ہاتھ مارنے لگے اور کہتے جاتے اے قرآن! لوگوں کو کچھ بیان کر، تو لوگوں نے کہا، امیرالمومنین! آپ سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو محض اور اق پر روشنائی ہے، اس کی بابت جو کچھ ہمیںبیان کیا گیا ہو ہم بولتے ہیں، آپ اصل بات بتلائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا، تمہارے یہ ساتھی جو الگ ہوئے ہیں، ان کے اور میرے مابین اللہ کی کتاب حکم ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک شوہر اور اسکی بیوی کے بارے میں اپنی کتاب میں فرمایا: {وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِنْ أَہْلِہِ وَحَکَمًا مِنْ أَہْلِہَا إِنْ یُرِیدَا إِصْلَاحًا یُوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا}… اور اگر تمہیں ان کے مابین اختلاف کا اندیشہ ہو تو ایک مصنف مرد کی طرف سے اور ایک عورت کی طرف سے مقرر کردو، اگر دونوں منصف اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے مابین موافقت پیدا کر دے گا۔ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خون اور حرمت ایک مرد اور عورت سے کہیں بڑ ھ کر ہے، یہ لوگ مجھ پر معترض ہیں کہ میں نے معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے صلح کر لی ہے، حالانکہ جب حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی قوم قریش کے ساتھ خط و خطابت کی (یعنی صلح کر لی) تھی اور اور کفار کی طرف سے سہیل بن عمرو آیا تھا، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے صلح نامہ لکھوایا تھا اور وہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یعنی میں نے ہی لکھا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ لکھوایا، لیکن سہل نے کہا: تم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ مت لکھو،رسول اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو کیا لکھیں؟ وہ بولا کہ یہ لکھو: بِاسْمِکَ اللَّہُمَّ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ لکھو۔ لیکن سہل نے پھر کہا: اگر میں یہ مانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو میں آپ کی مخالفت نہ کروں، تو آپ نے لکھوایا، یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ} … یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیرت میںبہترین نمونہ ہے، یعنی اس آدمی کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور یوم آخرت کے آنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان لوگوں کی طرف روانہ کیا، میں بھی عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ تھا، جب ہم ان لوگوں کے لشکر کے وسطہ میں پہنچے تو ابن الکواء نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور کہا اے قرآن کے حاملین! یہ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں جو انہیں نہ جانتا ہو، وہ نہ جانتا ہوگا، میں تو انہیں خوب جانتا ہوںاللہ کی کتاب ان کا تعارف کراتی ہے، ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں یہ الفاظ نازل ہوئے: {قَوْمٌ خَصِمُونَ۔} جھگڑنے والی قوم ہے۔ تم انہیں ان کے ساتھی کی طرف بھیج دو اور کتاب اللہ کے بارے میں ان سے مناظرہ مباحثہ نہ کرو تو ان کے خطیب حضرات اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم اللہ کی کتاب کے بارے میں ان سے مباحثہ کریں گے، اگر انہوں نے کوئی ایسی حق بات کہی جسے ہم جانتے ہوں تو ان کی پیروی کر لیں گے اور اگر انہوںنے کوئی غلط بات کہی تو ہم ان کے باطل کے ذریعہ ہی ان کا مقابلہ کریں گے، تو انہوں نے تین دن تک ان سے مباحثہ کیا، بالآخر ان میں سے چار ہزار آدمیوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، ابن الکواء بھی ان توبہ کرنے والوں میں شامل تھا، عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان سب کو لے کر کوفہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں حاضر ہوئے،اس کے بعد علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باقی ماندہ لوگوں کو پیغام بھیجا، کہ ہمارے اور لوگوں کے مابین جو کچھ ہو چکا تم وہ سب دیکھ چکے ہو، اب تم جہاں چاہو ٹھہرے رہو تاآنکہ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی بات پر مجتمع ہوجائے، ہمارے اور تمہارے مابین یہ طے ہے کہ تم کسی حرمت والے کی خون ریزی نہ کرو اور نہ لوٹ مار کرو اور نہ کسی ذمی کے ذمہ کو توڑو اگر تم نے یہ کام کیے تو ہماری تم سے لڑائی ہوگی، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تو سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اس سے کہا، اسے ابن شداد! علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تو اپنے معاہدہ کے برعکس ان لوگوں کو قتل کیا، تو اس نے جواب دیا اللہ کی قسم! سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کے مقابلہ کے لیے اپنے آدمی اس وقت تک نہیں بھیجے جب تک کہ انہوں نے لوٹ مار نہ کی، خوں ریزی نہ کی اور ذمیوں کے ذمہ کو نہ توڑا تو سیدہ نے از راہ تعجب کہا، کیا واقعی اللہ کی قسم؟ ابن شداد نے کہا اللہ کی قسم، اسی اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ایسے ہی ہوا ہے؟تو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے فرمایا، اہل ذمہ کی جو بات مجھ تک پہنچی ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ وہ کہتے ہیں ذوالثدی، ذوالثدی یعنی عورت کے پستان جیسے بازووالا مارا گیا، ابن شداد نے کہا میں نے اسے دیکھا ہے، میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ مقتولین کے پاس کھڑا تھا، انہوں نے لوگوںکو بلواکر پوچھا کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ تو کوئی آدمی اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا کہ میں نے اسے بنو فلاں کی مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے اور کوئی آدمی اسے جاننے پہچاننے کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا اہل عراق جیسے بیان کرتے ہیں وہاں کھڑے ہو کر علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کیا کہا؟ ابن شداد نے کہا، میںنے ان کو وہاں سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کیا تم نے ان کو اس کے علاوہ بھی کچھ کہتے سنا؟ اس نے کہا، اللہ گواہ ہے کہ میں نے ان سے اس کے علاوہ کچھ نہیں سنا، سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا ہاں، اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اللہ کی رحمت ہو انہیں جب بھی کوئی بات اچھی لگتی تو کہا کرتے اللہ اور اس کے رسول کی بات سچ ہے ، عراقی لوگ ان پر جھوٹ باندھتے اور ان کی باتوں میں ازخود اضافے کردیتے ہیں۔

Haidth Number: 12380