Blog
Books
Search Hadith

سورۂیونس {لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} کی تفسیر

6 Hadiths Found
۔ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو انہیں آواز دی جائے گی: اے جنت والو! اللہ تعالیٰ نے تم سے ایک وعدہ فرمایا تھا، جو ابھی تک پورا نہیں ہوا، وہ حیران ہو کر کہیں گے:وہ کیا وعدہ ہے، اے اللہ! کیا تو ہمارے چہرے سفید نہیں کئے، کیا ہمیں دوزخ سے نہیں بچایا ہے اور کیا ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا (ابھی تک کون سی چیز باقی ہے)؟ اتنے میں پردہ ہٹ جائے گا اور جنتی اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالی نے ان کو کوئی ایسی چیز عطا نہیں کی ہو گی، جو اس دیدار سے پیاری اور محبوب ہو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: {لِلَّذِینَ أَ حْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ} … جن لوگوں نے نیکی کی، انہیں اس کا صلہ ملے گا اورمزید بھی دیا جائے گا ۔

Haidth Number: 8630

۔ (۱۰۹۴۰)۔ حَدَّثَنَا وُہَیْبُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ یَحْیٰی عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ تَبُوکَ حَتّٰی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرٰی، فَإِذَا امْرَأَۃٌ فِی حَدِیقَۃٍ لَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((اخْرُصُوا۔)) فَخَرَصَ الْقَوْمُ وَخَرَصَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ أَوْسُقٍ، وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْمَرْأَۃِ: ((أَحْصِی مَا یَخْرُجُ مِنْہَا حَتّٰی أَرْجِعَ إِلَیْکِ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔)) قَالَ: فَخَرَجَ حَتّٰی قَدِمَ تَبُوکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّہَا سَتَبِیتُ عَلَیْکُمْ اللَّیْلَۃَ رِیحٌ شَدِیدَۃٌ، فَلَا یَقُومُ مِنْکُمْ فِیہَا رَجُلٌ، فَمَنْ کَانَ لَہُ بَعِیرٌ فَلْیُوثِقْ عِقَالَہُ۔)) قَالَ: قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ: فَعَقَلْنَاہَا فَلَمَّا کَانَ مِنَ اللَّیْلِ ہَبَّتْ عَلَیْنَا رِیحٌ شَدِیدَۃٌ، فَقَامَ فِیہَا رَجُلٌ فَأَلْقَتْہُ فِی جَبَلِ طَیِّئٍ، ثُمَّ جَائَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَلِکُ أَیْلَۃَ، فَأَہْدٰی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَغْلَۃً بَیْضَائَ، فَکَسَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَحْرِہِ، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ وَأَقْبَلْنَا مَعَہُ حَتّٰی جِئْنَا وَادِیَ الْقُرٰی فَقَالَ لِلْمَرْأَۃِ: ((کَمْ حَدِیقَتُکِ؟)) قَالَتْ: عَشَرَۃُ أَوْسُقٍ، خَرْصُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی مُتَعَجِّلٌ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَتَعَجَّلَ فَلْیَفْعَلْ۔)) قَالَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتّٰی إِذَا أَوْفٰی عَلَی الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((ہِیَ ہٰذِہِ طَابَۃُ۔)) فَلَمَّا رَأٰی أُحُدًا قَالَ: ((ہٰذَا أُحُدٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ، أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟)) قَالَ: قُلْنَا: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((خَیْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ دَارُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، ثُمَّ دَارُ بَنِی سَاعِدَۃَ، ثُمَّ فِی کُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَیْرٌ۔)) (مسند احمد: ۲۴۰۰۲)

سیدنا ابو حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہوئے، جب ہم وادی ٔ قریٰ میں پہنچے تو وہاں ایک خاتون اپنے باغ میں موجود تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم اس باغ کے پھل کا تخمینہ لگاؤ۔ لوگوں نے اندازے لگائے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس وسق کا تخمینہ لگایا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس خاتون سے فرمایا: اس باغ سے جو فصل حاصل ہو،اس کو یاد رکھنا، تاآنکہ میں تمہارے پاس ان شاء اللہ واپس آؤں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے روانہ ہو کر تبوک پہنچے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آج رات انتہائی تیز ہوا اور آندھی چلے گی، تم میں سے کوئی آدمی آندھی میں کھڑا نہ ہو، جس کے پاس اونٹ ہے وہ اس کے پاؤں کی رسی کو مضبوط باندھ دے۔ سیدنا ابو حمید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے اونٹوں کو مضبوط باندھ دیا، جب رات ہوئی تو تیز آندھی چلی، ایک آدمی اس میں کھڑا ہو گیا تو آندھی نے اسے قبیلہ طے کے پہاڑوں میں جا گرا یا، بعدازاں ایلہ کا حاکم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک سفید خچر بطور ہدیہ پیش کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ایک چادر عنایت فرمائی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی بستی اور علاقہ اس کو لکھ دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ہم واپسی پر وادیٔ قری میں پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا: تمہارے باغ سے کتنا پھل حاصل ہوا؟ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تخمینہ کے مطابق بتایا کہ دس وسق حاصل ہوا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جلدی میں ہوں، میرے ساتھ جو کوئی جلدی جانا چاہتا ہے، تیار ہو جائے۔ آتے آتے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو فرمایا: وہ مدینہ منورہ طابہ ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر احدپہاڑ پر پڑی تو فرمایا: یہ احد پہاڑ ہے، یہ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، کیا میں تمہیں انصار کے بہترین قبائل سے آگاہ نہ کروں؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ضرور آگاہ فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انصار کے قبائل میں سب سے بہتر بنو نجار، ان کے بعد بنو عبدالاشھل اور ان کے بعد بنو ساعدہ ہے، پھر انصار کے تمام ہی قبائل میں خیر ہے۔

Haidth Number: 10940

۔ (۱۱۸۶۰)۔ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ شَیْئٌ فَأَعْطَاہُ نَاسًا وَتَرَکَ نَاسًا، وَقَالَ جَرِیرٌ: أَعْطٰی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا، قَالَ: فَبَلَغَہُ عَنِ الَّذِینَ تَرَکَ أَنَّہُمْ عَتِبُوْا وَقَالُوْا، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی أُعْطِی نَاسًا وَأَدَعُ نَاسًا وَأُعْطِی رِجَالًا وَأَدَعُ رِجَالًا۔)) قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: ((ذِی وَذِی وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی أُعْطِی أُنَاسًا لِمَا فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ وَأَکِلُ قَوْمًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنَی وَالْخَیْرِ مِنْہُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ۔)) قَالَ: وَکُنْتُ جَالِسًا تِلْقَائَ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمْرَ النَّعَمِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۴۸)

سیدنا عمروبن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مال غنیمت آیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں میں اس کو تقسیم کر دیا اور بعض لوگوں کو چھوڑ دیا، جن لوگوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مال نہیں دیا تھا،انہوں نے خفگی کا اظہار کیا، جب ان کییہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر چڑھ کر اللہ کی حمد و ثناء کی اور پھر فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا اور بعض کو چھوڑ دیتا ہوں، حالانکہ میں جن کو نہیں دیتا، وہ مجھے ان افراد کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہوتے ہیں، جن کو میں دیتا ہوں، جن لوگوں کے دلوں میں حرص اور طمع ہوتی ہے، میں ان کو دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کے دلوں میں استغنا اور بھلائی رکھی ہے، میں انہیں اللہ کی ان عطا کردہ نعمتوں کے سپرد کر تا ہوں، عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ سیدنا عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے حق میں یہ بات سن کر کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیاس بات کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ لینا زیادہ پسند نہیں ہیں۔

Haidth Number: 11860

۔ (۱۲۴۱۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ نُجَیٍّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَارَ مَعَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَ صَاحِبَ مِطْہَرَتِہِ، فَلَمَّا حَاذٰی نِینَوٰی، وَہُوَ مُنْطَلِقٌ إِلٰی صِفِّینَ، فَنَادٰی عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قُلْتُ: وَمَاذَا؟ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ وَعَیْنَاہُ تَفِیضَانِ، قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَغْضَبَکَ أَحَدٌ؟ مَا شَأْنُ عَیْنَیْکَ تَفِیضَانِ؟ قَالَ: ((بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِی جِبْرِیلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِی أَنَّ الْحُسَیْنَیُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ، قَالَ: فَقَالَ: ہَلْ لَکَ إِلٰی أَنْ أُشِمَّکَ مِنْ تُرْبَتِہِ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَمَدَّ یَدَہُ فَقَبَضَ قَبْضَۃً مِنْ تُرَابٍ، فَأَعْطَانِیہَا فَلَمْ أَمْلِکْ عَیْنَیَّ أَنْ فَاضَتَا۔)) (مسند احمد: ۶۴۸)

عبداللہ بن نجی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ طہارت والے پانی کا برتن اٹھا کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چل رہے تھے، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی مقام تک پہنچے، تو سیدنا علی نے آواز دی: ابو عبداللہ! ٹھہر جاؤ ، دریائے فرات کے کنارے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا: ادھر کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا، اس حال میں کہ آپ کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھیں کیوں آنسو بہار ہی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ کی آمد سے قبل جبریل امین میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین کو دریائے فرات کے کنارے قتل کر دیا جائے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: میں آپ کو اس کی مٹی کی خوشبو سونگھاؤں؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پس اس نے اپنا ہاتھ لمبا کیا، مٹی کی مٹھی بھری اور مجھے دے دی۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ پا سکا اور رونے لگ گیا۔

Haidth Number: 12419

۔ (۱۲۴۲۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ مَلَکَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ یَأْتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَہُ فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: امْلِکِی عَلَیْنَا الْبَابَ لَا یَدْخُلْ عَلَیْنَا أَحَدٌ قَالَ وَجَائَ الْحُسَیْنُ لِیَدْخُلَ فَمَنَعَتْہُ فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ یَقْعُدُ عَلٰی ظَہَرِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلٰی مَنْکِبِہِ وَعَلٰی عَاتِقِہِ قَالَ فَقَالَ الْمَلَکُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتُحِبُّہُ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) قَالَ أَمَا إِنَّ أُمَّتَکَ سَتَقْتُلُہُ وَإِنْ شِئْتَ أَرَیْتُکَ الْمَکَانَ الَّذِییُقْتَلُ فِیہِ فَضَرَبَ بِیَدِہِ فَجَائَ بِطِینَۃٍ حَمْرَاء َ فَأَخَذَتْہَا أُمُّ سَلَمَۃَ فَصَرَّتْہَا فِی خِمَارِہَا قَالَ قَالَ ثَابِتٌ بَلَغَنَا أَنَّہَا کَرْبَلَائُ۔ (مسند احمد: ۱۳۵۷۳)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ بارش والے فرشتے نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہو نے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی، اللہ نے اسے اجازت دے دی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: تم دروازے کے قریب رہنا اور کسی کو ہمارے پاس نہ آنے دینا۔ سیدنا حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، وہ اندر آنے لگے، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کوروکا، مگر وہ چھلانک لگا کر اندر چلے گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت مبارک اور کندھے پر بیٹھنے لگے، اس فرشتے نے کہا: کیاآپ کو اس سے محبت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں اس فرشتے نے کہا: اس کو تو آپ کی امت قتل کر دے گی۔ آپ چاہیں تو میں آپ کو ان کی قتل گاہ دیکھا سکتا ہوں، اس نے اپنا ہاتھ مارا اور سرخ مٹی لے آیا، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے وہ مٹی لے کر اپنے دوپٹے میں ڈال لی، ثابت کہتے ہیں: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ ان کی قتل گاہ کربلا کی زمین ہے۔

Haidth Number: 12420
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا یا سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میرے پاس گھر میں ایک فرشتہ آیا ہے، جو اس سے پہلے کبھی میرے پاس نہیں آیا تھا، اس نے بتلایاہے کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہوگا، اگر آپ چاہیں تو آپ کو اس سرزمین کی مٹی دکھاؤں، جہاں یہ قتل ہوگا، پھر اس نے سرخ مٹی دکھائی۔

Haidth Number: 12421