جابر بن عبداللہ رضی اللہ ع نہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل سے (روایتیں) بیان کرو کوئی حرج نہیں کیوں کہ ان میں عجائبات گزرے ہیں۔ پھر آپ بیان کرنے لگے: بنی اسرائیل کا ایک گروہ باہر نکلا اور کسی قبر کے پاس آئےاور کہنے لگے: اگر ہم دو رکعت نماز پڑھیں اور اللہ عزوجل سے دعا کریں کہ وہ مرنے والے لوگوں میں سے کسی کو قبر سے باہر نکالے تاکہ ہم اس سے موت کے بارے میں پوچھ سکیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ ابھی اسی کیفیت میں تھے کہ اچانک ایک آدمی کا سر قبر سے نمودار ہوا۔کالا وگورا،اس کی آنکھوں کے درمیان سجدوں کا نشان تھا۔ اس نے کہا: اے لوگو! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ میں سو سال پہلے مر چکا ہوں، لیکن موت کی حرارت اب بھی محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ عزوجل سے دعا کرو کہ مجھے اسی حالت میں لوٹا دے جس میں پہلے تھا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ :گاؤں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اہل قرآن کا خیال ہے کہ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر عمل کافائدہ نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جہاں کہیں بھی ہو اچھے طریقے سے اللہ کی عبادت کرو اور جنت سے خوش ہوجاؤ (یعنی جنت کی خوشخبری ہو)۔
یونس بن میسرہ بن حلبس نے کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے کہ:خیر عادت ہے اورشر لجاجت(دل میں کھٹکتا)ہے اور اللہ تعالیٰ جس شخص سے بھلائی کا ارادہ فرمالیتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کر دیتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھےانہوں نے أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں سوال کیا۔ أبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اعراض کیا اور انہیں جواب نہیں دیا۔ جب أبی رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کر لی تو کہا: تمہارا جمعہ نہیں ہوا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أبی رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غرباء (اجنبی لوگوں کے لئے) خوشخبری ہے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول؟ غرباء کون لوگ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کثیر برائی والے لوگوں میں بہت تھوڑے نیک لوگ، ان کی بات رد کرنے والے ماننے والوں سے زیادہ ہوں گے۔
ابن الادرع سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ کسی ضرورت سے باہر نکلے۔ آپ نے مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ پکڑلیا۔ ہم چلتے ہوئے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا اور بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ممکن ہے یہ ریا کاری کر رہا ہو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول !یہ تو صرف بلند آواز سے قرآن پڑھ ر ہا ہے۔ آپ نے میرا ہاتھ جھٹک دیا پھر فرمایا: تم اپنے آپ پر غلبہ پا کر اس معاملے کی حقیقت تک ہر گز نہیں پہنچ سکتے۔ پھر ایک رات آپ اپنی کسی ضرورت سے نکلے، میں آپ کا پہرہ دے رہا تھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا ہم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ میں نے کہا: ممکن ہے یہ ریا کاری کر رہا ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر گز نہیں، یہ تو مناجات کرنے والا ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ عبداللہ ذوالجنادین رضی اللہ عنہ (منتظم اور مشکلات سر کرنے والا)تھے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ: (دین) سکھاؤ، آسانی کرو، تنگی نہ کرو۔ خوشخبری دو، نفرت نہ دلاؤ، اور جب تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے تو چپ ہو جائے۔
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا خطبہ ارشاد فرمایا کہ ہماری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور دل ڈر گئے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول !گویا یہ تو الوداعی نصیحت کی طرح ہے۔ آپ ہم سے کیا عہد لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں روشن راستے پر چھوڑا ہے ،اس کی رات اس کے دن کی طرح ہے،جو شخص اس راستے سے ہٹ جائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔ اور جو تم میں سے زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تمہیں میری جس سنت کا پتہ چل جائے اسے مضبوطی سے تھام لو۔ اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو، تم پر اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے اگرچہ کوئی حبشی غلام تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے، کیوں کہ مومن نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جہاں اسے چلنے کا اشارہ کیا جائے چل پڑتا ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی خبر پہنچنے میں دیر ہوجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شعر پڑھتے جس کا ایک مصرع یہ ہے :آپ کے پاس وہ خبریں لے کر آئے گا جسے تم نے زاد راہ نہیں دیا ہوگا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ کے وصیت شدگان کو خوش آمدید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمہارے بارے میں وصیت کیا کرتے تھےیعنی حدیث کے طلباء کے بارے میں۔
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے: اے اللہ آپ نے مجھے جو علم دیا ہے اس سے مجھے نفع دے ، اور مجھے ایسا علم عطا کر جس کے ذریعے تو مجھے نفع دے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات( بغیر تحقیق) بیان کر دے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا۔ صحابہ نے کہا: کون شخص انکار کر سکتاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جس شخص نے میری نا فرمانی کی اس نے انکار کیا۔
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا،( اور ایک روایت میں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سننے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا) دوسرا بھائی محنت مزدوری یا کاروبار کرتا، محنت مزدوری یا کاروبار کرنے والے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی( اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! (یہ) میرا بھائی کسی کام میں میری مدد نہیں کرتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ممکن ہے تمہیں اس کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہو۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی کتاب میں کونسی آیت بڑی ہے؟ ابی بن کعب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے کئی مرتبہ یہ بات دہرائی۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: آیۃ الکرسی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو المنذر تمہیں علم مبارک ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں جو عرش کے پائے کے نیچے اللہ کی تقدیس بیان کررہے ہیں۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہیںا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ اگر کوئی پرندہ بھی ہو ا میں اپنے پروں کو حرکت دیتا تو آپ ہمیں اس سے علم کی بات بتاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چیز ایسی باقی نہیں بچی جو جنت سے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے مگر میں نے تمہارے سامنے اسے بیان کر دیا ہے۔
)ابن ابی نملہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، ایک یہودی شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس جنازے سے بات کی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس یہودی نے کہا: میں گواہی دیا ہوں کہ اس سے بات کی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اہل کتاب تمہیں جو بیان کریں اس کی نہ تصدیق کرو، نہ ہی تکذیب کرواور تم کہو :ہم اللہ، اس کی کتب اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اگر ان کی بات سچ ہوگی تو تم اس کی تکذیب نہیں کرو گے اور اگر ان کی بات جھوٹی ہوگی تو تم اس کی تصدیق نہیں کرو گے ۔
عبادہ بن شرحبیل کہتے ہیں کہ: مجھے سخت بھوک لگی،میں مدینے کے ایک باغ میں داخل ہوا، میں نے ایک خوشہ توڑا اور کھالیا اور کچھ کھجوریں کپڑے میں رکھ لیں، باغ کا مالک آیا مجھے مارا اور میرا کپڑا لےلیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس آیا تو آپ نے اس سے کہا: گر یہ انجان تھا تو تم نے اسے بتایا کیوں نہیں۔ اور اگر یہ بھوکا تھا تو تم نے اسے کھلایا کیوں نہیں؟ آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے مجھے میرا کپڑا واپس کردیا اور مجھے غلے سے ایک وسق یا نصف وسق دیا۔
انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکچھ آوازیں سنیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ آوازیں کیسی ہیں؟ یہ کیاہے؟صحابہ نے کہا: لوگ کھجوروں کی پیوند کاری کر رہے ہیں (نر اور مادہ شگوفوں کو ملانا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ اسے چھوڑ دیں اور پیوند نہ لگائیں تو بہتر رہے گا، لوگوں نے پیوند نہ لگائے اس کے بعد جب ردی کھجور ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ (یہ کیسی کھجوریں ہیں؟) صحابہ نے کہا: لوگوں نے آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے پیوند کاری نہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہاری دنیا کا معاملہ ہو تو تم بہتر جانتے ہو اور اگر تمہارے دین کا معاملہ ہو تو میرے پاس لے آؤ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو علم حاصل کرتا ہے اور اسے بیان نہیں کرتا اس شخص کی طرح ہے جو خزانہ جمع کرتا ہے لیکن اس سے خرچ نہیں کرتا۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتےہیں کہ صفوان بن عسال مرادی نے بیان کیا، کہتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،آپ مسجد میں اپنی(سرخ) چادر پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ میں نےآپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! میں علم حاصل کرنے آیا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طالب علم کو خوش آمدید،طالب علم کو فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں ،اور اپنے پروں سے اس پر سایہ کرتے ہیں،پھر ایک دوسرے پر کھڑے ہو کر آسمان تک پہنچ جاتے ہیں ۔ طلبِ علم سےان کی محبت کی وجہ سے۔ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرتے رہتےہیں، ہمیں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں بتایئے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: مسافر کے لئے تین دن اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔