جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر کی تعلیم دینے والے کے لئے ہر چیز بخشش کی دعا کرتی ہے حتی کہ سمندر کے اندر مچھلیاں بھی۔
عبدالرحمن بن شماسہ سے مروی ہےکہ فُقَيْم اللخْمِينے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا:آپ ان دونوں اہداف کے درمیان چلتے رہتے ہیں آپ بوڑھے ہیں یہ آپ پر گراں ہوگا۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہ سنی ہوتی تو میں اپنے آپ کو نہ تھکاتا، حارث نے کہا: میں نے ابن شماسہ سے کہا: وہ کونسی حدیث ہے؟ ابن شماسہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نشانہ بازی سیکھ کر چھوڑ دی وہ ہم میں سے نہیں،یا فرمایا: کہ اس نے نا فرمانی کی۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: جس شخص نے اپنے خواب کے بارے میں جھوٹ بولا(یعنی جھوٹا خواب بیان کیا )، اسے قیامت کے دن اس بات کا مکلف بنایا جائے کہ جَو کے دانے میں گرہ لگائے۔
حمید سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان کو خطبہ دیتےہوئے سنا کہہ رہے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہےاوریہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو ان کی مخالفت کرے گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ کا حکم (قیامت)آجائے
معبد جہنی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کریں اور وہ یہ کلمات کہا کرتے تھے کم ہی ان کلمات کو چھوڑتے ،یا انہیں جمعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ اور یہ مال میٹھا اور سر سبز ہے،جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اس کے لئے اس میں برکت دے دی جائے گی۔ خوشامد سے بچو کیوں کہ یہ ذبح کرنا (ہلاکت) ہے۔
عقبہ بن عامر جہنی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: میری امت کی ہلاکت کتاب اور دودھ میں ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کتاب اور اور دودھ کی وضاحت فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن سیکھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ بیان سے ہٹ کر اس کی تشریح کریں گے اور دودھ کو پسند کریں گے جماعت اور جمعے چھوڑ دیں گے اور دودھ کی تلاش میں دیہاتوں کا رخ کریں گے۔
نواس بن سمعانرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کے ذریعے جھگڑا مت کرو، اور اللہ کی کتاب کی آیات کو دوسری آیات سے مت جھٹلاؤ، مومن قرآن کے ساتھ جھگڑا کرے گا تو مغلوب ہو جائے گا، اور منافق قرٓان کے ساتھ جھگڑا کرے گا تو غالب آجائے گا۔
سہل بن ابی امامہ بن سہل بن حنیف اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ ان کے دادا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ پر سختی مت کرو کیوں کہ تم سے پہلے لوگ خود پر سختی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے، اور تم ان کی باقیات کو گرجا گھروں اور کوٹھڑیوں میں دیکھو گے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھا کرتے اور اہل اسلام کے لئے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب کی نہ تو تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو اور کہو: ہم اللہ پر اور جوتم نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حج کے موقع پر عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے جسے تم پکڑ لو گے تو گمراہ نہیں ہوگے وہ ہے اللہ کی کتاب اور میرے گھر والے میرے اہل بیت۔( )
حذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں یہ مجھے اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ اس خیر کو لے آیا( جس میں ہم داخل ہوئے)(اور اللہ تعالیٰ آپ کو لایا) کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے(جس طرح پہلے تھا؟)(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حذیفہ! اللہ کی کتاب سیکھو اور جو اس میں ہے اس کی پیروی کرو( تین مرتبہ فرمایا)میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟ )آپ نے فرمایا: ہاں( میں نے کہا: اس سے بچاؤ کیا ہے؟، آپ نے فرمایا: تلوار) میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟( اور ایک روایت میں ہے: میں نے کہا: کیا تلوار کے بعد بھی کچھ باقی رہے گا؟ )آپ نے فرمایا: ہاں اوراس میں دَخَنٌ ہوگا۔ (اور ایک روایت میں ہے: امارت ہوگی، ( اور ایک روایت میں ہے :جماعت ہوگی) ۔میں نے کہا : یہ دَخَنٌکیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایسے لوگ ہوں گے ( اور دوسری روایت میں ہے: میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے( جو میرے طریقے کے علاوہ طریقہ اختیار کریں گے اور) میری راہنمائی کے خلاف چلیں گے ، ان میں اچھے عمل بھی ہوں گے اور برے عمل بھی (اور ان میں ایسے آدمی بھی ہوں گے جن کے دل انسان کے جسموں میں شیطان کے دل ہوں گے)، (اور دوسری روایت میں ہے: دَخَنٌ پر صلح کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا: لوگوں کے دل اس بات پر نہیں لوٹیں گے جس پر وہ تھے) میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں(اندھا، بہرا فتنہ ہوگا، اس میں) جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں ان کاحلیہ بیان کیجئےآپ نے فرمایا: وہ ہم جیسے ہوں گے اور ہماری زبان بولتے ہوں گے ۔میں نے کہا: (اے اللہ کے رسول !اگر مجھے ایسے لوگ ملیں تو مجھے کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹ جاؤ(سنو اور حکم کی اطاعت کرو، اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال لے لے پھر بھی اس کی بات سنو اور اطاعت کرو) میں نے کہا: اگر ان کی کوئی جماعت اور امام(حاکم) نہ ہوتو؟آپ نے فرمایا: تب تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کر لو، اگرچہ تمہیں درختوں کی جڑیں کھا کر گزارہ کرنا پڑے اور تمہیں اسی حال میں موت آجائے(اور ایک روایت میں ہے: )حذیفہ اگر تمہیں موت آئے تو اس حال میں کہ کسی درخت کی جڑیں پکڑے ہوئے ہو اور یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان میں سے کسی شخص کی پیروی کرو، ( اور دوسری روایت میں ہے): اگر تم روئے زمین پر اللہ کا کوئی خلیفہ دیکھو تو اس سے چمٹ جاؤ، اگرچہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال لے لے۔ اگر تمہیں خلیفہ نہ ملے تو(زمین میں ) بھاگ جاؤ حتی کہ تمہیں موت آئے تو تم کسی درخت کی جڑیں منہ میں پکڑے ہوئے ہو۔ (میں نے کہا: پھر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: پھر دجال نکلے گا، میں نے کہا: وہ کیا چیز لائے گا؟ آپ نے فرمایا: نہر، یا فرمایا :پانی اور آگ ،جو اس کی نہر میں داخل ہو گیا اس کا اجر ضائع ہو گیا اور اس کا گناہ ثابت ہوگیا، اور جو شخص اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر واجب ہوگیا اور اس کا گناہ ختم ہوگیا(میں نے کہا:ے اللہ کےر سول !دجال کے بعد کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا:عیسیٰ بن مریم ) میں نے کہا:پھر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا:اگر کوئی بچھیرا(گھوڑے کا بچہ)پیدا ہوگا وہ ابھی سواری کے قابل نہیں ہوگا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور معاذرضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: آسانی کرنا ،تنگی نہ کرنا، خوشخبری دینا، نفرت نہ دلانا، ہنسی خوشی رہنا، اختلاف نہ کرنا۔