ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں ریشم نہیں پہن سکے گا۔ جس شخص نے دنیا میں شراب پی وہ آخرت میں شراب نہیں پی سکے گا۔ جس شخص نے دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں پیا، وہ آخرت میں ان برتنوں میں پی نہیں سکے گا۔ پھر فرمایا: یہ اہل جنت کا لباس، اہل جنت کا مشروب اور اہل جنت کے برتن ہیں۔
محمد بن کعب ، عبداللہ بن انیس جہنیرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھے خالد بن نبیح سے راحت پہنچا ئے؟خالد بن نبیح قبیلہ ھذیل کا ایک شخص تھا، اور اس دن وہ(عرفہ) سے پہلے (عرنہ) کی جانب تھا۔ عبداللہ بن انیس نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں ایسا کروں گا۔ مجھے اس کا وصف بیان کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اسے دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں کبھی کسی چیز سے نہیں ڈرا۔ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نکلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے(عرفہ) کے پہاڑ پر آگئے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں ایک آدمی سے ملا، جب میں نے اسے دیکھا تو مجھ پر رعب طاری ہو گیا، جب مجھ پر رعب طاری ہوا تو میں نے اسے پہچان لیا کہ یہ وہی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا: کون ہو؟ میں نے کہا: ایک کام کے سلسلے میں آیا ہوں، کیا رات گزارنے کے لئے کوئی جگہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آؤ، میں اس کے پیچھے ہو لیا، اور عصر کی دو ہلکی رکعتیں ادا کیں اس ڈر سے کہ کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لے۔ پھر میں اس سے جا ملا اور تلوار سے اسے مار دیا۔ پھر میں باہر نکل آیا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں اطلاع دی۔ محمد بن کعب کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لاٹھی دی، اور فرمایا: اسے اپنے ساتھ رکھنا جب تک تم مجھ سے ملو، اور کم ہی لوگ قیامت کے دن لاٹھی کا سہارا لئے ہونگے ۔محمد بن کعب نے کہا: جب عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ فوت ہونے لگے تو اس لاٹھی کے متعلق حکم دیا۔ وہ لاٹھی ان کے پیٹ اور کفن پر رکھ دی گئی، انہیں دفن کیا گیا تو اسے بھی ان کے ساتھ دفن کردیا گیا ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میری چادر اوپر نیچے حرکت کر رہی تھی، آپ نے پوچھا :یہ کون ہے۔ میں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ نے فرمایا: اگر تم واقعی عبداللہ(اللہ کے بندے) ہوتو اپنی چادر اوپر کر لو، میں نے اپنی چادر نصف پنڈلیوں تک کر لی۔ پھر مرنے تک ان کی چادر نصف پنڈلی تک رہی۔
عبداللہ بن بریدہ اپنے والد بریدہرضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مجلسوں اور دولباسوں سے منع فرمایا: دو مجلسیں یہ ہیں۔۱۔ سائے اور دوھوپ میں بیٹھنا۔۲۔ تم اپنے کپڑے میں اس طرح بیٹھو کہ تمہاری شرمگاہ نظر آئے، اور دو لباس یہ ہیں، تم ایسے کپڑے میں نماز پڑھو جسے تم کاندھوں پر نہ ڈالو (یعنی بغل سے نکال کر کاندھوں پر ڈالنا) ۔۲۔ تم شلوار میں نماز پڑھو اور تم پر کوئی چادر نہ ہو۔
عمران بن حصینرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:آپ نے سرخ رنگ کے کپڑے سے بنے ہوئے نمدے (وہ اونی کپڑا جو گھوڑے کی زین کے نیچے ڈالتے ہیں )سے منع فرمایا ۔
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ مقدام بن معدیکربرضی اللہ عنہ ،معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: مین تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے کچھ لوگوں کے پاس آئے جن کی داڑھیاں سفید تھیں فرمانے لگے: اے انصار کی جماعت: سرخ اور زرد رنگ میں رنگو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے ہیں اور مونچھیں بڑھاتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی داڑھیاں بڑھاؤ اور اپنی مونچھیں کاٹو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ۔صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول !اہل کتاب موزے پہنتے ہیں جوتے نہیں پہنتے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوتے اور موزے پہنو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو ان کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا دیکھا ۔آپ اندر داخل نہیں ہوئے، کم ہی تھا کہ آپ آئیں اور سب سے پہلے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نہ آئیں۔ علی رضی اللہ عنہ آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پریشان دیکھا، کہنے لگے:تمہیں کیا ہوا؟ کہنے لگیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے۔ علیرضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! فاطمہ پر یہ بات گراں گزری ہے کہ آپ اس کے پاس آئے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے دنیا سے کیا غرض؟ مجھے نقش ونگارسے کیا مطلب؟علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف گئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے وہ اس (پردے) کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:فاطمہ سے کہو: وہ اسے بنی فلاں کی طرف بھیج دے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سرخ چیزوں میں عورتوں کے لئے ہلاکت ہے، سونے اور عصفر(زردرنگ) سے رنگے ہوئے کپڑے میں
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں سونے کی ایک انگوٹھی دیکھی لوگوں نے بھی جلدی جلدی انگوٹھیاں بنوا لیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پھینک دی، اور فرمایا: میں اسے کبھی بھی نہیں پہنوں گا۔
عمرو بن فلاں انصاری سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ وہ اپنی چادر لٹکائے جا رہے تھے۔ اچانک سامنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی پکڑی اور کہنے لگے: اے اللہ تیرا بندہ ،تیرے بندے کا بیٹا، اور تیری باندی کا بیٹا، عمرو نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں پتلی(کمزور) پنڈلیوں والا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! اللہ عزوجل نے ہر چیز خوب صورت انداز میں تخلیق کی ہے، اے عمرو! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں عمرو کے گھٹنے کے نیچےرکھ کر فرمایا: چادر کی جگہ یہ ہے۔ پھر انگلیاں اٹھالیں(پھر پہلی چار انگلیوں کے نیچے چار انگلیاں رکھ کر فرمایا: اے عمر! چادر کی جگہ یہ ہے) پھر انگلیاں اٹھالیں اور دوسری چار انگلیوں کے نیچے چار انگلیاں رکھ کر فرمایا: اے عمرو! چادر کی جگہ یہ ہے۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ بنت ہبیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاتھ پر ضرب لگانے لگے، وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت کرنے آئی۔ ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے گلے سے سونے کی زنجیر اتاری اور، کہنے لگی: یہ مجھے ابو حسن نے تحفے میں دی ہے۔ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ زنجیر اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ لوگ کہیں فاطمہ بنت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ہاتھ میں آگ کی ایک زنجیر ہے؟ آپ باہر نکل گئے، بیٹھے نہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے زنجیر بیچ کر ایک غلام خریدا اور اسے آزاد کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ! جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی