Blog
Books
Search Hadith

باب: سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر

28 Hadiths Found
میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیات «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين» نازل ہوئیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے کئی اور لوگوں نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے۔

Narrated Jabir bin 'Abdullah: I was ill, so the Messenger of Allah (ﷺ) came to visit me, and I was unconscious. When I awoke, I said: 'How do you order me regarding my wealth?' He did not answer me until Allah revealed: Allah commands you regarding your children's (inheritance): to the male, a portion equal to that of two females (4:11).

Haidth Number: 3015
اوطاس کے موقع پر غنیمت میں ہمیں کچھ ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے مشرک شوہر موجود تھے کچھ مسلمانوں نے عورتوں سے صحبت کرنے کو مکروہ جانا ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» ۱؎ نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

Narrated Abu Sa'eed Al-Khudri: On the Day of Awtas, we captured some women who had husbands among the idolaters. So some of the men disliked that, so Allah, Most High, revealed: And women already married, except those whom your right hands possess... (4:24)

Haidth Number: 3016

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى الثَّوْرِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَكَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَكَرَ هَمَّامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ.

جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے، تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اس پر آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی، ۳- امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ ( جب کہ پچھلی سند میں ہے ) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے، ۴- ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔

Narrated Abu Sa'eed Al-Khudri: We captured some women on the Day of Awtas and they had husbands among their people. That was mentioned to the Messenger of Allah (ﷺ) so Allah revealed: '...And women already married, except those whom your right hands possess... (4:24)'

Haidth Number: 3017
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبیرہ گناہ: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، ( ناحق ) کسی کو قتل کرنا، جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اس کو روح بن عبادہ نے بھی شعبہ یہ روایت کیا ہے، لیکن ( عبیداللہ کی جگہ عبداللہ بن ابی بکر کہا ہے، ( عبیداللہ ہی صحیح ہے ) لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔

Narrated 'Ubaidullah bin Abi Bakr [bin Anas]: from Anas bin Malik, that the Prophet (ﷺ) [said] about the major sins: Shirk with Allah, disobeying the parents, taking the life, and false statement.

Haidth Number: 3018
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟“ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: ”جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا“، آپ یہ بات باربار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

Narrated 'Abdur-Rahman bin Abi Bakrah: from his father that the Messenger of Allah (ﷺ) said: Shall I not narrate to you about the worst of the major sins? They said: Of course O Messenger of Allah! He said: Associating others with Allah and disobeying the parents. He said: And he sat reclining and said: 'The false testimony.' Or he said: 'The false statement.' He said: So the Messenger of Allah (ﷺ) would not stop saying it until we said (to ourselves): 'If he would only stop.'

Haidth Number: 3019

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ الْتَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللَّهِ يَمِينَ صَبْرٍ فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلَّا جُعِلَتْ نُكْتَةً فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَبُو أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ ثَعْلَبَةَ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، جھوٹی قسم کھانا۔ تو جس کسی نے بھی ایسی قسم کھائی جس پر وہ مجبور کر دیا گیا اور ( اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے ) پھر اس نے اس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ شامل کر دیا تو اس کے دل میں ایک ( کالا ) نکتہ ڈال دیا جائے گا جو قیامت تک قائم اور باقی رہے گا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوامامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ہمیں نہیں معلوم ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

Narrated Abu Umamah Al-Ansari: from 'Abdullah bin Unais Al-Juhni who said: The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Indeed among the worst of the major sins is Shirk with Allah, disobeying the parents, the false oath, and none insists on taking an oath in which he swears, including the like of a wing of a mosquito (of falsehood) in it - except that a spot is placed in his heart until the Day of Judgement.'

Haidth Number: 3020
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یا کہا: جھوٹی قسم کھانا“۔ اس میں شعبہ کو شک ہو گیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Narrated 'Abdullah bin 'Amr: that the Prophet (ﷺ) said: The major sins are associating others with Allah, disobeying the parents or he said, the false oath . Shu'bah (a narrator in the chain) was in doubt.

Haidth Number: 3021
مرد جنگ کرتے ہیں، عورتیں جنگ نہیں کرتیں، ہم عورتوں کو آدھی میراث ملتی ہے ( یعنی مرد کے حصے کا آدھا ) تو اللہ تعالیٰ نے آیت «ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض» ۱؎ نازل فرمائی۔ مجاہد کہتے ہیں: انہیں کے بارے میں آیت «إن المسلمين والمسلمات» ۲؎ بھی نازل ہوئی ہے، ام سلمہ پہلی مسافرہ ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ مرسل حدیث ہے، ۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے ابن ابی نجیح کے واسطہ سے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے، کہ ام سلمہ نے اس اس طرح کہا ہے۔

Narrated Mujahid: from Umm Salamah that she said: The men fight and the women do not fight, and we only get half the inheritance.' So Allah, Blessed and Most High, revealed: 'And wish not for things in which Allah has made some of you excell over others... (4:32)' Mujahid said: And the following was revealed about that: 'Verily the Muslim men and the Muslim women... (33:35). And Umm Salamah was the first camel-borne woman to arrive in Al-Madinah as an emigrant.

Haidth Number: 3022
اللہ کے رسول! میں عورتوں کی ہجرت کا ذکر کلام پاک میں نہیں سنتی، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أني لا أضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى بعضكم من بعض» ۱؎ نازل فرمائی۔

Narrated 'Amr bin Dinar: from a man among the children of Umm Salamah, from Umm Salamah that she said: O Messenger of Allah! I have not heard Allah mentioning anything about women and emigration. So Allah, Blessed and Most High, revealed: Never will I allow to be lost the work of any of you, be he male or female. You are members one of another (3:195).

Haidth Number: 3023

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْهِ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، ‏‏‏‏‏‏غَمَزَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَكَذَا رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا هُوَ إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبِيدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» ۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا ( کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو ) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابولأحوص نے اعمش سے، اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے علقمہ کے واسطہ سے، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اور حقیقت میں وہ سند یوں ہے «إبراهيم عن عبيدة عن عبد الله» ( «عن علقمة» نہیں ) ۔

Narrated 'Alqamah: 'Abdullah said: 'The Messenger of Allah (ﷺ) commanded me to recite for him while he was on the Minbar. So I recited from Surat An-Nisa for him, until I reached: How then (will it be) when We bring from each nation a witness, and We bring you (Muhammad) as a witness against these people? (4:41) The Messenger of Allah (ﷺ) was beckoning me (to stop) with his hand, and I looked at him and his eyes were flowing with tears.

Haidth Number: 3024
مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ“۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟، آپ نے فرمایا: ”اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں“، تو میں نے سورۃ نساء پڑھی، جب میں آیت: «وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔

Narrated Ibrahim: from 'Abidah that 'Abdullah said: The Messenger of Allah (ﷺ) said to me: 'Recite for me.' I said: 'O Messenger of Allah! Shall I recite for you while it is to you whom it was revealed?' He said: 'I love to hear it from other than me.' So I recited Surat An-Nisa until I reached: ...And We bring you (Muhammad) as a witness against these people? (4:41) He said: So I saw the eyes of the Prophet (ﷺ) overflowing with tears.

Haidth Number: 3025
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے ( امامت کے لیے ) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» ”اے نبی! کہہ دیجئیے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو“، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» ”اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو“ ( النساء: ۴۳ ) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

Narrated Abu 'Abdur-Rahman As-Sulami: that 'Ali bin Abi Talib said: 'Abdur-Rahman bin 'Awf prepared some food for which he invited us, and he gave us some wine to drink. The wine began to affect us when it was time for Salat. So they encouraged me (to lead) and I recited: 'Say: O you disbelievers! I do not worship what you worship, and we worship what you worship' - so Allah, Most High, revealed: O you who believe! Do not approach Salat when you are in a drunken state until you know what you are saying (4:43).

Haidth Number: 3026

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ:‏‏‏‏ سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرُّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا زُبَيْرُ، ‏‏‏‏‏‏اسْقِ وَاحْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الزُّبَيْرُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَدْ رَوَى ابْنُ وَهْبٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.

ایک انصاری نے ( ان کے والد ) زبیر بن العوام رضی الله عنہ سے، حرہ ۱؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر رضی الله عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ۲؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا: زبیر! تم ( اپنا کھیت ) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو، ( یہ سن کر ) انصاری غصہ ہو گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ ( زبیر ) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ ( یہ سن کر ) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا: زبیر! اپنا کھیت سینچ لو، اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے“۔ زبیر کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم» ”سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں“ ( النساء: ۶۵ ) ۔ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق: «الليث بن سعد ويونس عن الزهري عن عروة عن عبد الله بن الزبير» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۲- اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق: «الزهري عن عروة عن الزبير» روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

Narrated 'Urwah bin Az-Zubair: that 'Abdullah bin Az-Zubair narrated to him: A man from the Ansar was arguing with Az-Zubair about a stream at Al-Harrah with which they irrigated their date-palms. So the Ansari man said: 'Let the water pass through.' But he refused, so they brought their dispute to the Messenger of Allah (ﷺ). So the Messenger of Allah (ﷺ) said to Az-Zubair: 'O Zubair! Water and let the water flow to your neighbor.' The Ansari got angry and said: 'O Messenger of Allah! Is it because he is your nephew?' The face of the Messenger of Allah (ﷺ) changed. Then he said: 'O Zubair! Water and withhold the water until until it flows over your walls.' So Az-Zubair said: 'By Allah, I think this Ayah was revealed about that incident: But no, by your Lord! They can have no faith until they make you judge in all disputes between them... (4:65)

Haidth Number: 3027

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ:‏‏‏‏ فَمَا لَكُمْ ينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فَرِيقَيْنِ:‏‏‏‏ فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَفَرِيقٌ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا طِيبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيَدَ هُوَ الْأَنْصَارِيُّ الْخَطْمِيُّ وَلَهُ صُحْبَةٌ.

زید بن ثابت رضی الله عنہ آیت: «فما لكم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ( ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے ) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو، اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لكم في المنافقين فئتين» ۱؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: ”مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو ( إن شاء اللہ ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی ( میل و زنگ ) کو دور کر دیتی ہے۔ ( یہ منافق یہاں رہ نہ سکیں گے ) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبداللہ بن یزید انصاری خطمی ہیں اور انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے۔

Narrated 'Abdullah bin Yazid: from Zaid bin Thabit that he heard about this Ayah: Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites? (4:88) He said: People among the Companions of the Prophet (ﷺ) returned on the Day of Uhud and there were two parties among them, a group who said: 'Kill them,' and a group that say not to. So Allah revealed this Ayah: Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites? (4:88) So he said: Indeed it is Taibah (Al-Madinah). And he said: 'It expels filth from it just like the fire expels filth from iron.'

Haidth Number: 3028

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، ( یہ کہتا ہوا ) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ۱؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہو گی؟ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینار کے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔

Narrated 'Amr bin Dinar: from Ibn 'Abbas that the Prophet (ﷺ) said: On the Day of Judgement, the murdered will come with the murderer's scalp and his head in his hand, and his jugular vein flowing blood saying: 'O Lord! This one killed me!' Until he comes close to the Throne. So they mentioned repentance to Ibn 'Abbas, and he recited this Ayah: And whoever kills a believer intentionally then his recompense is Hell (4:93). He said: This Ayah was not abrogated nor (its ruling) replaced so from where is his repentance?

Haidth Number: 3029

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غَنَمٌ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ مَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا لِيَتَعَوَّذَ مِنْكُمْ ؟ فَقَامُوا:‏‏‏‏ فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غَنَمَهُ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا سورة النساء آية 94 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى 12:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ.

بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا، اس کے ساتھ اس کی بکریاں بھی تھیں، اس نے ان لوگوں کو سلام کیا، ان لوگوں نے کہا: اس نے تم لوگوں کی پناہ لینے کے لیے تمہیں سلام کیا ہے، پھر ان لوگوں نے بڑھ کر اسے قتل کر دیا، اس کی بکریاں اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا» ”اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں“ ( النساء: ۹۴ ) نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے۔

Narrated Ibn 'Abbas: A man from Banu Sulaim who had some sheep with him, passed by some of the Companions of the Messenger of Allah (ﷺ). He gave Salam to them and they said: 'He did not give Salam except to protect himself.' So they attacked him, killed him, and took his sheep. They went to the Messenger of Allah (ﷺ) with them, and Allah, Most High, revealed: O you who believe! When you go in the cause of Allah, verify and say not to anyone who greets you: You are not a believer (4:94).

Haidth Number: 3030

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ ضَرِيرَ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا تَأْمُرُنِي إِنِّي ضَرِيرُ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِيتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمُّ مَكْتُومٍ أُمُّهُ.

جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» ”اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں“ ( النساء: ۹۵ ) نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ نابینا تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں، میں تو اندھا ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «غير أولي الضرر» نازل فرمائی، یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ ( یا یہ کہا ) تختی اور دوات لے آؤ کہ میں لکھا کر دے دوں کہ تم معذور لوگوں میں سے ہو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس روایت میں عمرو بن ام مکتوم رضی الله عنہ کہا گیا ہے، انہیں عبداللہ بن ام مکتوم بھی کہا جاتا ہے، وہ عبداللہ بن زائدہ ہیں، اور ام مکتوم ان کی ماں ہیں۔

Narrated Al-Bara bin 'Azib: When the following was revealed: 'Not equal are those of the believers who sit (4:95)' 'Amr bin Umm Maktum came to the Prophet (ﷺ). He said: He was blind, so he said: 'O Messenger of Allah! What do you order me with? Indeed my vision is disabled.' So Allah [Most High] revealed this Ayah: 'Except those who are disabled.' So the Prophet (ﷺ) said: 'Bring me a shoulder bone and inkwell' - or 'Bring me a tablet and an inkwell.'

Haidth Number: 3031

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 عَنْ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْخَارِجُونَ إِلَى بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَةُ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ:‏‏‏‏ إِنَّا أَعْمَيَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ لَنَا رُخْصَةٌ ؟ فَنَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً، ‏‏‏‏‏‏فَهَؤُلَاءِ الْقَاعِدُونَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا ‏‏‏‏ 95 ‏‏‏‏ دَرَجَاتٍ مِنْهُ سورة النساء آية 94-95 عَلَى الْقَاعِدِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرِ أُولِي الضَّرَرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِقْسَمٌ يُقَالُ:‏‏‏‏ هُوَ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ هُوَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَكُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب جنگ بدر کا موقع آیا تو اس موقع پر یہ آیت جنگ بدر میں شریک ہونے والے اور نہ شریک ہونے والے مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی۔ تو عبداللہ بن جحش اور ابن ام مکتوم رضی الله عنہما دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے کہ ہم جہاد میں نہ جائیں؟ تو آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ ان بیٹھ رہنے والوں سے مراد اس آیت میں غیر معذور لوگ ہیں، باقی رہے معذور لوگ تو وہ مجاہدین کے برابر ہیں۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت دی ہے۔ اور بیٹھ رہنے والے مومنین پر اپنی جانب سے ان کے درجے بڑھا کر فضیلت دی ہے۔ اور یہ بیٹھ رہنے والے مومنین وہ ہیں جو بیمار و معذور نہیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- مقسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن حارث کے آزاد کردہ غلام ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں اور مقسم کی کنیت ابوالقاسم ہے۔

Narrated Miqsam, the freed slave of 'Abdullah bin Al-Harith: from Ibn 'Abbas that he said the Ayah: Not equal are those of the believers who sit, except those who are disabled... (4:95) is about Badr and those went out for Badr. At the time of the battle of Badr, 'Abdullah bin Jahsh and Ibn Umm Maktum said: 'We are blind O Messenger of Allah! So is there an exemption for us?' So the following was revealed: Not equal are those of the believers who sit except those who are disabled. But Allah has preferred those who strive hard and fight above those who sit (at home) by a huge reward (4:95). So these were the people who sat behind, that were not disabled: But Allah has preferred those who strive hard and fight, above those who sit (at home) by a huge reward - they are of levels above those who sit among the believers who did not have an excuse.

Haidth Number: 3032

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمْلِيهَا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ التَّابِعِين، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَرْوَانُ لم يسمع من النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مِنَ التَّابِعِين.

میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں املا کرایا «‏‏‏‏ ( لا يستوي القاعدون من المؤمنين» «والمجاهدون في سبيل الله» ”گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے“ اسی دوران ابن ام مکتوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی، اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا شخص تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت «غير أولي الضرر» نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران ( قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے ) میری ران پر تھی، وہ ( نزول وحی کے دباؤ سے ) بوجھل ہو گئی، لگتا تھا کہ میری ران پس جائے گی۔ پھر ( جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہو گئی ) تو آپ کی پریشانی دور ہو گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے، قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے، اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے، روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری ( صحابی ) نے مروان بن حکم ( تابعی ) سے۔ اور مروان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تابعی ہیں۔

Narrated Sahl bin Sa'd As-Sa'idi: I saw Marwan bin Al-Hakam sitting in the Masjid, so I went over to him until I sat next to him. He informed us that Zaid bin Thabit informed him, that the Prophet (ﷺ) dictated: 'Not equal among the believers are those who sit and the Mujahidin in the cause of Allah.' He said: 'So Ibn Umm Maktum came and he was dictating to me that he said: O Messenger of Allah! By Allah! If I were capable of Jihad then I would participate in Jihad.' And he was a blind a man. So Allah revealed to His Messenger (ﷺ) - while his thigh was against my thigh - and it became so heavy that I was worried it was about to fracture my thigh. Then he was relieved of it, so Allah had revealed to him: Except those who are disabled.

Haidth Number: 3033
میں نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم» ”تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے“ ( النساء: ۱۰۱ ) ، اور اب تو لوگ امن و امان میں ہیں ( پھر قصر کیوں کر جائز ہو گی؟ ) عمر رضی الله عنہ نے کہا: جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے، پس تم اس کے صدقے کو قبول کر لو“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Narrated Ya'la bin Umayyah: I said to 'Umar [bin Al-Khattab]: 'Allah said: That you shorten the Salat if you fear and the people are safe (4:101).' So 'Umar said: 'I wondered about that just as you have wondered. So I mentioned that to the Messenger of Allah (ﷺ), and he said: It is charity which Allah has given to you, so accept His charity.

Haidth Number: 3034

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ:‏‏‏‏ إِنَّ لِهَؤُلَاءِ صَلَاةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ وَهِيَ الْعَصْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَى وَرَاءَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ هَؤُلَاءِ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَتَكُونُ لَهُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُهُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان ( نامی مقامات ) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ ( اس پر ) جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں ( ان میں سے ) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ ( پہلے گروہ والے لوگ ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ۱؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابن عباس، جابر، ابوعیاش زرقی، ابن عمر، حذیفہ، ابوبکرہ اور سہل بن ابوحشمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔

Narrated Abu Hurairah: that the Messenger of Allah (ﷺ) halted between Dajnan and 'Usfan, and the idolaters aid: These people have a prayer which is more loved to them than their fathers and their children. That is, 'Asr. They gathered their forces and advanced altogether. And Jibra'il came to the Prophet (ﷺ) and told him to divide his Companions into two lines and lead them in prayer, and another group stood behind them on guard with their weapons. Then the other group came and prayed one Rak'ah with him. Then these people stood guard with their weapons, so each of them performed one Rak'ah while the Messenger of Allah (ﷺ) performed two Rak'ahs.

Haidth Number: 3035

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبُشَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمُبَشِّرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ:‏‏‏‏ الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الشِّعْرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ كَمَا قَالَ الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏مِنَ الدَّرْمَكِ، ‏‏‏‏‏‏ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمُ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنَ الدَّرْمَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ، ‏‏‏‏‏‏فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتِ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا فَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَنَا:‏‏‏‏ قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَرَى فِيمَا نَرَى إِلَّا عَلَى بَعْضِ طَعَامِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَى صَاحِبَكُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَسْرِقُ ! فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّكُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِلَيْكَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّى لَمْ نَشُكَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي عَمِّي:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتَ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَاءٍ عَمَدُوا إِلَى عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ سَآمُرُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ أَسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَكَلَّمُوهُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِكَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَمَدْتَ إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ ذُكِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَى غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُكَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا سورة النساء آية 105 بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ سورة النساء آية 106 أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ‏‏‏‏ 106 ‏‏‏‏ وَلا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا ‏‏‏‏ 107 ‏‏‏‏ يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا سورة النساء آية 106 ـ 110 أَيْ لَوِ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ إِلَى قَوْلِهِ وَإِثْمًا مُبِينًا سورة النساء آية 111 قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ إِلَى قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 113 ـ 114، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَى رِفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكُنْتُ أُرَى إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي، ‏‏‏‏‏‏هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ صَحِيحًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِكِينَ فَنَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ‏‏‏‏ 115 ‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا بَعِيدًا ‏‏‏‏ 116 ‏‏‏‏ سورة النساء آية 115-116 فَلَمَّا نَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَى رَأْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ:‏‏‏‏ أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا كُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ.

( انصار ) میں سے ایک خاندان ایسا تھا، جنہیں بنو ابیرق کہا جاتا تھا۔ اور وہ تین بھائی تھے، بشر، بشیر اور مبشر، بشیر منافق تھا، شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا، پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا: فلان نے ایسا ایسا کہا، اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا: اللہ کی قسم! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں - یا جیسا کہ راوی نے «خبیث» کی جگہ «الرجل» کہا - انہوں ( یعنی صحابہ ) نے کہا: یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں، وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے، مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جو ہی تھا، جب کسی شخص کے یہاں مالداری و کشادگی ہو جاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا ( میدہ ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا، اور بال بچے کھجور اور جو ہی کھاتے رہتے۔ ( ایک بار ایسا ہوا ) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی، اور اس اسٹور روم میں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ ان پر ظلم و زیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا، صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا: میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔ میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی ابیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی، اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر ( جشن ) منا رہے ہوں گے۔ ( یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے ) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابوابیرق نے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے، جب لبید نے سنا کہ بنو ابیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی، اور کہا میں چور ہوں؟ قسم اللہ کی! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو۔ لوگوں نے کہا: جناب! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں، آپ چور نہیں ہو سکتے، ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی، تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا: بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ سے اس ( حادثے ) کا ذکر کرتے ( تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا ) قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا: ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید ( کے گھر ) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن ( کھانا ) چرا لے گئے ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ راشن ( غلے ) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس بارے میں مشورہ ( اور پوچھ تاچھ ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا“۔ جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے، اس شخص کو اسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے۔ اور ان سب نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر ) کہا: اللہ کے رسول! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «ومن يكسب إثما فإنما يكسبه على نفسه» إلی قولہ «إثما مبينا» ۳؎ اس سے اشارہ نبی ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔ اور آگے اللہ نے فرمایا: «ولولا فضل الله عليك ورحمته» سے «فسوف نؤتيه أجرا عظيما» ۴؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ ( بنی ابیرق ) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔ اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے، قتادہ کہتے ہیں: میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں، اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں، اس وقت میں نے جان لیا ( اور یقین کر لیا ) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا ( اور ہے ) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔ اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالا بعيدا» نازل فرمائی ۵؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی الله عنہ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی، ( یہ سن کر ) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔ پھر ( اس سے ) کہا: تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو، ۲- یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے، ۳- قتادہ بن نعمان، ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے اخیافی بھائی ہیں، ۴- ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔

Narrated Qatadah bin An-Nu'man: There was a household among us called Banu Ubairiq, among whom was a Bishr, a Bushair, and a Mubashshir. Bushair was a hypocrite who would recite poetry reviling the Companions of the Prophet (ﷺ) then he would attribute it to some of the Arabs. Then he would say: 'So-and-so said this and that [So-and-so said this and that].' So when the Companions of the Prophet (ﷺ) would hear that poetry, they would say: 'By Allah! No one but this filthy person said this poetry - or as the man said - and they would say: 'Ibn Al-Ubairiq said it.' He said: They were a poor and needy household during Jahiliyyah and Islam. The only food the people of Al-Madinah had was dates and barely. When a man was able to, he would import flour from Ash-Sham which he bought and kept for himself. As for his dependants, their only food was dates and barely. So an import arrived from Ash-Sham, and my uncle Rifa'ah bin Zaid bought a load of it, which he put in a storage area he had, where he kept his weapons - his shield and his sword. But it was taken from him from under the house. The storage was broken into and and the food and weapons were taken. In the morning, my uncle Rifa'ah came to me and said: 'O my nephew! We were robbed during the night, our storage was broken into, and our food and weapons are gone.' He said: They overheard us in the house, and questioned us, and someone said to us, 'We saw Banu Ubairiq cooking during the night, and it looked like they had some of your food.' He said: Banu Ubairiq were saying - while we were questioning them amidst their dwellings - 'By Allah! We do not think the one you are looking for is other than Labid bin Sahl, a man among us who is righteous and accepted Islam.' When Labid heard that, he brandished his sword and said: 'I stole? By Allah! You either prove this theft, or I take to you with this sword.' They said: 'Leave us O man! You are not the one who has it.' So we continued questioning in the dwellings until we had no doubt that they had taken it. So my uncle said to me: 'O my nephew! You should go to the Messenger of Allah (ﷺ) and tell him about that.' Qatadah said: So I went to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: 'A family among us are ill-mannered, and they conspired against my uncle Rifa'ah bin aid. They broken into his storage and took his weapons and his food. We want them to return our weapons, but we have no need for the food.' So the Prophet (ﷺ) said: 'I will decide about that.' So when Banu Ubairiq heard about that, they brought a man from among them named Usair bin 'Urwah to talk to him about that, and some people form their houses gathered and said: 'O Messenger of Allah! Qatadah bin An-Nu'man and his uncle came came to a family among us who are a people of Islam and righteousness, accusing them of stealing without proof or confirmation.' Qatadah said: I went to the Messenger of Allah (ﷺ) and spoke to him, and he said: 'You went to a family among them known for their Islam and righteousness, and accused them of stealing without confirmation or proof.' He said: So I returned wishing that I had lost some of my wealth, and that the Messenger of Allah (ﷺ) had not been spoke to about that. My uncle Rifa'ah came to me and said: 'O my nephew! What did you do?' So I told him what the Messenger of Allah (ﷺ) said to me, so he said: 'It is from Allah, Whom we seek help.' It was not long before the Qur'an was revealed: 'Surely, We have sent down to you the Book in truth, that you might judge between men by that which Allah has shown you, so be not a pelader for the treacherous.' That is Banu Ubairiq. 'And seek forgiveness from Allah.' [That is] from what you said to Qatadah. 'Certainly Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. And argue not on behalf of those who deceive themselves. Verily, Allah does not like anyone who is a betrayer, sinner. They may hide from men, but they cannot hide from Allah for He is with them up to His saying: 'Most Merciful.' That is: If you seek Allah's forgiveness then He will forgive you. 'And whoever earns sin, he earns it only against himself...' up to His saying: 'A manifest sin.' Their saying about Labid; 'Had it not been for the grace of Allah and His Mercy upon you...' up to His saying: 'We shall give him a great reward.' (4:105-115) So when the Qur'an was revealed, the Messenger of Allah (ﷺ) brought the weapon and returned it to Rifa'ah. Qatadah said: When the weapon was brought to my uncle - and he was an elderly man with bad sight or an elderly weak man - Abu 'Eisa was in doubt - in Jahiliyyah, and I thought that he merely had entered into Islam (without real sincerity) but when I brought it to him, he said: 'O my nephew! It is for Allah's cause.' So I knew that his Islam was genuine. When the Qur'an was revealed, Bushair went with the idolaters, staying with Sulafah bint Sa'd bin Sumayyah. So Allah, Most High, revealed: Whoever contradicts and opposes the Messenger after the right path has been shown clearly to him, and follows other than the believers' way, We shall keep him in the path he has chosen, and burn him in Hell - what an evil destination. Verily Allah forgives not associating others with Him, but He forgives what is less than that for whomever He wills. And whoever associates others with Allah, then he has indeed strayed away (4:115-116). When he went to stay with Sulafah, Hassan bin Thabit lampooned her with verses of poetry. So she took his saddle, put it on her head, then she left with it to cast into the valley. Then she said: 'You gave me the poetry of Hassan - you did not bring me any good.'

Haidth Number: 3036
قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» ”اللہ اس بات کو معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا“ ( النساء: ۱۱۶ ) ، سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے، ۳- ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے، ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔

Narrated Thuwair - Ibn Abi Fakhitah: from his father that 'Ali bin Abi Talib said: There is no Ayah in the Qur'an more beloved to me than this Ayah: Verily Allah forgives not associating others with Him, but He forgives what is less than that for whomever He wills (4:116).

Haidth Number: 3037
جب آیت «من يعمل سوءا يجز به» ”جو کوئی برائی کرے گا ضرور اس کا بدلہ پائے گا“ ( النساء: ۱۲۳ ) ، نازل ہوئی تو یہ بات مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، اس کی شکایت انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی، تو آپ نے فرمایا: ”حق کے قریب ہو جاؤ، اور سیدھے رہو، مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ آدمی کو کوئی کانٹا چبھ جائے یا اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے ( تو اس کے سبب سے بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ) “۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

Narrated Abu Hurairah: When the following was revealed: 'Whoever works evil will have the recompense of it... (4:123)' That worried the Muslims, so they complained about that to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: Seek closeness and be steadfast, and in all that afflicts the believer there is atonement, even a thorn that pricks him, and the hardship he suffers.

Haidth Number: 3038

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَعَبْدُ بْنُ حميد، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، أَخْبَرَنِي مَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصِيرًا سورة النساء آية 123، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا أُقْرِئُكَ آيَةً أُنْزِلَتْ عَلَيَّ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَقْرَأَنِيهَا فَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ وَجَدْتُ انْقِصَامًا فِي ظَهْرِي فَتَمَطَّأْتُ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا شَأْنُكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَأَيُّنَا لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَإِنَّا لَمُجْزَوْنَ بِمَا عَمِلْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ فَتُجْزَوْنَ بِذَلِكَ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَلَيْسَ لَكُمْ ذُنُوبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْآخَرُونَ فَيُجْمَعُ ذَلِكَ لَهُمْ حَتَّى يُجْزَوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ مَجْهُولٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ.

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت: «من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون الله وليا ولا نصيرا» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوبکر! کیا میں تمہیں ایک آیت جو ( ابھی ) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو آپ نے مجھے ( مذکورہ آیت ) پڑھائی۔ میں نہیں جانتا کیا بات تھی، مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر کیا حال ہے!“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہو گا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ( گھبراؤ نہیں ) ابوبکر تم اور سارے مومن لوگ یہ ( چھوٹی موٹی ) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا، البتہ دوسروں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند میں کلام ہے، ۲- موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔ اور مولی بن سباع مجہول ہیں، ۳- اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے، لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے، ۴- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

Narrated Abu Bakr As-Siddiq: I was with the Prophet (ﷺ) when this Ayah was revealed to him: Whoever works evil will have the recompense of it (4:123). So the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'O Abu Bakr! Shall I recite to you an Ayah revealed to me?' I said: 'Of course O Messenger of Allah!' So he recited it to me, and I do not know except that I found it as a fatal blow, but I repressed it. So the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'What is bothering you O Abu Bakr?' I said: 'O Messenger of Allah! May my father and my mother be your ransom! Which of us has not done evil - and yet we shall be recompensed for what we have done?' So the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'As for you O Abu Bakr, and the believers, they will be recompensed for that in the world until they meet Allah and they have no sins. As for the others, then that will be collected for them until they are recompensed for it on the Day of Judgement.'

Haidth Number: 3039
ام المؤمنین سودہ رضی الله عنہا کو ڈر ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق دے دیں گے، تو انہوں نے عرض کیا: آپ ہمیں طلاق نہ دیں، اور مجھے اپنی بیویوں میں شامل رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ رضی الله عنہا کو دے دیں، تو آپ نے ایسا ہی کیا، اس پر آیت «فلا جناح عليهما أن يصلحا بينهما صلحا والصلح خير» ”کوئی حرج نہیں کہ دونوں ( میاں بیوی ) صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے“ ( النساء: ۱۲۸ ) ، تو جس بات پر بھی انہوں نے صلح کر لی، وہ جائز ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ابن عباس رضی الله عنہما کا قول ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

Narrated Ibn 'Abbas: Sawdah feared that the Prophet (ﷺ) was going to divorce her, so she said: 'Do not divorce me, but keep me and give my day to 'Aishah.' So he (ﷺ) did so, and the following was revealed: Then there is no sin on them both if they make terms of peace between themselves, and making peace is better (4:128). So whatever they agree to make peace in something then it is permissible.

Haidth Number: 3040
Haidth Number: 3041
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» کی تفسیر کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے سلسلہ میں تو تمہارے لیے آیت صیف ۱؎ کافی ہو گی“۔

Narrated Al-Bara: A man came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: 'O Messenger of Allah! They ask you about a legal verdict. Say: Allah directs (thus) regarding Al-Kalalah (4:176). So the Prophet (ﷺ) said to him: You should be sufficed with the Ayah of summer. (Meaning this Ayah, while in An-Nisa number 12, is mention of the topic, and it was revealed in the winter, this Ayah, revealed in the summer - the last revealed about it - explains it)

Haidth Number: 3042