Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلذُّبَابُ: کے معنیٰ مکھی کے ہیں اور یہ لفظ شہد کی مکھی اور بھڑ وغیرہ پر بولا جاتا ہے۔شاعر نے کہا ہے۔ (1) (طویل) (۱۶۱) فَھٰذَا اَوَاَنُ الْعِرْضِ حَیٌّ ذُبَابُہٗ زَنَابِیْرُہٗ وَالْاَزْرَقُ الْمُتَلَمِّسُ یہ وادی کے پررونق ہونے کا موسم ہے اس کے زنابیر اور سبز مکھیاں خوب بھن بھنارہی ہیں۔اور آیت کریمہ: (وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا ) (۲۲۔۷۳) اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین لے جائے میں ذباب کے معنیٰ مکھی کے ہیں۔ ذُبَابُ العَیْنَ: آنکھ کی پتلی۔ اسے ذُبَاب یا تو ہیئت میں تشبیہ کے لحاظ سے کہا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ آنکھ کی پتلی سے بھی مکھی کی طرح شعاعیں نکلتی ہیں اور ایذا رسانی میں مکھی کے ساتھ تشبیہ کی دھار کو ذُبَابُ السَّیْفِ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح موذی شخص کو بھی ذُبَابٌ کہہ دیا جاتا ہے۔ ذَبَّبْتُ عَنْ فُلَانٍ: کسی سے مکھی کو دور ہٹانا۔ اَلْمِذَبَّۃُ: مورچھل مکھیاں اڑانے کا آلہ۔ استعارہ کے طور پر ذَبٌّ کا لفظ ہر چیز کے دفع کرنے پر بولا جاتا ہے۔مثلاً کہا جاتا ہے:ذَبَّبْتُ عَنْ فُلَانٍ: میں نے فلاں سے مکھیوں کو دور ہٹایا۔ ذُبَّ البَعِیرُ: اونٹ کی ناک میں مکھی داخل ہوگئی۔ یہ بھی بیماری کے دوسرے صیغوں کی طرح (جیسے زُکِمَ وغیرہ) فعل مجہول استعمال ہوتا ہے۔ بَعِیْرٌ مَذْبُوبٌ وَذُبَّ جِسْمُہٗ: اونٹ دبلاہوکر مکھی یا تلوار کی دھار کی طرح ہوگیا۔ اَلذَّبْذَبَۃُ: اصل میں معلق چیز کے ہلنے کی آواز کو کہتے ہیں۔پھر بطور استعارہ ہر قسم کی حرکت اور اضطراب کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ) (۴۔۱۴۳) بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔یعنی وہ ہمیشہ مضطرب سے رہتے ہیں کبھی مسلمانوں کی طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی کفار کی طرف۔شاعر نے کہا ہے: (2) (۱۶۲) تَریٰ کُلَّ مُلْکٍ دُونَھَا یَتَذَبْذَبُ کہ اس کی سلطنت کے ورے ہر ایک سلطنت مضطرب نظر آتی ہے۔ ذَبَّبْنَا اِبِلَنَا: ہم نے اونٹوں کو سخت ہنکایا۔شاعر نے کہا ہے۔ (3) (۱۶۳) یُذَبِّبُ وَرْدٌ عَلٰی اِثْرِہٖ کہ وَرْد اس کے پیچھے سخت دوڑرہا تھا ۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الذُّبَابُ سورة الحج(22) 73
ذُبَابًا سورة الحج(22) 73
مُّذَبْذَبِيْنَ سورة النساء(4) 143