Blog
Books
Search Quran
Lughaat

آیت کریمہ: (قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ) (۲:۸۸) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہ یعنی (غُلْفٌ) اَغْلَفُ کی جمع ہے (او راَغْلَفُ اس چیز کو کہتے ہیں جو غلاف میں بند ہو۔) چنانچہ سَیْفٌ اَغْلَفُ: کے معنی ہیں تلوار، جو غلاف یعنی نیام میں بند ہو اور غیر مختون لڑکے کو غُلَامٌ اغْلَفُ کہا جاتا ہے اور جو چمڑہ ختم کرتے وقت کاٹ دیا جاتا ہے اسے غُلْفَۃٌ کہتے ہیں۔ غَلَّفْتُ السَّیْفَ: تلوار کو نیام میں بند کردیا۔ غَلَّفْتُ الْقَارُوْرَۃُ: شیشے کے اوپر غلاف چڑھا دیا۔ غَلَّفْتُ الرَّحْلَ اَوِالسَّرْجَ: پالان یا زین پر چمڑا مڑھ دیا۔ اسی طرح غَلَّفْتُ لِحْیَتَہٗ بِالْحِنَّائِ کے معنی کسی کی داڑھی کو مہندی سے چھپا دینے کے ہیں اور تَغَلَّفَ (تفعل) بمعنی تَخَضَّبَ ہے۔ پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں بند ہیں اس لیے قرآن کریم کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آسکتیں، لہٰذا یہ آیت کریمہ: (قُلُوۡبُنَا فِیۡۤ اَکِنَّۃٍ ) (۴۱:۵) اور فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا (۵۰:۲۲) کے ہم معنی ہوگی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ (غُلْفٌ) اصل میں غُلُفٌ بضم اللام ہے جیساکہ ایک قراء ت میں ہے۔ اور یہ اَغْلَفُ کی نہیں بلکہ غِلَافٌ کی جمع ہے جیساکہ کِتَابٌ کی جمع کُتُبٌ آتی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے دل خود علوم و معارف کے گنجینے اور مخزن ہیں اور ان علوم کی موجودگی میں ہم دوسروں کے علوم سے بے نیاز ہیں لہٰذا تم سے کسی قسم کے استفادہ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
غُلْفٌ سورة البقرة(2) 88
غُلْفٌ سورة النساء(4) 155