Blog
Books
Search Quran
Lughaat

قرآن پاک میں ہے: (لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا) (۲:۱۰۴) یعنی راعنا کہہ کر خطاب نہ کیا کرو۔ (رَاعِنَا لَـیًّۢا بِاَلۡسِنَتِہِمۡ وَ طَعۡنًا فِی الدِّیۡنِ) (۴:۴۶) اور اپنی زبانیں مروڑ کر اور دین اسلام میں طعنے کی راہ سے کہہ کر تم سے خطاب کرتے ہیں۔ اس کلمہ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو بطور تہکم خطاب کرتے تھے اور آپ ﷺ پر رعونت کا الزام دہرتے اور ظاہر یہ کرتے کہ ہم رَاعِنَا کا کلمہ کہتے ہیں جس کے معنیٰ ہیں ہماری خیال کیجئے اور رَاعِنًا (رعن سے مشتق ہے) اور رَعُنَ الرّجُل (ک) کے معنیٰ کسی آدمی کے سست اور بے وقوف ہونے کے ہیں اس سے صیغۂ صفت اَرْعَنُ اور رَعِنٌ آتا ہے جس کے معنیٰ کم فہم آدمی کے ہیں یہ دراصل رَعْنٌ کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے جس کے معنیٰ بینی کوہ کے ہیں یعنی پہاڑ کا وہ حصہ جو باہر نکلا ہوا ہو اور اَرعَنُ کی مؤنث رَعْنَائُ آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے۔(1) (۱۸۵) لَولَا ابْنُ عُتَبْۃَ عَمْرو وَالرَّجَائُ لَہٗ مَاکَانت الْبَصْرَۃُ الرَّعْنَائُ لیْ وَطَنًا۔ اگر عمرو بن عتبہ اور اس کے عطایا کی امید نہ ہوتی تو میں بَصرۃ رعنا کو بھی وطن نہ بناتا۔ بصرۃ کو رَعْناء یا تو اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بادیۃ کی بنسبت نشیبی ہونے کے سبب کو یا رَعْنَائُ (سست عورت) کے مشابہ ہے اور یا اس لیے کہ اس کی ہوا میں تغیر اور تکسر پایا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
رَاعِنَا سورة البقرة(2) 104
وَّرَاعِنَا سورة النساء(4) 46