مَجَدَ یَمْجُدُ مَجْدًا وَمَجَادَۃً کے معنی کرم و شرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں یہ دراصل مَجَدَتِ الاِبِلُ کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: اونٹوں کا کسی وسیع اور زیادہ چارہ والی چراگاہ میں پہنچ جاتا ... اور اَمْجَدَھَ الرَّاعِیُ کے معنی ہیں چروا ہے کا اونٹوں کو بڑی وسیع چراگاہ میں لے جانا عرب لوگ کہتے ہیں (1) فِیْ کُلِّ شَجَرٍ نَارٌ وَاسْتَمْجَدَ الْمَرْخُ وَالْعَفَارُ ہر درخت میں آگ ہوتی ہے مگر مرخ اور عفار درخت میں توبہت زیادہ آگ پائی جاتی ہے۔ المجید اسمائے حسنیٰ میں سے ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو اپنے فضل و کرم خصوصی سے نوازنے میں نہایت وسعت اور فراخی سے کام لینے والی ہو چنانچہ آیت کریمہ : (ذُو الۡعَرۡشِ الۡمَجِیۡدُ) (۸۵۔۱۵) عرش کا مالک بڑی شان والا ہے۔ میں ذات باری تعالیٰ کا اَلْمَجِیْدُ کے ساتھ متصف ہونا اس کے وسعت فیض اور کثرت جود کے سبب سے ہی ہے ایک قرأت میں اَلْمَجِیْدِ کسرہ دال کے ساتھ ہے اس صورت میں یہ اَلْعَرْشِ کی صف ہوگی اور جلالت قدر اور عظمت شان کے لحاظ سے عرش کو اَلْمِجِیْدِ کہا گیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے (2) (مَا الْکُرْسی فی جَنب العرش الا کحلقۃ ملقاۃ فی ارض فلاۃ) کہ عرش کے مقالہ میں کرسی کی حیثیت بیاباں میں پڑی ہوئی ایک انگوٹھی کی ہے اور اسی مفہوم کے پیش نظر آیت کریمہ: (لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡکَرِیۡمِ) (۲۳۔۱۶) میں عرش کو الکریم کہا ہے۔ قرآن پاک کی صفت میں بھی اَلْمَجِیْد آیا ہے کیونکہ قرآن پاک بھی تمام دنیوی اور آخروی مکارم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جلیل القدر کتاب ہے چنانچہ فرمایا: (ق والقران المجید) (۵۰۔۱) قرآن مجید کی قسم ہے۔ (بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ) (۸۵۔۲۱) بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے۔ اور قرآن پاک کے عظیم الشان اور مکارم دارین کی تعلیمات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے یہ آیت بھی اسی معنی پر محمول ہے۔ اَلتَّمْجِیْدُ: بندے کی طرف سے اﷲ تعالیٰ کی تمجید کے معنی اس کی صفات حسنہ بیان کرنے کے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندے کی تمجید کے معنی اس پر فضل و کرم کرنے کے ہوتے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْمَجِيْدُ | سورة البروج(85) | 15 |
الْمَجِيْدِ | سورة ق(50) | 1 |
مَّجِيْدٌ | سورة البروج(85) | 21 |
مَّجِيْدٌ | سورة هود(11) | 73 |