اَلْجُبُّ: کنواں جو پختہ یا لپا ہوا نہ ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اَلۡقُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ ) (۱۲:۱۰) کسی گہرے گڑھے میں ڈال دو۔ اور اس کنوئیں کو جُبٌّ یا تو اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ جَبُوْب یعنی سخت زمین میں کھدا ہوا تھا اور یا اس لئے کہ وہ گہرا گڑھا سا تھا۔ (1) اصل میں اَلْجَبُّ (ن) کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل سے کاٹ دینے کے ہیں، جیسے جَبُّ النَّخْلِ کھجور کو گھابھا دینا اور زَمَنَ الصِّرَام کی طرح زَمَنَ الْجَبَاب کا محاورہ بھی مشہور ہے جس کے معنی کھجور کو گھابھنے کا موسم کے ہیں۔ بَعِیْرٌ اَجَبُّ شتر کوہان برید او رنَاقۃ جباء جیساکہ مرد مقطوع الید کو رجُلٌ اَقْطَعُ کہا جاتا ہے اور ایسی عور تکو قَطْعَائُ کہتے ہیں۔ مَجْبُوْبٌ: وہ مرد جس کا آلۂ تناسل جڑ سے قطع کردیا گیا ہو۔ اسی سے جُبَّۃٌ (نوعے از پیراہن) ہے اور تشبیہ کے طور پر نیزہ کے اس پور کو بھی جُبَّۃ کہا جاتا ہے جس میں بھالا پیوست ہوتا ہے۔ اَلْجُبَابُ کفک شیر شتر کہ بمسکہ ماند جَبَّتِ الْمَرْئَ ۃُ النِّسَائَ حُسْنًا: حسن میں برتر ہونا غالب رہنا یہ بھی جُبّ بمعنی قطع سے مستعار ہے، جیساکہ منازعت (بحث و مباحثہ) میں غالب ہونے کے لیے قَطَعْتُہٗ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جَبْجَبَۃٌ جس کے معنی طبل یا چر میں زنبیل کے ہیں اس مادہ سے نہیں ہے بلکہ محض اس صوت کی وجہ سے اسے حَبْجَبَۃَ کہا جاتا ہے جو اس سے مسموع ہوتی ہے۔