Blog
Books
Search Quran
Lughaat

سال الشَّیئُ یَسِیْلُ کے معنیٰ کسی چیز کے بہنے کے ہیں۔ اور اَسَلْنَا کے معنیٰ بہادینے کے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ) (۳۴:۱۲) اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہادیا۔ یہاں اَسَلْنَا کے معنی پگھلا دینے کے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت اِسَالَۃٌ کا لفظ قطر کی اس حالت پر بولا جاتا ہے جو پگھلانے کے بعد ہوتی ہے۔ اَلسَّیْلُ: (ض) یہ اصل میں سَالَ یَسِیْلُ کا مصدر ہے جس کے معنیٰ بہنے کے ہیں اور بطور اسم اس پانی پر بولا جاتا ہے جو دور سے بہہ کر کسی جگہ پر آجائے اور وہاں برسا نہ ہو۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا) (۱۳:۱۷) پھر (برساتی) نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ (سَیۡلَ الۡعَرِمِ…) (۳۴:۱۶) زور کا سیلاب۔ اَلسَّیْلَانُ: (دنبالۂ شمشیر و کارد وغیرہ) اس لمبے لوہے کو کہتے ہیں جو نصاب کی جانب سے تلوار، چھری وغیرہ کے دستہ میں لگا ہوتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
السَّيْلُ سورة الرعد(13) 17
سَيْلَ سورة سبأ(34) 16
فَسَالَتْ سورة الرعد(13) 17
وَاَسَلْنَا سورة سبأ(34) 12