Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلصَّبرُ کے معنی ہیں : کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا چنا نچہ صَبَر تُ الدَّابَّۃَ کے معنی ہو ں گے :میں نے جا نور کو کھلا ئے بغیر با ندھ رکھا ۔ صَبَرتُ فُلا نًا : میں نے اسے زبر دستی قسم کھلا ئی ۔ لہٰذا اَلصَّبرُکے معنی ہو ئے : عقل و شریعت دو نو ں یا ان میں سے کسی ایک کے تقا ضاکے مطا بق اپنے آ پ کو روک رکھنا پس صبر ایک عا م لفظ ہے جو مختلف مواقع استعمال کے اعتبار سے مختلف نا مو ں سے پکا را جا تا ہے چنا نچہ کسی مصیبت پر نفس کو روک رکھنے کو صبر کہا جا تا ہے ۔ یہ جَزعٌ کی ضد ہے اور جنگ میں نفس کو روک رکھنا کو شجا عت کہا جا تا ہے اس کی ضدجُبُنٌ (بزدلی ) ہے ۔ یہی صبر اگر کسی پریشا ن کن حادثہ کو برداشت کر نے کی صورت میں ہو تو اسے رَحبُ الصَّدر (کشا دہ دلی ) کہتے ہیں جس کی ضد ضَجرٌ ہے۔ اگر کسی بات کو روک رکھے تو اسے کتمَان کہتے ہیں اس کی ضد مَذَلٌ (مجبور ہوکر را ز فا ش کر دینا ) ہے ۔قرآن پا ک نے ان تما م صفا ت کو صبر کے لفظ سے یا د کیا ہے ۔ (1) چنا نچہ فر ما یا : (وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ) (۲۔۱۷۷)سختی اور تکلیف کے وقت ثا بت قدم رہیں۔ (وَ الصّٰبِرِیۡنَ وَ الصّٰبِرٰتِ) (۳۳۔۳۵) صبر کر نے والے مرد اور صبر کر نے والی عو رتیں ۔ اور روزہ کو صَبرٌ کہا گیا ہے کیو نکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چنا نچہ آنحضرت نے فر ما یا ۔ (2)(۱) صِیَا مُ شَھرِ الصَّبرِ وَثَلا ثَۃِ اَیَّامِِ فِی کُلِّ شَھرِِ یُذھِبُ وَحرَ الصَّدرِ : ماہ رمضان اور ہر ما ہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں اور آیت کریمہ : (فَمَاۤ اَصۡبَرَہُمۡ عَلَی النَّارِ ) (۲۔۱۷۵)یہ آتش (جہنم ) کی کیسی بردا شت رکھنے والے ہیں ۔ کی تفسیر میں ابو عبیدہ نے کہا ہے ۔ (3) کہ لغت میں صبر کے معنی جرات بھی آتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک اعرا بی نے اپنے خصیم سے کہا ۔(4) مَا اَصبَرَکَ عَلیَ اللہِ کہ تم خدا پر کتنے جریٔ ہو ۔ لیکن یہا ں مجا ز بصو رت حقیقت ہے کیو نکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تو نے گنا ہ پر جرأت کر کے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کیسے بر دا شت کیا اور جن لو گو ں نے اس کے معنی مَا اَلقَا ھُم عَلیَ النَّارِیَا مَا اَ عمَلَھُم بِعَمَلِ اَھلِ النَّارِ کیے ہیں (5) تو اس کا بھی یہی مفہو م ہے کیو نکہ کبھی صبر کے سا تھ وہ شخص بھی متصف ہو تا ہے جو در حقیقت تو صابر نہ ہو لیکن بظا ہر دیکھنے میں صا بر نظر آتا ہو لہٰذا اس مو قع پر صیغہ تعجب کا استعما ل مخلو ق کے لحاظ سے ہے نہ کہ با ری تعالیٰ کے لحاظ سے اور آیت کریمہ ہے :(اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا) (۳۔۲۰۰)ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو۔ کے معنی ہیں کہ عبادت الٰہی پر اپنے آپ کو روکرکھو اور خواہشات نفسابی کے خلاف جہاد کر واور آیت کر یمہ : (وَ اصۡطَبِرۡ لِعِبَادَتِہٖ) (۱۹۔۶۵)اور اس کی وعبادت پر ثابت قدم رہو ، میں اصطبرکے معنی مشقت کے ساتھ صبر کر نے کے ہیں اور آیت کر یمہ: (اولئک یجزون الغرفۃبماصبروا)کے معنی یہ ہیں کہ رضائے الٰہی پر حاصل کرنے کے لیے جو تکا لیف انہو ںنے برداشت کیں اس کے بد لے انہیں جنت میں با لا خانے دیئے جائیں گے اور آیت : (فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ)(۱۲۔۱۸)اچھا صبر (کہ وہی )خوب ہے ۔ میں صبر کا حکم اور اس کی تلقین ہے ۔ الصبور:صبرپر قدرت رکھبے والا ۔صبار کے معنی تکلیف اور مجاہدہ سے صبر کر نے والے کے ہیں ۔قرآن پاک میں ہے : (اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ)(۳۴۔۱۹)اس میں ہر صابر شاکر کے لیے نشانیاں ہیں ۔اور چونکہ انتظار میں صبر لا زم ہے بلکہ یہ صبر ہی کی ایک قسم ہے اس لیے کبھی صبر کا لفظ بو ل کر انتظار کے معنی مراد لے لیتے ہیں ۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے : (فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ)(۶۸۔۴۸)تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں کیے رہو ۔یعنی کفار پر خدا کے حکم کا انتظام کیجئے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
وَلَنَصْبِرَنَّ سورة إبراهيم(14) 12
وَيَصْبِرْ سورة يوسف(12) 90
يَّصْبِرُوْا سورة حم السجدہ(41) 24