Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْاَرَبُ کے معنی سخت احتیاج کے ہیں جسے دور کرنے کے لیے حیلہ اور تدبیر کرنی پڑے پس اَرَبٌ خاص او رحَاجۃٌ عام ہے پھر کبھی اَرَبٌ کا لفظ صرف حاجت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی محض حیلہ اور تدبیر کرنے کے لیے آتا ہے گو حاجت نہ ہو۔ مثلاً محاورہ ہے۔ فُلَانٌ ذُوْ اَرَبٍ وَاَرِیْبٌ! فلاں صاحب حیلہ اور چالاک ہے۔ اَرِبَ اِلٰی کَذَا، اَرَبًا وَاُرْبَۃً وَمَاْرَبَۃٌ کے معنی ہیں وہ کسی چیز کا سخت محتاج ہوا۔ (مَاْرَبَۃٌ۔ سخت حاجت ج مَآرِب) قرآن پاک میں ہے : (وَ لِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخۡرٰی ) (۲۰:۱۸) اور اس میں میرے لیے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ وَلَا اَرَبَ لِیْ فِیْ کَذَا: مجھے اس کی کوئی شدید ضرورت نہیں ہے۔ اور آیت کریمہ : (غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ ) (۲۴:۳۱) نیز وہ خدمت گزار مرد جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں۔ میں اِرْبَۃٌ سے بطور کنایہ حاجت نکاح مراد ہے۔ اَلْاَرْبٰی : بڑی مصیبت جس کے دور کرنے کے لیے تدبیر او رحیلہ کرنا پڑے۔ اَلْاٰرَابُ (واحد اِرْبٌ) وہ اعضاء جن کی انسان کو سخت ضرورت رہتی ہے کیونکہ اعضاء دو قسم کے ہیں ایک وہ جن کے ذریعہ ہر جاندار چیز اپنی ضروریات پورا کرتی ہے جیسے ہاتھ پاؤں اور آنکھ اور دوسرے وہ جو محض زینت کے لیے بنائے گئے ہیں جیسے بھویں، داڑھی وعیرہ پھر وہ اعضاء جو حوائج کو پورا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں دو قسم پر ہیں ایک وہ جن کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور دوسرے وہ ہیں جن کی سخت احتیاج رہتی ہے اور ان کے بغیر جسم انسانی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ اس دوسری قسم کے اعضاء کو اٰرَابٌ کہا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے(1) (۹) اِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَہٗ سَبْعَۃُ اٰرَابٍ کہ جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اُس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں، چہرہ، دو ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں او رجب کوئی شخص اپنی ضرورت کے مطابق (وافر) حصہ لے تو کہا جاتا ہے اَرَّبَ نَصِیْبَہٗ اس نے بڑا حصہ لیا اور وافر۔ اسی سے محاورہ ہے : اَرَّبَ مَالَہٗ اس نے اپنا مال بڑھا لیا اَرَّیْتُ الْعُقْدَۃ میں نے مضبوط گرہ لگائی۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْاِرْبَةِ سورة النور(24) 31
مَاٰرِبُ سورة طه(20) 18