اَلْعَضُّ: کسی چیز کو دانت سے پکڑ لینا یا کاٹنا۔ قرآن پاک میں ہے: (عَضُّوۡا عَلَیۡکُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَیۡظِ) (۳:۱۱۹) تم پر غصے سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ ) (۲۵:۲۷) اور جس دن ناعاقبت اندیش ظالم اپنے ہی ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا۔ میں ندامت سے کنایہ ہے کیونکہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کام پر انتہا درجہ پشیمان ہوتا ہے تو دانت سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے۔ اَلْعُضُّ: کھجور کی گٹھلی، خاردار جھاڑی، جسے اونٹ کھاتے ہیں۔ اَلْعِضَاضُ: جانوروں کا ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹنا۔ رَجُلٌ مُعِضٌّ: اپنے کام میں نہایت کوشش کرنے والا آدمی۔ گویا وہ اسے دانتوں سے پکڑے ہوئے ہے اور کام کی نوعیت کے اعتبار سے کبھی یہ لفظ بطور تعریف استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مذمت۔ ھُوَ عِضٌّ سَفَرٍ: وہ سفر پر بہت قدرت رکھتا ہے۔ ھُوَ عِضٌّ فِی الْخَصُوْمَۃِ: وہ جھگڑنے میں نہایت فصیح اور سخنور ہے۔ زَمَنٌ عَضُوْضٌ: خشک سال۔ اَلتَّعْضُوْضُ: ایک قسم کی کھجور جو دشواری کے ساتھ چبا کر کھائی جاتی ہے۔