Blog
Books
Search Quran
Lughaat

لَاتَہ (ض) عَنْ کَذَالَیْتَا: کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں۔ نیز لَاتَہ وَاَلاتَہُ کسی کا حق کم کرنا پورا نہ دینا۔ قرآن پاک میں ہے:۔ (لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا) (۴۹۔۱۴) توخدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا اور اس کے اصلی معنی رَدُّ اللِیْتِ یعنی گردن کے پہلو کو پھیرنے کے ہیں۔ لَیْتَ: یہ حرف طمع و تمنی ہے یعنی گزشتہ کوتا ہی پر اظہار تاسف کے لیے آتا ہے چنانچہ فرمایا: (یَاوَیْلَتیٰ لَیْتَنِی لَمْ اَتَّخِذْ فُلاناً خَلِیْلاً) (۲۵۔۲۸) اور کافر کہے کا اے کاش: میں مٹی ہوتا۔ (یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا) (۲۵۔۲۷) کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا۔ شاعر نے کہا ہے (1) (الرجز) (۴۰۲) وَلَیْلَۃٍ ذَاتِ دُجّی سَرَیْتُ وَلَمْ یَلِتْنِیْ عَنْ ھَوَاہَالَیْتٗ بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کیے۔ لیکن مجھے کوئی پر خطر مرحلہ بھی محبوب کی محبت سے دل برداشتہ نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ) یہاں لَیْتَ اسم معرب اور لَمْ یَلِتٌ کا فاعل ہے اور یہ قَوْ لِیْ لَیْتَہ کَانَ کَذَا کی تاویل میں ہے۔ جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے (2) (الخفیف) (۴۰۳) اِنَّ لَیْتًا وَّاِنَّ لَوًّ اعَنَائٌ کہ لَیْتَ یا لَوْ کہنا سراسر باعث تکلف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ پہلے شہر میں لیت مصدر بمعنی لاَئِتٌ یعنی اسم فاعل ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی۔

Words
Words Surah_No Verse_No
اَلَتْنٰهُمْ سورة الطور(52) 21
يَـلِتْكُمْ سورة الحجرات(49) 14