اَلْاَشَرُ : بہت زیادہ اترانا اَئِسرَ یَاْشَرُ اَشْرّا (س) اَلْآشِرَ : بہت زیادہ اِترانے والا) قرآن پاک میں ہے : (سَیَعۡلَمُوۡنَ غَدًا مَّنِ الۡکَذَّابُ الۡاَشِرُ) (۵۴:۲۶) ان کو کل ہی معلوم ہوجائے گا کہ کون جھوتا خود پسند ہے۔ پس اَشَرٌ بَطَرٌ سے ابلغ ہے اور بَطَرٌ میں فَرَحٌ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور فَرَحٌ اگرچہ عام حالات میں مذموم ہوتا ہے جس طرح کہ قرآن پاک میں ہے : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ ) (۲۸:۷۶) کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن ایسے موقع پر جب خوشی کا اظہار ضروری ہو اور وہ اظہار بھی جب ضرورت ہو تو فرحت ممدوح ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے : (فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا) (۱۰:۵۸) تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ کیونکہ کبھی سرور کی وجہ سے فرحت کا حصول تقاضائے عقل کے مطابق ہوتا ہے مگر اَشَرٌ اس فرحت کو کہتے ہیں جو مبنی بر ہوائے نفس ہو او راسی سے بطورِ تشبیہ نَاقَۃٌ مِئْشِیْرٌ کا محاورہ ہے جس کے معنی چست اونٹنی کے ہیں اور اس کے معنی دبلی اونٹنی بھی آتے ہیں اس صورت میں اَشَرْتُ الْخقَبَۃ سے ماخوذ ہوگا جس کے معنی لکڑی چیرنا کے ہیں۔