Blog
Books
Search Quran
Lughaat

جَنَیْتُ (ض) جَنْیاً۔ الثَّمْرَۃَ وَاجْتَیْتُھَا میں نے درخت سے پھل توڑا۔ اَلْجَنِیُّ وَالْجَنٰی چنے ہوئے پھل، چھتہ سے نکالا ہوا شہد لیکن عام طور پر جَنِیٌّ تازہ پھل کو کہتے ہیں جو حال ہی میں توڑا گیا ہو، قرآن پاک میں ہے: (تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ) (۱۹:۲۵) تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ (وَ جَنَا الۡجَنَّتَیۡنِ دَانٍ ) (۵۵:۵۴) اور دونوں باغوں کے میوے قریب (جھک رہے) ہیں۔ اَجْنَی الشَّجَرُ درخت کے پھل پک گئے توڑنے کے قابل ہوگئے۔ اَجْنَتِ الْاَرضُ۔ زمین زیادہ پھلوں والی ہوگئی۔ اسی سے یعنی پھل توڑنے کے معنی سے بطور استعارہ جَنٰی فُلَانٌ جِنَایَۃً گناہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیساکہ اِجْتَرَمَ کا محاورہ بطور استعارہ اس معنی میں آتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
جَنِيًّا سورة مريم(19) 25
وَجَنَا سورة الرحمن(55) 54