اَلْوَسَمُ: (ض) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سِمَۃٌ علامت اور نشان کو کہتے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے۔وَسَمْتُ الشَّیْئَ وَسْمًا:میں نے اس پر نشان لگایا۔قرآن پاک میں ہے: (سَنَسِمُہٗ عَلَی الۡخُرۡطُوۡمِ) (۶۸۔۱۶) ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے۔یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہوسکے گی۔جیسا کہ مومنین کے متعلق فرمایا:۔ (تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ ) (۸۳۔۲۴) تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کرلوگے۔ (سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ) کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ (تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ) (۲۔۲۷۳) اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے۔اَلتَّوَسُّمُ کے معنی آثار و قرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرنا کے ہیں اور اسے علم ذکانت، فراست اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں ہے۔ (1) (۱۴۷) (اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اﷲِ) یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے۔قرآن پاک میں ہے:۔ (اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ) (۱۵۔۷۵) بے شک اس (قصے) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں یعنی ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔ اَلْوَسَمِیُّ:موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں اس لئے کہ اس سے زمین پر گھاس کے نشانات ظاہر ہوجاتے ہیں اور تَوَسَّمْتُ جس کے معنی علامت سے پہچان لینے کے ہیں۔دراصل یہ لفظ وسمی گھاس کے تلاش کرلینے پر بولا جاتا ہے۔فُلَانٌ وَسِیْمُ الْوَجْہِ:فلاں خوب رو ہے۔ ھُوَ ذُوْ وَسَامَۃِِ:وہ صاحب جمال ہے۔ فُلَانَۃٌ مَوْسُوْمٌ بِالْخَیْرِ:اس کے چہرہ سے خیر ٹپکتی ہے۔ قَوْمٌ وَسَامٌ:خوبصورت لوگ۔ مَوْسِمُ الْحَاجِّ:حجاج کے جمع ہونے کا زمانہ اس کی جمع مَوَاسِمُ ہے اور وَسَّمُوْا کے معنی موسم میں حاضر ہونے کے ہیں۔جیسا کہ عَرَّفُوْا وَحَصَّبُوْا وَعَبَّدُوْا کے معنی عرفہ،محصّب اور عیدگاہ میں جمع ہونے کے ہیں اور جس جگہ پر حجاج کنکر پھینکتے ہیں اسے مُخَصَّبٌ کہا جاتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
سَنَسِمُهٗ | سورة القلم(68) | 16 |
لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ | سورة الحجر(15) | 75 |