Blog
Books
Search Quran
Lughaat

زَلَقٌ اور زَلَلٌ تقریباً ہم معنیٰ ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (صَعِیۡدًا زَلَقًا) (۱۸:۴۰) صاف میدان۔ یعنی چکنی زمین جس میں کوئی سبزہ نہ وہ جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: (فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا) (۲:۲۶۴) اسے سپاٹ کر (کے بہہ بہا) گیا۔ اَلْمُزْلَقُ: پھسلنے کی جگہ۔ اور آیت کریمہ: (لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِہِمۡ ) (۶۸:۵۱) اپنی نظروں سے (گھور کر) تجھے تیرے مکان سے پھسلا دیں۔ میں ابصار کے متعلق زَلَقَ کا لفظ مجازاً استمعال ہوا ہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (1) (الکامل) (۲۰۵) نَظَرٌ یُّزْیْلُ مَوَاضِعَ الْاقْدَامِ ایسی نظر جو قدموں کو ان کی جگہ سے پھسلا دے۔ کہا جاتا ہے زَلَقَہٗ وَاَزْلَقَہٗ: اسے پھسلایا فَزَلِقَ چنانچہ پھسل گیا۔ یونس لغوی کا قول ہے کہ زَلَقٌ اور اِزْلَاق کا یہ محاورہ صرف قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے اور ابی بن کعب نے اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاَخَرِیْنَ (۲۶:۶۴) میں ازلقنا (قاف کے ساتھ) پڑھا ہے جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے وہاں دوسرے لوگوں کو لاکر ہلاک کر ڈالا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
زَلَقًا سورة الكهف(18) 40
لَيُزْلِقُوْنَكَ سورة القلم(68) 51