اَلْحَفْرُ: وہ مٹی جو گڑھے سے نکالی جاتی ہے (یہ اسم مفعول کے معنیٰ میں ہے) جیساکہ نَقْض بمعنیٰ منقوض آجاتا ہے۔ اَلْحَفْرَۃُ وَالْحَفِیْرُ: گڑھا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ) (۳:۱۰۳) اور تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے۔ اَلْمَحْفَارُ وَالْمِحْفَرُ وَاْمِحْفَرۃُ: بیلچہ وغیرہ جس سے گڑھا کھودا جاتا یہ اور تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے سم کو حَافِرٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دوڑتے وقت اپنے سم سے مٹی اڑاتا ہوا چلا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِی الۡحَافِرَۃِ ) (۷۹:۱۰) کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹیں گے؟ میں مَرْدُوْدٌ فِی الْحَافِرَۃ۔ ایک مثال ہے اور یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو جدھر سے آئے اسی طرف لوٹا دیا جائے ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوں گے۔ بعض نے کہا ہے کہ حَافِرَۃ سے مراد وہ زمین ہے جس میں ان کی قبریں بنائی گئی تھیں اور حَافِرۃٌ یہاں موضع حال میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ کیا ہم لوٹائے جائیں گے اس حال میں کہ قبروں میں ہوں گے۔ محاورہ ہے۔ رَجَعَ عَلٰی حَافِرَتِہٖ اَوْ رَجَع الشَّیْخُ اِلٰی حَافِرَتَہٖ: یعنی بوڑھا ہوگیا۔ جیساکہ قرآن پاک میں ہے: (وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ ) (۱۶:۷۰) آیا ہے۔ اور جو چیز نقد فروخت کی جائے اس کے متعلق عرب لوگ کہتے ہیں(1) (مثل) النَّقْدُ عِندالْحَافِرَۃ۔ اور اصل میں یہ گھوڑے کی بیع کے متعلق بولا جاتا ہے۔ جیسے: لَایَزُوْلُ حَافِرُہٗ اَوْیُنْقَدُ ثَمَنہٗ کہ اس کاسم یہاں سے جدا نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی قیمت نقد ادا نہ کی جائے۔ اَلْحَفْرُ تَأْکُلُ الْاَسْنَانَ دانتوں کی زردی ان کو کھا جاتی ہے۔ حُفِرَفُوْہٗ حَفْراً: اس کے دانت خراب ہوگئے اَحْفَرَ المُھْرُ: بچھڑے کے ثنائی یا رباعی دانت گرگئے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْحَافِرَةِ | سورة النازعات(79) | 10 |
حُفْرَةٍ | سورة آل عمران(3) | 103 |