انعام یافتہ کون؟ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت صراط مستقیم کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے واللہ اعظم ۔ اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آچکا ہے فرمان ہے آیت ( وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا ) 4 ۔ النسآء:69 ) یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی ، صدیق ، شہید ، صالح لوگ ہیں ، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں ۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔ یہ آیت ٹھیک آیت ( ومن یطع اللہ ) کی طرح ہے ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں ۔ ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں مومن ہیں ۔ وکیع کہتے ہیں مسلمان ۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں ۔ ابن عباس کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے واللہ اعلم ۔ جمہور کی قرأت میں غیرے کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے ۔ زمحشری کہتے ہیں رے کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر بن خطاب کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ علیھم میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور انعمت عامل ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے ۔
ف 1 یہ صراط مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ف 2 صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا۔ ( وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا) 004:069 اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا) سے مراد یہودی اور ( وَلا الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے اپنے احبارو رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورة کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔
[١٤] انعام والے اور گمراہ لوگ کون ہیں ؟:۔ قرآن کی تصریح کے مطابق ان سے مراد انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ (٤: ٦٩) وہ لوگ نہیں جنہیں مال و دولت یا حشمت و جاہ کی فراوانیاں حاصل ہیں۔ اور آپ کے ارشاد کے مطابق (آیت مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ ) سے مراد تو یہود ہیں جو گناہ کے کاموں پر دلیر ہوگئے تھے اور ان پر اللہ کا عذاب اور پھٹکار نازل ہوئی اور ضالِّیْن سے مراد عیسائی حضرات ہیں جو فلسفیانہ موشگافیوں میں پھنس کر تثلیث اور گمراہی کا شکار ہوئے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس (مدینہ) آیا۔ وہ اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ عدی بن حاتم ہے جو بغیر کسی کی امان یا تحریر کے آیا ہے۔ چناچہ مجھے پکڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پہلے آپ صحابہ (رض) کو خبر دے چکے تھے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔ پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں آپ کے ساتھ تھا (راہ میں) ایک عورت اور اس کا بچہ ملے۔ وہ آپ سے کہنے لگے : ہمیں آپ سے کچھ کام ہے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ان کا کام پورا کردیا۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر تشریف لائے۔ ایک لڑکی نے آپ کے لئے بچھونا بچھایا۔ آپ اس پر بیٹھ گئے اور میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر مجھے کہا : وہ کون سی بات ہے جو تمہیں لا الہ الا اللہ کہنے سے باز رکھتی ہے، کیا تم اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ دیر باتیں کیں پھر پوچھا : تمہیں اللہ اکبر کہنے سے کون سی چیز دور رکھتی ہے۔ کیا اللہ سے کسی بڑی چیز کو تم جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں پھر آپ نے فرمایا : یہود پر تو اللہ تعالیٰ کا غصہ ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں میں نے کہا کہ میں تو یکطرفہ مسلمان ہوتا ہوں پھر میں نے آپ کے چہرہ پر فرحت و انبساط دیکھی۔ پھر آپ نے میرے بارے میں حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں مقیم ہوا۔ اب میں روزانہ صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہوا کرتا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ سورة فاتحہ) - دور نبوی میں تو واقعی یہی فرقے مغضوب علیھم اور ضالّین تھے۔ مگر آج مسلمانوں کے اکثر فرقے ان میں شامل ہوچکے ہیں اور صراط مستقیم پر تو مسلمانوں کا صرف وہی فرقہ ہے جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا مَا اَنَاعَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ (ترمذی، کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) - [١٥] آمین بالجہر کا ثبوت :۔ (١) سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب امام ولاالضَّالِیْنَ کہے تو تم آمین کہو۔ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا۔ اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة فاتحہ) نیز کتاب الاذان والجماعۃ۔ باب فضل التامین) - (٢) نیز عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ آمین دعا ہے اور عبداللہ بن زبیر (رض) نے اور ان کے پیچھے مقتدیوں نے اس زور سے آمین کہی کہ مسجد گونج اٹھی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان والجماعہ۔ باب جھر الامام بالتامین) - (٣) وائل بن حجر جو عام الوفود یعنی ١٠ ھ میں مدینہ تشریف لائے، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ جب آپ نے نماز میں (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ۧ) 1 ۔ الفاتحة :7) کہا تو اپنی آواز کو خوب لمبا کرکے آمین کہی۔ (ترمذی۔ ابو اب الصلٰوۃ۔ باب ماجاء فی التامین)
(صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ) یعنی جن لوگوں پر تو نے دوسرے بیشمار انعامات کے ساتھ اپنی اطاعت کی توفیق کا خاص انعام کیا، ان سے مراد چار قسم کے لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، فرمایا : (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ ) [ النساء : ٦٩ ] ” اور جو کوئی اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے۔ “ قرآن مجید میں مذکور انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے تمام واقعات اس مختصر جملے کی تفصیل ہیں۔ - (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ) قرآن مجید میں ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ یہود کو کہا گیا ہے، چناچہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : ( وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٦١ ] ” اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب لے کر لوٹے۔ “ اور فرمایا : (فَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ ) [ البقرۃ : ٩٠ ] ” پس وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے۔ “ اور فرمایا : (قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ ۭ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ ) [ المائدۃ : ٦٠ ] ” کہہ دے کیا میں تمہیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتاؤں ؟ وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ غصے ہوا اور جن میں سے اس نے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔ یہ لوگ درجے میں سب سے برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “- اور ” الضَّاۗلِّيْنَ “ نصاریٰ کو کہا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ ) [ المائدۃ : ٧٧ ] ” اور اس قوم کی خواہشوں کے پیچھے مت چلو جو اس سے پہلے گمراہ ہوچکے اور انھوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ “ اس آیت سے پہلے مسلسل نصاریٰ کا ذکر آ رہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ اور ” الضَّاۗلِّيْنَ “ کی یہی تفسیر فرمائی۔ چناچہ عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْیَھُوْدُ مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ وَ النَّصَارٰی ضُلَّالٌ ) ” یہود ” مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ “ ہیں اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔ “ - [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة فاتحۃ الکتاب : ٢٩٥٤، و صححہ الألبانی ]- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تفسیر سے ثابت ہوگیا کہ ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ یہود ہیں اور ” الضَّاۗلِّيْنَ “ نصاریٰ ، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جن میں وہ عادات و خصائل پائے جاتے ہیں جو یہود کے ” الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ بننے کا باعث ٹھہرے، یا جن کی وجہ سے نصاریٰ ” الضَّاۗلِّيْنَ “ (گمراہ) ٹھہرے۔ مثلاً یہود پر غضب نازل ہونے کے اسباب جو اللہ تعالیٰ نے شمار فرمائے ہیں اختصار کے ساتھ یہ ہیں، اللہ کی کتاب میں تحریف، اللہ کی آیات کو چھپانا، اللہ کی حدود مثلاً رجم اور ہاتھ کاٹنے کو معطل کرنا، اللہ پر جھوٹ باندھنا، اپنے پاس سے مسائل بیان کرکے انھیں اللہ کا حکم قرار دینا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کی وجہ سے ایمان نہ لانا اور باہمی ضد کی وجہ سے بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ جانا۔- شاہ ولی اللہ (رض) لکھتے ہیں : ” وَ بالْجُمْلَۃِ فَاِنْ شِءْتَ أَنْ تَرَی نَمُوْذَجَ الْیَھُوْدِ فَانْظُرْ اِلٰی عُلَمَاء السُّوْءِ مِنَ الَّذِیْنَ یَطْلُبُوْنَ الدُّنْیَا وَ قَدِ اعْتَادُوْا تَقْلِیْدَ السَّلَفِ وَ اَعْرَضُوْا عَنْ نُّصُوْصِ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَ تَمَسَّکُوْا بِتَعَمُّقِ عَالِمٍ وَ تَشَدُّدِہِ وَ اسْتِحْسَانِہِ فَاَعْرَضُوْا عَنْ کَلَام الشَّارِعِ الْمَعْصُوْمِ وَ تَمَسَّکُوْا بِأَحَادِیْثَ مَوْضُوْعَۃٍ وَ تَأْوِیْلَاتٍ فَاسِدَۃٍ کَانَتْ سَبَبَ ھَلَاکِھِمْ “ ” قصہ مختصر اگر تم چاہو کہ یہود کا نمونہ دیکھو تو ان علمائے سوء کو دیکھ لو جو دنیا طلب کر رہے ہیں اور پہلے لوگوں کی تقلید کے عادی ہوچکے ہیں، جنھوں نے کتاب و سنت کی صریح آیات و احادیث سے منہ موڑ لیا اور کسی عالم کے تکلف، اس کے تشدد اور اس کے استحسان کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے۔ چناچہ انھوں نے معصوم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام سے منہ موڑ لیا اور من گھڑت احادیث اور فاسد تاویلات سے چمٹ گئے، جو ان کی ہلاکت کا باعث بن گئیں۔ “ (الفوز الکبیر)- اور نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب یہ تھے، مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں غلو، ان کو عین خدا یا تین میں سے ایک خدا کہنا، مریم [ کو تین میں سے ایک خدا کہنا، مسیح (علیہ السلام) ، مریم [ اور صلیب کی پوجا کرنا، قبروں کو مسجدیں بنانا، احبارو رہبان کو رب بنانا وغیرہ۔ شاہ ولی اللہ (رض) فرماتے ہیں : ” وَاِنْ شِءْتَ أَنْ تَرَی نَمُوْذَجًا لِھٰذَا الْفَرِیْقِ فَانْظُرِ الْیَوْمَ اِلٰی أَوْلَادِ الْمَشَاءِخِ الْأَوْلِیَاءِ مَاذَا یَظُنُّوْنَ بآبَاءِھِمْ ؟ فَتَجِدُھُمْ قَدْ أَفْرَطُوْا فِیْ اِجْلَالِھِمْ کُلَّ الْاِفْرَاطِ وَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ “ ” اگر چاہو کہ اس گروہ کا نمونہ دیکھو تو بزرگ اولیاء کی آج کل کی اولاد کو دیکھ لو کہ وہ اپنے باپ دادا کے متعلق کیا گمان رکھتے ہیں، چناچہ تم انھیں پاؤ گے کہ وہ ان کی بزرگی بیان کرتے ہیں، جتنا مبالغہ ہو سکے کرتے ہیں اور عنقریب وہ لوگ جان لیں گے جنھوں نے ظلم کیا کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔ “ (الفوز الکبیر)- (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ) کا ترجمہ عام طور پر کیا جاتا ہے : ” نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا “ مگر حقیقت یہ ہے کہ ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ “ میں لفظ ” غَيْرِ “ پچھلی آیت میں ” الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ سے بدل یا اس کی صفت ہے، یعنی ” الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ اور ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ “ دونوں ایک ہی لوگ ہیں، اس لیے ترجمہ یہ ہوگا : ” ہمیں سیدھے راستے پر چلا، ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔ “- یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ” صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ “ کافی نہ تھا، پھر اس کے بعد ” غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ “ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام تو اس کی ہر مخلوق پر بیشمار ہے، کم از کم اسے پیدا کرنا اور اس کی زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنا ہی بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے یہ تعلیم دی کہ ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا کرو جن پر اللہ نے انعام کیا، مگر وہ غضب کا نشانہ نہیں بنے، نہ ہی وہ گمراہ ہیں، ایسے لوگ وہ چار گروہ ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا۔ - (صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ) میں انعام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے، جب کہ غضب اور ضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے ادب کی تعلیم ہے کہ اگرچہ خیر و شر دونوں کا خالق وہ ہے مگر شر کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاتی، کیونکہ اس کا ہر فعل خیر ہی خیر ہے۔ حذیفہ بن یمان (رض) (عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) کی تفسیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب سب لوگ ایک میدان میں کھڑے ہوں گے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کو پکاریں گے : ( لَبَّیْکَ وَ سَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِیْ یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَ ) [ مستدرک حاکم، تفسیر سورة بنی إسرائیل : ٢؍٣٦٣، ح : ٣٣٨٤ ] ” بار بار حاضر ہوں اور بار بار حاضر ہوں، خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے۔ “ اسے حاکم نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ سورة کہف میں خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کشتی توڑنے اور دوسرے دو واقعات کی اصل حقیقت بیان کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے اس ادب کا خاص خیال رکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں سورة کہف (٧٩ تا ٨٢) کی تفسیر۔- سورة فاتحہ پڑھنے کے بعد ” آمین “ کہنا چاہیے، اس کا معنی اے اللہ قبول فرما، یا ایسے ہی کر دے ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید کا حصہ نہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے قرآن مجید کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔ امام کے ” وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ “ کہنے پر امام اور مقتدی دونوں کو آمین کہنا چاہیے۔ مقتدی کو امام کی آمین کے ساتھ آمین کہنا چاہیے۔ اس کے متعلق چند احادیث درج کی جاتی ہیں، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب امام (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ) کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا (آمین) کہنا فرشتوں کے کہنے کے موافق ہوگیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب جھر المأموم بالتأمین : ٧٨٢ ] ابوہریرہ (رض) ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، کیونکہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہوگیا، اس کے پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ “ [ بخاری، الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین : ٧٨٠۔ مسلم : ٤١٠ ]- ابوموسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب امام ” وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ “ کہے تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرلے گا۔ “ [ مسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ : ٤٠٤ ] وائل بن حجر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے بلند آواز سے آمین کہی اور دائیں اور بائیں سلام پھیرا، یہاں تک کہ میں نے آپ کے رخسار کی سفیدی دیکھ لی۔ [ أبوداوٗد، الصلٰوۃ، باب التأمین وراء الإمام : ٩٣٤، وقال الألبانی حسن صحیح ] وائل بن حجر (رض) ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ” وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ “ پڑھتے تو ” آمین “ کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ [ أبوداوٗد، باب التأمین وراء الإمام : ٩٣٣، وقال الألبانی صحیح ]- وائل بن حجر (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ) پڑھا اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کیا۔ [ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی التأمین : ٢٤٨، وقال الألبانی صحیح ] عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہودیوں نے تم پر کسی چیز میں وہ حسد نہیں کیا جو انھوں نے آمین کہنے اور سلام میں تم پر حسد کیا ہے۔ “ [ ابن ماجہ، إقامۃ الصلوات، باب الجھر بآمین : ٨٥٦۔ مسند أحمد : ٦؍١٣٤، ١٣٥، ح : ٢٥٠٨٢، و قال - الألبانی صحیح ]
اس آیت میں پہلے مثبت اور ایجابی طریق سے صراط مستقیم کو متعین کیا گیا ہے کہ ان چار طبقوں کے حضرات جس راستے پر چلیں وہ صراط مستقیم ہے اس کے بعد آخر کی آیت میں سلبی اور منفی صورت سے اس کی تعیین کی گئی ہے ارشاد ہے :- غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستے سے گم ہوگئے الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں احکام الہیہ کی تعمیل میں کوتاہی (یعنی تفریط) کرتے ہیں جیسے عام طور پر یہود کا حال تھا کہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء کی توہین کرتے تھے اور ضآلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناواقفیت اور جہالت کے سبب دین کے معاملے میں غلط راستے پر پڑگئے اور دین کی مقررہ حدود سے نکل کر افراط اور غلو میں مبتلا ہوگئے جیسے عام طور پر نصاریٰ تھے کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انھیں کو خدا بنا لیا ایک طرف یہ ظلم کہ اللہ کے انبیاء کی بات نہ مانیں انھیں قتل تک کرنے سے گریز نہ کریں اور دوسری طرف یہ زیادتی کہ ان کو خدا بنالیں، - آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ ہم وہ راستہ نہیں چاہتے جو اغراض نفسانی کے تابع بدعمل اور دین میں تفریط کرنے والوں کا ہے اور نہ وہ راستہ چاہتے ہیں جو جاہل گمراہ اور دین میں غلو (افراط) کرنے والوں کا ہے بلکہ ان کے درمیان کا سیدھا راستہ چاہتے ہیں جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط، اور جو شہوات اور اغراض نفسانی کے اتباع سے نیز شبہات اور عقائد فاسدہ سے پاک ہے،- سورة فاتحہ کی ساتوں آیات کی تفسیر ختم ہوگئی اس پوری سورت کا خلاصہ اور حاصل مطلب یہ دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما اور چونکہ دنیا میں صراط مستقیم کا پہچاننا ہی سب سے بڑا علم اور بڑی کامیابی ہے اور اسی کی پہچان میں غلطی ہونے سے اقوام عالم تباہ ہوتی ہیں ورنہ خدا طلبی اور اس کے لئے مجاہدات کی تو بہت سے کفار میں بھی کوئی کمی نہیں اسی لئے قرآن نے صراط مستقیم کو پوری وضاحت کے ساتھ ایجابی اور سلبی دونوں پہلوؤں سے واضح فرمایا ہے ،- صراط مستقیم کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں کے مجموعہ سے ملتا ہے : یہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے وہ یہ کہ صراط مستقیم کی تعیین کے لئے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ صراط الرسول یا صراط القرآن فرما دیا جاتا جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی کیونکہ پورا قرآن درحقیقت صراط مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیمات رسول اسی کی تفصیل لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراط مستقیم کی تعیین کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں ایجابی اور سلبی پہلوؤں سے صراط مستقیم اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریق کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو کیونکہ محض کتاب انسانی تربیت کے لئے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا راستہ اختیار کرو کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بقاء اس دنیا میں دائمی نہیں اور آپ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں اس لئے صراط مستقیم جن لوگوں کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ان میں نبیّن کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کردئیے گئے جو تاقیامت ہمیشہ موجود رہیں گے مثلاً صدیقین، شہداء، اور صالحین،- خلاصہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا، ایک حدیث میں ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خبر دی کہ پچھلی امتوں کی طرح میری امت بھی ستر فرقوں میں بٹ جائے گی اور صرف ایک جماعت ان میں حق پر ہوگی تو صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کونسی جماعت ہے ؟ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جواب دیا ہے اس میں بھی کچھ رجال اللہ ہی کا پتہ دیا گیا ہے فرمایا : ما انا علیہ و اصحابی، یعنی حق پر وہ جماعت ہوگی جو میرے اور میرے صحابہ کے طرز پر ہو،- اس خاص طرز میں شاید اس کی طرف اشارہ ہو انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہوسکتی بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے یعنی درحقیقت انسان کا معلم اور مربی انسان ہی ہوسکتا ہے بقول اکبر مرحوم۔- کورس تو لفظ ہی سیکھاتے ہیں - آدمی، آدمی بناتے ہیں - اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام کاروبار میں مشاہد ہے کہ محض کتابی تعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کر کوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے نہ انجینیری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینیر بنتا ہے اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لئے ہرگز کافی نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ حاصل نہ کیا جائے قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے لکھے پڑھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہوسکتے ہیں یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کے بھیجنے کی ضرورت نہ تھی کتاب کے ساتھ رسول کو معلم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لئے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لئے کافی نہیں بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے،- معلوم ہوا کہ انسان کی صلاح و فلاح کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ایک کتاب اللہ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہیں، دوسرے رجال اللہ یعنی اللہ والے، ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اللہ کے معروف اصول پر رجال اللہ کو پرکھا جائے جو اس معیار پر نہ اتریں ان کو رجال اللہ ہی نہ سمجھا جائے اور جب رجال اللہ صحیح معنی میں حاصل ہوجائیں تو ان سے کتاب اللہ کا مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے،- فرقہ وارانہ اختلافات کا بڑا سبب : یہی ہے کہ کچھ لوگوں نے صرف کتاب اللہ کو لے لیا، رجال اللہ سے قطع نظر کرلی، ان کی تفسیر وتعلیم کو کوئی حیثیت نہ دی اور کچھ لوگوں نے صرف رجال اللہ کو معیارِ حق سمجھ لیا اور کتاب اللہ سے آنکھ بند کرلی، اور ان دونوں طریقوں کا نتیجہ گمراہی ہے،- سورة فاتحہ کے متعلق احکام و مسائل :- سورة فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ہے پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اقرار اور اس کا اظہار ہے کہ ہم اسکے سوا کسی کو اپنا حاجت روا نہیں سمجھتے یہ گویا حلف وفاداری ہے جو انسان اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے اس کے بعد پھر ایک اہم دعا ہے جو تمام انسانی مقاصد و ضروریات پر حاوی ہے اور اس میں بہت سے فوائد اور مسائل ضمنی آئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل کو لکھا جاتا ہے :- دعا کرنے کا طریقہ (١) اس خاص اسلوب کلام کے ذریعہ انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ سے کوئی دعا و درخواست کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کی حمد وثنا کا فرض بجا لاکر پھر حلف وفادری اس بات کا کرو کہ ہم اس کے سوا نہ کسی کو لائق عبادت سمجھتے ہیں اور نہ کسی کو حقیقی معنی میں مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں اس کے بعد اپنے مطلب کی دعا کرو اس طریقہ سے جو دعا کی جائیگی اس کے قبول ہونے کی قوی امید ہے (احکام جصاص) - اور دعا میں بھی ایسی جامع دعا اختیار کرو جس میں اختصار کے ساتھ انسان کے تمام مقاصد داخل ہوجائیں جیسے ہدایت صراط مستقیم کہ دنیا ودین کے ہر کام میں اگر انسان کا راستہ سیدھا ہوجائے تو کہیں ٹھوکر لگنے اور نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے غرض اس جگہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے اپنی حمد وثناء بیان کرنے کا اصل مقصد انسان کو تعلیم دینا ہے،- اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فطری فرض ہے۔ (٢) اس سورت کے پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کی تعلیم و ترغیب ہے مگر حمد کسی نعمت یا صفت کی بناء پر ہوا کرتی ہے یہاں کسی نعمت یا صفت کا ذکر نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بیشمار ہیں ان کا کوئی انسان احاطہ نہیں کرسکتا، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (١٤: ٣٤) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، انسان اگر سارے عالم کو چھوڑ کر اپنے ہی وجود پر نظر ڈال لے تو معلوم ہوگا کہ اس کا وجود خود ایک عالم اصغر ہے جس میں عالم اکبر کے سارے نمونے موجود ہیں اس کا بدن زمین کی مثال ہے اس پر اگنے والے بال نباتات کی مثال ہیں، اس کی ہڈیاں پہاڑوں کی شبیہ ہیں اس کے بدن کی رگیں جس میں رواں ہے زمین کے نیچے بہنے والے چشموں اور نہروں کی مثال ہیں، - انسان دو جز سے مرکب ہے، ایک بدن دوسرے روح اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قدر و قیمت کے اعتبار سے روح اصل، اعلیٰ اور افضل ہے، بدن محض اس کے تابع اور ادنی درجہ رکھتا ہے اس ادنی جز کے متعلق بدن انسان کی تحقیق کرنے والے اطباء اور اہل تشریح نے بتلایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقریباً پانچ ہزار مصالح اور منافع رکھے ہیں اس کے بدن میں تین سو سے زیادہ جوڑ ہیں ہر ایک جوڑ کو اللہ تعالیٰ ہی قدرت کاملہ نے ایسا مستحکم بنایا ہے کہ ہر وقت کی حرکت کے باوجود نہ وہ گھستا ہے نہ اس کی مرمت کی ضرورت ہوتی ہے عادۃ انسان کی عمر ساٹھ ستر سال ہوتی ہے پوری عمر اس کے یہ نرم و نازک اعضاء اور ان کے سب جوڑ اکثر اوقات اس طرح حرکت میں رہتے ہیں کہ فولاد بھی ہوتا تو گھس جاتا مگر حق تعالیٰ نے فرمایا، نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَهُ (٢٨: ٧٦) یعنی اگر ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا اور ہم نے ہی اس کے جوڑ بند مضبوط کئے اسی قدرتی مضبوطی کا نتیجہ ہے کہ عام عادت کے مطابق یہ نرم ونازک جوڑ ستر برس اور اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام دیتے ہیں انسانی اعضاء میں سے صرف آنکھ ہی کو لے لیجئے اس میں جو اللہ تعالیٰ شانہ کی حکمت بالغہ کے مظاہر موجود ہیں انسان کو عمر بھر خرچ کرکے بھی ان کا پورا ادراک آسان نہیں، - پھر اس آنکھ کے ایک مرتبہ کے عمل کو دیکھ کر یہ حساب لگائیے کہ اس ایک منٹ کے عمل میں حق تعالیٰ کی کتنی نعمتیں کام کر رہی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کیونکہ آنکھ اٹھی اور اس نے کسی چیز کو دیکھا اس میں جس طرح آنکھ کی اندرونی طاقتوں نے عمل کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بیرونی مخلوقات کا اس میں بڑا حصہ ہے اگر آفتاب کی روشنی نہ ہو تو آنکھ کے اندر کی روشنی کام نہیں دے سکتی پھر آفتاب کے لئے بھی ایک فضاء کی ضرورت ہوتی ہے انسان کے دیکھنے اور آنکھ کو کام میں لانے کے لئے غذا ہوا وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ نظر اٹھ کر جو کچھ دیکھتی ہے اس میں پورے عالم کی طاقتیں کام کرتی ہیں یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا پھر آنکھ دن میں کتنی مرتبہ دیکھتی اور سال میں کتنی مرتبہ عمر میں کتنی مرتبہ، یہ ایسا سلسلہ ہے جس کے اعداد و شمار انسانی طاقت سے خارج ہیں،- اسی طرح کان، زبان، ہاتھ، پاؤں کے جتنے کام ہیں ان سب میں پورے عالم کی قوتیں شامل ہو کر کام پورا ہوتا ہے، یہ تو وہ نعمت ہے جو ہر زندہ انسان کو میسر ہے اس میں شاہ وگدا، امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں اور اللہ شانہ کی بڑی بڑی نعمتیں سب ایسی ہی وقف عام ہیں کہ ہر فرد انسانی ان سے نفع اٹھاتا ہے، آسمان، زمین ان دونوں میں اور ان کے درمیان پیدا ہونے والی تمام کائنات چاند، سورج، ثوابت اور سیارے ہوا، فضا کا نفع ہر جاندار کو پہنچ رہا ہے،- اس کے بعد اللہ جل شانہ کی نعمائے خاصہ جو انسان کے افراد میں بتقاضائے حکمت کم وبیش کر کے عطاء ہوتی ہیں، مال اور دولت، عزت اور جاہ، راحت اور آرام سب اسی قسم میں داخل ہیں اور اگرچہ بات بالکل بدیہی ہے کہ نعمائے عامہ مال دولت وغیرہ کے زیادہ اہم اور اشرف ہیں مگر بھولا بھالا انسان تمام افراد انسان میں عام ہونے کی بناء پر کبھی ان عظیم الشان نعمتوں کی طرف التفات بھی نہیں کرتا ہے کہ یہ کوئی نعمت ہے صرف گردوپیش کی معمولی چیزیں کھانے، پینے، رہنے سہنے کی خصوصی چیزوں ہی پر اس کی نظر رک جاتی ہے، بہرحال یہ ایک سرسری نمونہ ہے ان کا جو ہر انسان پر ہر وقت مبذول ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا ہی چاہئے کہ انسان اپنی مقدور بھر ان احسانات و انعامات کرنے والے کی حمد وثناء کرے اور کرتا رہے اسی کے تقاضائے فطرت کی تلقین کے لئے قرآن کی سب سے پہلی سورت کا سب سے پہلا کلمہ الحمد لایا گیا ہے، اور اللہ کی حمد وثناء کو عبادت میں بڑا درجہ دیا گیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو ایسا ہوگیا کہ گویا جو کچھ اس نے لیا ہے اس سے افضل چیز دے دی (قرطبی از ابن ماجہ بروایت انس) - ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اگر ساری دنیا کی نعمتیں کسی ایک شخص کو حاصل ہوجائیں اور وہ اس پر الحمد للہ کہہ لے تو یہ الحمد للہ ان ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے، قرطبی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الحمد للہ زبان سے کہنا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے اور یہ نعمت ساری دنیا کی نعمتوں سے افضل ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ الحمد للہ سے میزان عمل کا آدھا پلہ بھر جاتا ہے اور حمد کی حقیقت حضرت شقیق بن ابراہیم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی چیز عطا فرمائے تو اول اس کے دینے والے کو پہچانو پھر جو کچھ اس نے دیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ پھر جب تک تمہارے جسم میں اس کی عطاء کی ہوئی قوت و طاقت موجود ہے اس کی نافرمانی کے قریب نہ جاؤ (قرطبی) - دوسرا کلمہ للہ ہے، اس میں لفظ اللہ کے ساتھ شروع میں حرف لام لگا ہوا ہے جس کو عربیت کے قاعدے سے لام اختصاص کہا جاتا ہے جو کسی حکم یا وصف کی خصوصیت پر دلالت کرتا ہے اس جگہ معنی یہ ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء انسان کا فرض ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حمد وثناء صرف اسی کی ذات قدوس کے ساتھ مخصوص ہے حقیقی طور پر اس کے سوا عالم میں کوئی مستحق حمد وثناء کا نہیں ہوسکتا جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، ہاں اس کے ساتھ یہ بھی اس کا انعام ہے کہ انسان کو تہذیب اخلاق سکھانے کے لئے اس کو یہ بھی حکم دے دیا کہ میری نعمت و احسان جن واسطوں سے تمہارے ہاتھ آئے ان کا بھی شکر ادا کرو کیونکہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر ادا کرنے کا خوگر نہ ہو وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرے گا،- خود اپنی مدح وثناء کسی انسان کے لئے جائز نہیں :- (٣) خود اپنی حمد وثناء کا بیان کرنا کسی مخلوق کے لئے جائز نہیں قرآن کریم میں ارشاد ہے،- فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (٥٣: ٣٢) یعنی تم میں اپنی پاکی اور صفائی کا دعویٰ نہ کرو اللہ ہی جانتا ہے کہ کون تقوٰی شعار ہے،- مطلب یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مدح کا مدار تقویٰ پر ہے، اور اس کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کس کا تقوٰی کس درجے کا ہے اور حق تعالیٰ نے جو اپنی حمد وثناء خود بیان فرمائی اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچارہ انسان اس کی استعداد نہیں رکھتا کہ بارگاہ عزت و جلال کی حمد وثناء کیسے بیان کرے اور کسی کی تو کیا مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثناء کرسکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا احصی ثناء علیک یعنی میں آپ کی ثناء کماحقہ نہیں کرسکتا اس لئے اللہ جل شانہ نے خود ہی حمد وثناء کا طریقہ انسان کو تعلیم فرمادیا،- لفظ رب اللہ تعالیٰ کا خاص نام ہے غیر اللہ کو رب کہنا جائز نہیں :- (٤) لفظ رب کو ایسے شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی چیز کا مالک ہو اور اس کی تربیت و اصلاح کی تدبیر اور پوری نگرانی بھی کرتا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ ساری کائنات و مخلوقات کا ایسا رب سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہوسکتا اس لئے یہ لفظ اپنے اطلاق کے وقت حق تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے غیر اللہ کو رب کو کہنا جائز نہیں، صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ کوئی غلام یا نوکر اپنے آقا کو رب کہے البتہ کسی خاص چیز کی طرف اضافت کرکے انسان وغیرہ کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاسکتا ہے مثلاً رب المال رب الدار وغیرہ (قرطبی) - استعانت کے معنی کی تشریح اور مسئلہ توسُّل کی تحقیق :- (٥) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے معنی مفسّر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے یہ بیان فرمائی ہیں کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں تیرے سوا کسی سے نہیں مانگتے (ابن جریر ابن ابی حاتم) - بعض سلف صالحین نے فرمایا کہ سورة فاتحہ پورے قرآن کا راز (خلاصہ) ہے اور آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پوری سورة فاتحہ کا راز (خلاصہ) ہے کیونکہ اس کے پہلے جملے میں شرک سے بری ہونے کا اعلان ہے، اور دوسرے جملے میں اپنی قوت وقدرت سے بری ہونے کا اظہار ہے کہ بندہ عاجز بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے کچھ نہیں کرسکتا جس کا نتیجہ اپنے سب کاموں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا ہے جس کی ہدایت قرآن کریم میں جابجا آئی ہے - فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْه ِ (ھود : ١٢٣) قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ( سورة ملک : ٢٩) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا (مزمل : ٩) - ان تمام آیات کا حاصل یہی ہے کہ مومن اپنے ہر عمل میں اعتماد اور بھروسہ نہ اپنی قابلیت پر کرے نہ کسی دوسرے کی مدد پر بلکہ کلّی اعتماد صرف اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہئے، وہی کارساز مطلق ہے،- اس سے دو مسئلے اصول عقائد کے ثابت ہوئے اول یہ کہ :- اللہ کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا حرام اور ناقابل معافی جرُم ہے :- عبادت کے معنی اوپر معلوم ہوچکے ہیں کہ کسی ذات کی انتہائی عظمت و محبت کی بناء پر اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور تذلّل کا اظہار ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے تو یہ شرک کہلاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شرک صرف اسی کو نہیں کہتے کہ بت پرستوں کی طرح کسی پتھر کی مورتی وغیرہ کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھے بلکہ کسی کی عظمت، محبت، اطاعت کو وہ درجہ دینا جو اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے یہ بھی شرک جلی میں داخل ہے قرآن مجید میں یہود ونصارٰی کے شرک کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :- اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ (٣١: ٩) یعنی ان لوگوں نے اپنے دینی عالموں کو اپنا رب بنالیا ہے،- حضرت عدی بن حاتم جو مسلمان ہونے سے پہلے نصرانی تھے انہوں نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہارے علماء بہت سی ایسی چیزوں کو حرام قرار دیدیتے ہیں جن کو اللہ نے حلال کیا ہے، اور تم اپنے علماء کے کہنے پر ان کو حرام ہے سمجھتے ہو، اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تمہارے علماء ان کو حلال کردیتے ہیں تو تم ان کے کہنے کا اتباع کرکے حلال کرلیتے ہو عدی بن حاتم نے عرض کیا کہ بیشک ایسا تو ہے اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہی تو ان کی عبادت ہے،- اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کے حلال یا حرام قرار دینے کا حق صرف حق تعالیٰ کا ہے جو شخص اس میں کسی دوسرے کو شریک قرار دے اور اللہ تعالیٰ کے احکام حرام و حلال معلوم ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی دوسرے کے قول کو واجب الاتباع سمجھے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے اور شرک میں مبتلا ہے،- عام مسلمان جو قرآن وسنت کو براہ راست سمجھنے کی اور ان سے احکام شرعیہ نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے کسی امام مجتہد، یا عالم ومفتی کے قول پر اعتماد کرکے عمل کرتے ہیں اس کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ درحقیقت قرآن وسنت ہی پر عمل ہے اور احکام خداوندی ہی کی اطاعت ہے اور خود قرآن کریم نے اس کی ہدایت فرمائی ہے،۔- فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (٣٤: ١٦) یعنی اگر تم خود احکام آلہیہ کو نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو،- اور جس طرح احکام حلال و حرام میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو شریک کرنا شرک ہے اسی طرح کسی کے نام کی نذر (منت) ماننا بھی شرک میں داخل ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو حاجت روا مشکل کشا سمجھ کر اس سے دعاء مانگنا بھی شرک ہے کیونکہ حدیث میں دعاء کو عبادت فرمایا گیا ہے، اسی طرح ایسے اعمال و افعال جو علامات شرک سمجھے جاتے ہیں ان کا ارتکاب بھی بحکم شرک ہے جیسے حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا کہ (مسلمان ہونے کے بعد) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے گلے میں صلیب پڑی ہوئی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اس بت کو اپنے گلے سے نکالدو، - اگرچہ اس وقت عدی بن حاتم کا عقیدہ صلیب کے متعلق وہ نہ تھا جو نصرانیوں کا ہوتا ہے مگر ظاہری طور پر بھی علامت شرک سے اجتناب کو ضروری سمجھ کر یہ ہدایت کی گئی، افسوس کے آجکل ہزاروں مسلمان ریڈ کر اس کا صلیبی نشان لگائے ہوئے پھرتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتے کہ بلاوجہ ایک مشرکانہ جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں اسی طرح کسی کو رکوع، سجدہ کرنا، یا بیت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کرنا یہ سب علامات شرک ہیں جن سے اجتناب اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے اقرار یا حلف وفاداری کا جز ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ استعانت اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنا ہے کسی دوسرے سے جائز نہیں۔- مسئلہ استعانت وتوسل کی تحقیق اور احکام کی تفصیل :- یہ دوسرا مسئلہ کسی سے مدد مانگنے کا ذرا تشریح طلب ہے کیونکہ ایک مدد تو مادّی اسباب کے ماتحت ہر انسان دوسرے انسان سے لیتا ہے اس کے بغیر اس دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا صنعت کار اپنی صنعت کے ذریعہ ساری مخلوق کی خدمت کرتا ہے، مزدور، معمار، بڑھئی، لوہار سب مخلوق کی مدد میں لگے ہوئے ہیں اور ہر شخص ان سے مدد مانگنے پر مجبور ہے ظاہر ہے کہ یہ کسی دین اور شریعت میں ممنوع نہیں وہ اس استعانت میں داخل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اسی طرح غیر مادّی اسباب کے ذریعہ کسی نبی یا ولی سے دعاء کرنے کی مدد مانگنا یا ان کا وسیلہ دے کر براہ راست اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا روایات حدیث اور اشارات قرآن سے اس کا بھی جواز ثابت ہے وہ بھی اس استعانت میں داخل نہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص اور غیر اللہ کے لئے حرام و شرک ہے،- اب وہ مخصوص استعانت و امداد جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور غیر اللہ کے لئے شرک ہے کونسی ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی اور انسان کو خدا تعالیٰ کی طرح قادر مطلق اور مختار مطلق سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے یہ تو ایسا کھلا ہوا کفر ہے کہ عام مشرکین بت پرست بھی اس کو کفر سمجھتے ہیں اپنے بتوں، دیوتاؤں کو بالکل خدا تعالیٰ کی مثل قادر مطلق اور مختار مطلق یہ کفار بھی نہیں مانتے،- دوسری قسم وہ ہے جس کو کفار اختیار کرتے ہیں اور قرآن کریم اور اسلام اس کو باطل و شرک قرار دیتا ہے، وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں یہی مراد ہے کہ ایسی استعانت و امداد ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق فرشتے یا پیغمبر یا ولی یا کسی دیوتا کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اگرچہ قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کامل اختیارات اسی کے ہیں لیکن اس نے اپنی قدرت واختیار کا کچھ حصہ فلاں شخص کو سونپ دیا ہے اور اس دائرے میں وہ خود مختار ہے یہی وہ استعانت واستمداد ہے جو مومن و کافر میں فرق اور اسلام و کفر میں امتیاز کرتی ہے قرآن اس کو شرک و حرام قرار دیتا ہے، بت پرست مشرکین اس کے قائل اور اس پر عامل ہیں، - اس معاملے میں دھوکہ یہاں سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے فرشتوں کے ہاتھوں دنیوی نظام کے بہت سے کام جاری کرتے ہیں دیکھنے والا اس مغالطے میں پڑ سکتا ہے کہ اس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سپرد کردیا ہے یا انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے بہت سے ایسے کام وجود میں آتے ہیں جو عام انسانوں کی قدرت سے خارج ہیں جن کو معجزات کہا جاتا ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے ذریعے بھی ایسے ہی بہت سے کام وجود میں آتے ہیں جن کو کرامات کہا جاتا ہے یہاں سرسری نظر والوں کو یہ مغالطہ لگ جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کاموں کی قدرت واختیار ان کو سپرد نہ کرتا تو ان کے ہاتھ سے یہ کیسے وجود میں آتے ؟ اس سے وہ ان انبیاء و اولیاء کے ایک درجے میں مختار کار ہونے کا عقیدہ بنا لیتے ہیں حالانکہ حقیقت یوں نہیں بلکہ معجزات اور کرامات براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے صرف اس کا ظہور پیغمبر یا ولی کے ہاتھوں پر ان کی عظمت ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے، پیغمبر اور ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا قرآن مجید کی بیشمار آیات اس پر شاہد ہیں مثلاً آیت وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (١٧: ٨) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ نے دشمن کی طرف ایک مٹھی کنکریوں کی پھینکی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جالگیں، اس کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی جس سے معلوم ہوا کہ معجزہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے صادر ہوتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے،- اسی طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب ان کی قوم نے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب سے ڈرا رہے ہیں وہ بلا لیجئے تو انہوں نے فرمایا ؛ اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَاۗءَ (ہود : ٣٣) یعنی معجزہ کے طور پر آسمانی عذاب نازل کرنا میرے قبضے میں نہیں اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو یہ عذاب آجائے گا پھر تم اس سے بھاگ نہ سکوگے،- سورة ابراہیم میں انبیاء ورسل کی ایک جماعت کا یہ قول ذکر فرمایا ہے وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰھِ (١٤: ١١) یعنی کسی معجزہ کا صادر کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں اللہ تعالیٰ کے اذن ومشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، اسی وجہ سے کوئی پیغمبر یا کوئی ولی جب چاہے جو چاہے معجزہ یا کرامت دکھا دے یہ قطعاً کسی کے بس میں نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء سے بہت سے معین معجزات کا مطالبہ مشرکین نے کیا مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے چاہا ظاہر کردیا جس کو نہ چاہا نہیں ہوا پورا قرآن اس کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے، - ایک محسوس مثال سے اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ جس کمرے میں بیٹھے ہیں اس میں بجلی کی روشنی بلب سے اور ہوا برقی پنکھے سے آپ پہنچ رہی ہے، مگر یہ بلب اور پنکھا اس روشنی اور ہوا پہنچانے میں قطعاً خود مختار نہیں بلکہ ہر آن اس جوڑ (کنکش) کے محتاج ہیں جو تار کے ذریعے پاور ہاؤس کے ساتھ ان کو حاصل ہے ایک سیکنڈ کے لئے یہ جوڑ ٹوٹ جائے تو نہ بلب آپ کو روشنی دے سکتا ہے نہ پنکھا ہوا دے سکتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ عمل بلب اور پنکھے کا ہے ہی نہیں بلکہ بجلی کی رو کا ہے جو پاور ہاوس سے یہاں پہنچ رہی ہے انبیاء و اولیاء اور سب فرشتے ہر عمل میں ہر کام میں ہر آن حق تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی کی قدرت ومشیت سے سب کام وجود میں آتے ہیں اگرچہ ظہور اس کا بلب اور پنکھے کی طرح انبیاء و اولیاء کے ہاتھوں پر ہوتا ہے ،- اس مثال سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان چیزوں کے صدور اور وجود میں اگرچہ اختیار انبیاء و اولیاء کا نہیں مگر ان کا وجود باوجود ان سے بالکل بےدخل بھی نہیں جیسے بلب اور پنکھے کے بغیر آپ کو روشنی اور ہوا نہیں پہنچ سکتی یہ معجزات و کرامات بھی انبیاء و اولیاء کے بغیر نہیں ملتے اگرچہ یہ فرق ضرور ہے کہ پوری فٹنگ اور کنکشن درست ہونے کے باوجود آپ کو بغیر بلب کے روشنی اور بغیر واسطہ کسی پیغمبر و ولی کے بھی اس کا ظہور فرمادیں مگر عادۃ اللہ یہی ہے کہ ان کا صدور بغیر واسطہ اولیاء وانبیاء کے نہیں ہوتا کیونکہ ایسے خوارق عادات کے اظہار سے جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا،- اس لئے معلوم ہوا کہ عقیدہ تو یہ رکھنا ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت ومشیت سے ہو رہا ہے اس کے ساتھ انبیاء و اولیاء کی عظمت و ضرورت کا بھی اعتراف ضروری ہے اس کے بغیر رضائے الہی اور طاعت احکام خداوندی سے محروم رہے گا، جس طرح کوئی شخص بلب اور پنکھے کی قدر نہ پہچانے اور ان کو ضائع کردے تو روشنی اور ہوا سے محروم رہتا ہے،- وسیلہ استعانت اور استمداد کے مسئلے میں بکثرت لوگوں کو اشکال رہتا ہے امید ہے کہ اس تشریح سے اصل حقیقت واضح ہوجائے گی اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء و اولیاء کو وسیلہ بنانا نہ مطلقاً جائز ہے اور نہ مطلقاً ناجائز، بلکہ اس میں وہ تفصیل ہے جو اوپرٍ ذکر کی گئی ہے کہ کسی کو مختار مطلق سمجھ کر وسیلہ بنایا جائے تو شرک و حرام ہے اور محض واسطہ اور ذریعہ سمجھ کر کیا جائے تو جائز ہے اس میں عام طور پر لوگوں میں افراط وتفریط کا عمل نظر آتا ہے،- واللہ اسأل الصواب والسداد وبیدہ المبدأ ولامعاد - صراط مستقیم کی ہدایت دنیا و دین میں کلید کامیابی ہے :- (٦) اصل تفسیر میں یہ بات وضاحت سے آگئی ہے کہ قرآن کریم نے جس دعاء کو ہر شخص کے لئے ہر کام کے لئے ہر حال میں انتخاب فرمایا ہے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کی دعاء ہے جس طرح آخرت کی کامیابی اس صراط مستقیم پر موقوف ہے جو انسان کو جنت کی طرف لیجائے اسی دنیا کے سارے کاموں میں بھی غور کرو تو کامیابی کا مدار صراط مستقیم ہی ہے جس کام میں وہ آلات و ذرائع اختیار کئے گئے جس کے نتیجے میں مقصد کا حصول عادۃ لازمی ہے جو کامیابی عادۃ لازمی ہوتی ہے جہاں کہیں انسان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو اگر وہ غور کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ کام کے کسی مرحلے میں اس میں اس نے یہ غلطی کی ہے صحیح راستہ ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اس لئے ناکامی ہوئی، - اس کا حاصل یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت صرف آخرت اور دین کے کاموں کے ساتھ مخصوص نہیں دنیا کے سب کی درستی اور کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے اس لئے یہ دعاء ایسی ہے کہ مومن کو ہر وقت حرز جان بنانے کے قابل ہے شرط یہ ہے کہ استحضار اور نیت کے ساتھ کی جائے محض الفاظ کا پڑھ لینا نہ ہو واللہ الموفق والمعین۔- بعونہ تعالیٰ تفسیر سورة ٔ فاتحہ ختم ہوئی، - وللہ الحمد اولہ وآخرہ وظاہرہ و باطنہ ،
صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہرو کو گویا نگل لیتا ہے یا راہرو اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار راہرو توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا راہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سدفھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ٧ ۧ- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - غضب - الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] ، قيل :- هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ :- الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» .- ( غ ض ب ) الغضب - انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» «1» وقال بعض الحکماء : کو ننا مصیبین من وجه وکوننا ضَالِّينَ من وجوه كثيرة، فإنّ الاستقامة والصّواب يجري مجری المقرطس من المرمی، وما عداه من الجوانب کلّها ضَلَالٌ.- ولما قلنا روي عن بعض الصالحین أنه رأى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في منامه فقال : يا رسول اللہ يروی لنا أنّك قلت : «شيّبتني سورة هود وأخواتها فما الذي شيّبک منها ؟ فقال : قوله : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» والضَّلَالُ من وجه آخر ضربان : ضَلَالٌ في العلوم النّظريّة، کا لضَّلَالِ في معرفة اللہ و وحدانيّته، ومعرفة النّبوّة، ونحوهما المشار إليهما بقوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136] . وضَلَالٌ في العلوم العمليّة، کمعرفة الأحكام الشّرعيّة التي هي العبادات، والضَّلَالُ البعیدُ إشارةٌ إلى ما هو کفر کقوله علی ما تقدّم من قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ [ النساء 136] ، وقوله : إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] ، وکقوله : فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] ، أي : في عقوبة الضَّلَالِ البعیدِ ، وعلی ذلک قوله : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] ، قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] ، وقوله : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] ، كناية عن الموت واستحالة البدن . وقوله : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] ، فقد قيل : عني بِالضَّالِّينَ النّصاری «1» . وقوله : فِي كِتابٍ لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] ، أي : لا يَضِلُّ عن ربّي، ولا يَضِلُّ ربّي عنه : أي : لا يغفله، وقوله : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] ، أي : في باطل وإِضْلَالٍ لأنفسهم .- ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ حکماء نے کہا ہے کہ صحت دراستی کی راہ تو صرف ایک ہی ہے مگر گمراہی کے متعدد راستے ہیں کیونکہ استقامت اور صواب کی مثال تیر کے ٹھیک نشانہ پر بیٹھ جانے کی ہے اور صحیح نشانہ کے علاوہ ہر جہت کا نام ضلالت ہے ۔ ہمارے اس قول کی تائید بعض صالحین کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور عرض کی یارسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں (12) شیبتنی سورة ھود واخواتھا کہ سورة ہود اور اس کی ہم مثل دوسری سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ۔ تو آنحضرت نے فرمایا سورة ھود کی جس آیت نے مجھے بوڑھا کردیا : فَاسْتَقِمْ كَما أُمِرْتَ» «2»ہے یعنی اے پیغمبر ٹھیک اسی طرح سیدھے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے اعتبار سے ضلالۃ کی دو قسمیں ہیں (1) علوم نظریہ تو حید و نبوات وغیرہما کی معرفت میں غلطی کرنا چناچہ آیت کریمہ : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 136 اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جاپڑا ۔ میں اس قسم کی گمراہی کو ضلالا بعیدا کہا گیا ہے ۔ (2) علوم عملیہ میں ضلالۃ ہے جس کے معنی ہیں احکام شرعیہ یعنی عبادات ( اور معاملات ) کی معرفت میں غلطی کرنا اور آیت مذکورہ میں ضلالا بعید اسے اس کے کفر ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت کے ابتداء ومن یکفر اور آیت :إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] جن لوگوں نے کفر کیا اور دوسروں کو خدا کے رستے سے روکا وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑے سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور آیت فِي الْعَذابِ وَالضَّلالِ الْبَعِيدِ [ سبأ 8] میں بھی معنی مراد ہیں اور فی کے معنی یہ ہیں کہ اس گمراہی کی سزا میں گرفتارہوں گے اور یہی معنی آیت : إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلالٍ كَبِيرٍ [ الملک 9] میں مراد ہیں ۔ نیز فرمایا : قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيراً وَضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبِيلِ [ المائدة 77] جو ( خود بھی ) پہلے گمراہ ہوئے اور بھی اکثروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک کئے ۔ اور آیت کریمہ : أَإِذا ضَلَلْنا فِي الْأَرْضِ [ السجدة 10] کے معنی یہ ہیں ک جب مرنے کے بعد مٹی میں مل کر ضائع ہوجائیں گے اور آیت : وَلَا الضَّالِّينَ [ الفاتحة 7] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ اس سے نصارٰی مراد ہیں ۔ اور آیت لا يَضِلُّ رَبِّي وَلا يَنْسى[ طه 52] کے معنی ہیں : ہیں یعنی میرے پروردگار کو کوئی چیز غافل نہیں کرتی اور آیت : أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ [ الفیل 2] کیا ان کی تدبیر کو ضائع نہیں کیا ( گیا) میں فی تضلیل کے معنی ضائع کردینا اور غلط راہ لگا دینا کے ہیں ۔
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :9 یہ اس سیدھے راستہ کی تعریف ہے جس کا علم ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں ۔ یعنی وہ راستہ جس پر ہمیشہ سے تیرے منظورِ نظر لوگ چلتے رہے ہیں ۔ وہ بے خطا راستہ کہ قدیم ترین زمانہ سے آج تک جو شخص اور جو گروہ بھی اس پر چلا وہ تیرے انعامات کا مستحق ہوا اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہوکر رہا ۔