حصول مقصد کا بہترین طریقہ جمہور نے صراط پڑھا ہے ۔ بعض نے سراط کہا ہے اور زے کی بھی ایک قراۃ ہے ۔ فرا کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے ۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لئے ہے اور آدھا میرے بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی ، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی ۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لئے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی ۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا آیت ( رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر ) پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں ۔ حضرت یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا آیت ( اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:87 ) الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا ، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے ۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں ۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی حدیث ( الھمنا وفقنا ارزقنا اور اعطنا ) یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے آیت ( وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ ) 90 ۔ البلد:10 ) یعنی ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی اور برائی دونوں کے ۔ اور کبھی ہدایت الی کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے فرمایا آیت ( اِجْتَبٰىهُ وَهَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْم ) 16 ۔ النحل:121 ) اور فرمایا آیت ( فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ ) 37 ۔ الصافات:23 ) یہاں ہدایت ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے ۔ اسی طرح فرمان ہے آیت ( وانک لتھدی ) الخ یعنی تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے اور کبھی ہدایت لام کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے آیت ( الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا ۣ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ) 7 ۔ الاعراف:43 ) یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا ۔ صراط مستقیم کے معنی سنئے ۔ امام ابو جعفر ابن جریر فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو ۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بیشمار شواہد موجود ہیں ۔ صراط کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھا پن کے ساتھ بھی آتا ہے ۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور تابعداری ہے ۔ صراط مستقیم کیا ہے؟ ٭٭ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے ۔ مسند احمد ترمذی حضرت علی کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے واللہ اعلم ۔ حضرت عبداللہ سے بھی یہی روایت ہے ابن عباس کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آیت ( اھدنا الصراط مستقیم ) کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود اور بہت سے صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے ۔ ابن حنفیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں ، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ، صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا ۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے ۔ پس صراط مستقیم تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے ۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم ابن جریر ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں واللہ اعلم ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے ۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں ۔ ابو العالیہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے ۔ لہذا صراط مستقیم کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ فالحمد للہ ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں ۔ صراط مستقیم وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو ، صراط مستقیم یہی ہے ۔ اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی ، صدیق ، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی ، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا ، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے ۔ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی صراط مستقیم ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لئے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لئے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے ۔ بھلا اور نیک بخث انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے ۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا وہ ضامن ہے ۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے ۔ آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ) 4 ۔ النسآء:136 ) اے ایمان والو اللہ پر ، اس کے رسولوں پر اس کی اس کتاب پر ، جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں ، سب پر ایمان لاؤ ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا ۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں ۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اور دیکھئے اللہ رب العزت نے اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں آیت ( رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ) 3 ۔ آل عمران:8 ) یعنی اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے ۔ یہ بھی وارد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس آیت ( اھدنا الصراط المستقیم ) کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا ۔
ف 1 ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزل مقصود) حاصل ہوجائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ، الاسلام، ہے، جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
[١٣] سیدھی راہ کون سی ہے ؟:۔ صراط مستقیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ وہ سیدھی راہ ہے جو بندے کو اللہ تک پہنچانے والی ہے۔ اور اس میں کوئی پیچ و خم یا افراط وتفریط نہیں اور یہ ایک ہی ہوسکتی ہے جبکہ باطل راہیں لاتعداد ہوتی ہیں۔ اسی راہ کو اللہ تعالیٰ نے حبل اللہ بھی فرمایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ سے تعبیر فرمایا ہے اور صراط مستقیم کی دوسری تعبیر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حق کا وہ راستہ جو سیدنا آدم سے لے کر تاقیامت ایک ہی رہا اور رہے گا اور وہی راستہ توحید ہر نبی کو وحی کیا گیا ہے۔- قرآن کریم ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں لوگوں کو اللہ سے دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور پہلی دعا ( اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۙ ) 1 ۔ الفاتحة :6) سورة فاتحہ میں ہی آگئی ہے پھر بعض آیات میں دعا کے قبول ہونے کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ، جس پر عقل پرستی اور اعتزال کا رنگ غالب ہے اور ہر معجزہ یا خرق عادت بات کی تاویل کرنے کا عادی ہے۔۔ دعا کی قبولیت کا منکر ہے کیونکہ دعا کی قبولیت کا تعلق بھی غیر مرئی اسباب سے ہے۔ لہذا یہ حضرات اس قسم کی آیات میں عجیب و غریب قسم کی تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔- برصغیر پاک و ہند میں اس طبقہ کے سرخیل سرسید احمد خان (١٨١٧ ء تا ١٨٩٨ ء) تھے۔ آپ نے مغرب میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مغربی افکار و نظریات سے شدید متاثر تھے اور مغرب صرف اس بات کو ماننے پر آمادہ ہوسکتا تھا جو عقل و تجربہ کی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہو۔ آپ نے مسلمانوں میں مغربی افکار اور عقل پرستی کو رائج اور راسخ کرنے کے لیے کئی قسم کے اقدامات فرمائے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے تفسیر القرآن لکھ ڈالی۔ اس تفسیر میں آپ دعا کے متعلق لکھتے ہیں کہ :- دعا کے متعلق سرسید احمد خان کا نظریہ :۔ دعا جب دل سے کی جاتی ہے بیشتر مستجاب ہوتی ہے مگر لوگ دعا کے مقصد اور استجابت کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے ہم دعا کرتے ہیں وہ مطلب حاصل ہوجائے گا اور استجابت کے معنی اس مطلب کا حاصل ہوجانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلطی ہے حصول مطلب کے جو اسباب اللہ نے مقرر کئے ہیں وہ مطلب تو انہی اسباب کے جمع ہونے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر دعا نہ تو اس مطلب کے اسباب میں سے ہے اور نہ اس مطلب کے اسباب کو جمع کرنے والی ہے۔ بلکہ وہ اس قوت کو تحریک کرنے والی ہے جس سے اس رنج و مصیبت اور اضطراب کو جو مطلب حاصل نہ ہونے سے ہوتا ہے تسکین دینے والی ہے (تفسیر القرآن، ج ١ ص ١٨) - خان صاحب کے مندرجہ بالا اقتباس سے دو سوال ذہن میں ابھرتے ہیں :- (١) اگر ظاہر میں کوئی سبب نظر نہ آرہا ہو تو آیا اللہ تعالیٰ کوئی سبب پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے یا نہیں ؟- (٢) کیا ظاہری اسباب کے علاوہ کچھ باطنی اور غیر مرئی اسباب بھی ممکن ہیں اور دعا کی بنا پر اللہ تعالیٰ بندہ کے حصول مطلب کے لئے کوئی ظاہری یا باطنی سبب بناسکتا ہے یا نہیں ؟- اگر تو ان سوالات کا جواب نفی میں ہو تو فی الواقع سرسید صاحب کے نظریات کے مطابق دعا کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونا چاہئے۔ اس صورت میں دعا کی استجابت کا مطلب صرف وہی رہ جاتا ہے۔ جو سرسید صاحب فرما رہے ہیں کہ دعا صرف قلبی واردات اور سکون سے تعلق رکھتی ہے۔ ظاہر میں ہوتا ہوا کچھ بھی نہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن سرسید صاحب کے اس نظریہ کی پرزور تردید کرتا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے :- ( فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ‘ فَفَتَحْنَآ اَبْوَاب السَّمَاۗءِ بِمَاۗءٍ مُّنْهَمِرٍ 10 ) 54 ۔ القمر :10) - تو نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں کمزور ہوں۔ اب تو ان سے بدلہ لے۔ پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کردیئے۔ تو پانی اس کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا - اب دیکھئے کہ کیا دعا کے بعد آسمان سے بےتحاشا پانی برسنا اور زمین کے چشمے مل کر طوفان کی شکل بننا اور کشتی میں نوح کو سوار کرکے کرب عظیم سے بچا لینا، کیا یہ سب قلبی واردات ہیں یا یہ کام فی الواقع ظہور پذیر ہوئے تھے ؟- پھر ایک مقام پر خان صاحب فرماتے ہیں کہ بسا اوقات دعا کی جاتی ہے مگر حاجت براری نہیں ہوتی پس معلوم ہوا کہ دعا موجب حصول مقصد نہیں ہے ورنہ ایسا نہ ہوتا (تہذیب الاخلاق، ماہ ربیع الاول، ١٣١٣ ھ) - اس اقتباس میں لفظ بسا اوقات سے ظاہر ہے کہ دعا کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن جاتی ہے۔ بس یہی ہمارا مقصد ہے، رہا یہ معاملہ کہ بسا اوقات قبول نہیں ہوتی تو دعا کی قبولیت کے کئی موانع ہیں جن کی تفصیل یہاں خارج از بحث ہے۔ نیز ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دعا کی طرح دوا بھی بسا اوقات مرض کا علاج نہیں بن سکتی۔ حالانکہ وہ ایک ظاہری سبب ہے تاہم کبھی کبھار حصول مقصد کا سبب بن بھی جاتی ہے۔- دوا کا استعمال جسمانی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور جب تک تکلیف رفع نہ ہو مریض کو کبھی تسکین نہیں ہوسکتی اور دعا کا دائرہ اثر دوا سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ دعا دفع مضرت اور جلب منفعت دونوں کے لیے کی جاتی ہے۔ نیز اس کا استعمال مادی اور روحانی یا ذہنی دونوں طرح کے عوارضات کے لیے ہوتا ہے پھر جب تک دعا کے اثر سے ایسے عوارضات دور نہ ہوں یا نئے اسباب مہیا نہ ہوں دل کو تسکین ہو کیسے سکتی ہے ؟
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ہدایت کا ایک معنی نرمی اور مہربانی کے ساتھ راستہ بتانا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) [ الشوریٰ : ٥٢ ] ” اور بیشک تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ “ یہ ہدایت اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور دوسرے لوگ سبھی کرسکتے ہیں۔ ہدایت کا دوسرا معنی راستے پر چلنے کی توفیق دینا ہے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب کرکے فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ القصص : ٥٦ ] ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ ” الصِّرَاطَ “ اس کا اصل ” سِرَاطٌ“ ہے، جو ” سَرَطَ یَسْرُطُ سَرَطًا، سَرَطَانًا (ن، ع ) “ سے مشتق ہے، سین کو صاد سے بدل دیا گیا، اس کا معنی نگلنا ہے۔ ” سِرَاطٌ“ کا معنی واضح راستہ ہے، کیونکہ اس پر چلنے والا اس طرح غائب ہوجاتا ہے جیسے نگلا ہوا کھانا غائب ہوجاتا ہے۔ (القاموس) ” الْمُسْتَـقِيْمَ “ ” قَامَ یَقُوْمُ “ میں سے باب استفعال سے اسم فاعل ہے، جو اصل میں ” مُسْتَقْوِمٌ“ ہے، معنی اس کا وہی ہے جو ” قَامَ یَقُوْمُ “ کا ہے۔ حروف کی زیادتی سے معنی میں تاکید پیدا ہوگئی، بالکل سیدھا راستہ۔ - پچھلی آیت میں ” اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا مدد چاہتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب یہ سکھایا کہ کہو پروردگار ہمیں زندگی کے ہر لمحے میں اور اپنے ہر کام میں تیری ہدایت کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر تو نہ بتائے تو ہم ظلوم و جہول کسی چیز کے متعلق جان ہی نہیں سکتے کہ اس میں صحیح راستہ کیا ہے۔ اگر جان بھی لیں تو اپنے نفس کی کمزوریوں، شہوت، غضب، حسد، طمع، بخل اور کبر وغیرہ کی وجہ سے اور شیطان اور دوسرے دشمنوں کی وجہ سے اس صحیح راستے پر چلنا اور قائم رہنا تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ہماری درخواست ہے کہ ہر کام اور ہر لمحے میں ہمیں سیدھے راستے کو جاننے کی اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔- بعض لوگ یہاں ایک سوال ذکر کرتے ہیں کہ جب ہم پہلے ہی ہدایت پر ہیں تو پھر ہدایت کی درخواست کا کیا مطلب ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہدایت پر قائم رکھ۔ یہ مطلب بھی درست ہے، مگر آپ خود سوچ لیں کہ انسان کو ہر لمحے کسی نہ کسی کام کے متعلق فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ مجھے اس میں کیا کرنا ہے، تھوڑی سی لغزش اسے بہت دور پہنچا سکتی ہے، اس لیے یہ کہنا کہ ہم ہر وقت اور ہر کام میں ہدایت پر ہیں، بہت بڑی دلیری کی بات ہے۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر ہم کسی بھی قدم پر گمراہی کا شکار ہوسکتے ہیں، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے رہنا لازم ہے۔- الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ : سے مراد دین اسلام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تک اور جنت تک پہنچانے والا یہی واضح، صاف اور سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی صراحت فرمائی : (قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ۙلَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْن)[ الأنعام : ١٦١ تا ١٦٣ ] ” کہہ دے بیشک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کردی ہے جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمین (حکم ماننے والوں) میں سب سے پہلا ہوں۔ “ نواس بن سمعان (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی مثال بیان فرمائی۔ اس راستے کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہیں اور اس راستے کے دروازے پر ایک بلانے والا ہے جو کہتا ہے : ” اے لوگو تم سب اس راستے میں داخل ہوجاؤ اور ٹیڑھے مت ہونا۔ “ اور ایک بلانے والا اس راستے کے اوپر کنارے سے آواز دے رہا ہے۔ جب کوئی انسان ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے : ” افسوس تجھ پر اسے مت کھول، کیونکہ اگر تو اسے کھولے گا تو اس میں داخل ہوجائے گا۔ “ سو ” الصِّرَاطَ “ (وہ راستہ) اسلام ہے اور دونوں دیواریں اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اور کھلے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور راستے کے شروع میں بلانے والی چیز اللہ کی کتاب ہے اور راستے کے اوپر کنارے والا اللہ تعالیٰ کا نصیحت کرنے والا ہے جو ہر مسلم کے دل میں ہے۔ “ [ مسند أحمد : ٤؍١٨٢، ١٨٣، ح : ١٧٦٥٢۔ ترمذی : ٢٨٥٩، قال ابن کثیر حسن صحیح و صححہ الألبانی والسیوطی ] معلوم ہوا صراط مستقیم اسلام ہے جو ہمارے پاس کتاب و سنت کی صورت میں موجود ہے، اس لیے جب کوئی کتاب و سنت سے ہٹ کر کسی شخصیت یا گروہ کے پیچھے لگتا ہے تو وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے، پھر اس کے لیے منزل مقصود جنت تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں، جب تک ان تمام ٹیڑھی راہوں سے ہٹ کر کتاب و سنت کی واضح، کشادہ، روشن اور سیدھی راہ پر نہیں آتا۔ - الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ : میں پورا اسلام اور اس کے احکام آگئے، باقی قرآن و سنت اس کی تفصیل ہے۔
آخری تین آیتیں جن میں انسان کی دعا و درخواست کا مضمون ہے اور ایک خاص دعا کی تلقین ہے یہ ہیں (آیت) ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ٩ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا، راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور نہ ان لوگوں کا جو راستہ سے گم ہوگئے،- ان تینوں آیات میں چند باتیں قابل غور ہیں :- تکمیل الدرایہ فی تفصیل درجات الہدایہ : یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت کے لئے دعا جو اس آیت میں تعلیم فرمائی گئی ہے اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عامہ مؤمنین ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) بھی اس کے مامور ہیں جو بلاشبہ ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں، پھر اس حاصل شدہ چیز کی باربار دعا مانگنے کا کیا مطلب ہے ؟- اس کا جواب ہدایت کی پوری حقیقت معلوم کرنے پر موقوف ہے اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے جس سے سوال مذکور کے علاوہ ان تمام اشکالات کا بھی جواب معلوم ہوجائیگا جو مفہوم ہدایت کے متعلق قرآن کریم کے بہت سے مقامات میں عموماً پیش آتے ہیں اور ہدایت کی حقیقت سے ناآشنا قرآن کی بہت سی آیات میں باہمی تضاد واختلاف محسوس کرنے لگتا ہے،- لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزل مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے جس کے مختلف درجات ہیں :- ایک درجہ ہدایت کا عام ہے جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات، نباتات، حیوانات وغیرہ کو شامل ہے یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بےجان بےشعور چیزوں کو ہدایت سے کیا کام ؟- کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ اپنے اپنے درجے کے موافق حیات و احساس بھی رکھتا ہے اور عقل و شعور بھی، یہ دوسری بات ہے کہ یہ جوہر کسی نوع میں کم کسی میں زیادہ ہے اسی وجہ سے جن اشیاء میں یہ جوہر بہت کم ہے ان کو بےجان، بےشعور سمجھا اور کیا جاتا ہے احکام الٰہیہ میں بھی ان کے ضعف شعور کے آثار کا اتنا اثر آیا کہ ان کو احکام کا مکلّف نہیں بنایا گیا، جن مخلوقات میں حیات کے آثار تو نمایاں ہیں مگر عقل و شعور نمایاں نہیں ان کو ذی حیات جاندار مگر بےعقل و شعور کہا جاتا ہے اور جن میں حیات کے ساتھ عقل و شعور کے آثار بھی نمایاں نظر آتے ہیں ان کو ذوی العقول کہا جاتا ہے اور اسی اختلاف درجات اور عقل و شعور کی کمی بیشی کی وجہ سے تمام کائنات میں احکام شرعیہ کا مکّلف صرف انسان اور جنات کو قرار دیا گیا ہے کہ ان میں عقل و شعور بھی مکمل ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسری انواع و اقسام میں حیات و احساس یا عقل و شعور بالکل نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے،- وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ( سورة بنی اسرائیل : ٤٤) - یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی (قالاً یاحالاً ) بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو،- اور سورة نور میں ارشاد ہے :- اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (آیت نمبر ٤١) - یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں (مخلوقات) ہیں اور (بالخصوص) پرندے جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں سب کو اپنی اپنی دعا اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کے سب افعال کا پورا علم ہے،- ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی پاکی بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی معرفت پر موقوف ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے اور یہ علم بدون عقل شعور کے نہیں ہوسکتا اس لئے ان آیات سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح وحیات بھی ہے ادراک و احساس بھی عقل و شعور بھی مگر بعض کائنات میں یہ جو جوہر اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا اسی لئے عرف میں ان کو بےجان یا بےعقل کہا جاتا ہے اور اس بناء پر ان کو احکام شرعیہ کا مکلف بھی نہیں بنایا گیا قرآن کریم کا یہ فیصلہ اس وقت کا ہے جب دنیا میں نہ کہیں کوئی فلسفی تھا نہ کوئی فلسفہ مدون تھا بعد میں آنے والے فلاسفروں نے بھی اپنے اپنے وقت میں اس کی تصدیق کی قدیم فلاسفہ میں بھی اس خیال کے کچھ لوگ گذرے ہیں اور جدید فلاسفہ اور اہل سائنس نے تو پوری وضاحت کے ساتھ اس کو ثابت کیا ہے،- الغرض ہدایت خداوندی کا یہ درجہ اولیٰ تمام مخلوقات، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان اور جنات کو شامل ہے اسی ہدایت عامہ کا ذکر قرآن کریم کی آیت اعطٰی کل شیء خلقہ ثم ھدی (٥٠: ٢٠) میں فرمایا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا فرمائی پھر اس خلقت کے مناسب اس کو ہدایت دی اور یہی مضمون سورة اعلیٰ میں ان الفاظ سے ارشاد ہوا :- سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى،- یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح کیجئیے جس نے ساری مخلوقات کو بنایا پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا پھر راہ بتائی۔- یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت کردی، - اسی ہدایت عامہ کا نتیجہ ہے کہ کائنات عالم کے تمام انواع واصناف اپنا اپنا مقررہ فرض نہایت سلیقہ سے ادا کر رہے ہیں جو چیز جس کام کے لئے بنادی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ ادا کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے حضرت مولانا رومی نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے ،- خاک وباد و آب وآتش بندہ اند - بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - زبان سے نکلی ہوئی آواز کے معنی کا ادارک نہ ناک کرسکتی ہے نہ آنکھ، حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں اس ادراک کا فریضہ اللہ تعالیٰ نے کانوں کے سپرد کیا ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں اور ادراک کرتے ہیں، دانائے روم نے خوب فرمایا۔- مر زبان را مشتری جز گوش نیست - واقف این راز جز بےہوش نیست - اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جاسکتا ناک سے دیکھنے یا سننے کا کام نہیں لیا جاسکتا سورة مریم میں اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :- اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (٩٣: ١٩) - یعنی کوئی نہیں آسمان اور زمین میں جو نہ آوے رحمٰن کو بندہ ہو کر ،- دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے یعنی صرف ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے جو عرف میں ذوی العقول کہلاتی ہیں یعنی انسان اور جن، یہ ہدایت انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ ہر انسان کو پہنچتی ہے پھر کوئٰی اس کو قبول کرکے مومن مسلم ہوجاتا ہے کوئی رد کرکے کافر ٹھہرتا ہے،- تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی زیادہ خاص ہے کہ صرف مؤمنین ومتقین کے ساتھ مخصوص ہے یہ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلا واسطہ انسان پر فائض ہوتی ہے اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے یعنی ایسے اسباب اور حالات پیدا کردینا کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہوجائے اور ان کی خلاف ورزی دشوار ہوجائے اس تیسرے درجے کی وسعت غیر محدود اور اس کے درجات غیرمتناہی ہیں یہی درجہ انسان کی ترقی کا میدان ہے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجہ ہدایت میں زیادتی ہوتی رہتی ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے، مثلاً وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (١٧: ٤٧) وَمَنْ يُّؤ ْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ - جو شخص اللہ پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کردیتے ہیں، - وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا (٦٩: ٢٩) جو لوگ ہمارے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کردیتے ہیں، - یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑا نبی و رسول اور ولی اللہ آخر عمر تک زیادتی ہدایت و توفیق کا طالب نظر آتا ہے اسی مقام ہدایت کے متعلق مولانا رومی نے فرمایا،- اے برادر بےنہایت در گہے ست - ہرچہ بروے میرسی بروے مأیست - اور سعدی شیرازی نے فرمایا۔- نگویم کہ برآب قادر نیند - کہ برساحل نیل مستسقی اند - درجات ہدایت کی اس تشریح سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے جو سب کو حاصل بھی ہے اور اس کے مزید درجات عالیہ حاصل کرنے سے کسی بڑے سے بڑے انسان کو استغناء بھی نہیں اسی لئے سورة فاتحہ کی اہم ترین دعا ہدایت کو قرار دیا گیا جو ایک ادنیٰ مومن کے لئے بھی مناسب حال ہے اور بڑے سے بڑے رسول اور ولی کے لئے بھی اتنی ہی اہم ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخر عمر میں سورة فتح کے اندر فتح مکہ کے فوائد وثمرات بتلاتے ہوئے یہ بھی ارشاد ہوا کہ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْاً یعنی مکہ مکرمہ اس لئے آپ کے ہاتھوں فتح کرایا گیا تاکہ آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت ہو، ظاہر ہے کہ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سے نہ صرف ہدایت یافتہ بلکہ دوسروں کے لئے بھی ہدایت مجسم تھے پھر اس موقع پر آپ کو ہدایت ہونے کے اس کے سوا کوئی معنی نہیں ہوسکتے کہ ہدایت کا کوئی بہت اعلیٰ مقام آپ کو اس وقت حاصل ہوا،- ہدایت کی اس تشریح سے آپ کے لئے فہم قرآن میں بہت سے فوائد حاصل ہوگئے، - اوّل یہ کہ قرآن میں کہیں تو ہدایت کو ہر مومن و کافر کے لئے بلکہ کل مخلوقات کے لئے عام فرمایا گیا ہے اور کہیں اس کو محض متقین کے ساتھ مخصوص لکھا گیا جس میں ناواقف کو تعارض کا شبہ ہوسکتا ہے ہدایت کے عام و خاص درجات معلوم ہونے کے بعد یہ شبہ خود بخود رفع ہوجاتا ہے کہ ایک درجہ سب کو عام اور شامل ہے اور دوسرا درجہ مخصوص ہے،- دوسرا فائدہ : یہ ہے کہ قرآن میں ایک طرف تو جگہ جگہ یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالمین یا فاسقین کو ہدایت نہیں فرماتے اور دوسری طرف مکرّر سکّرر یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت فرماتے ہیں اس کا جواب بھی درجات کی تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ہدایت عامہ سب کو کی جاتی ہے اور ہدایت کا تیسرا مخصوص درجہ ظالمین وفاسقین کو نصیب نہیں ہوتا،- تیسرا فائدہ : یہ ہے کہ ہدایت کے تین درجات میں سے پہلا اور تیسرا درجہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کا فعل ہے، اس میں کسی نبی یا رسول کا دخل نہیں انبیاء (علیہم السلام) اور رسولوں کا کام صرف دوسری درجہ ہدایت سے متعلق ہے،- قرآن کریم میں جہاں کہیں انبیاء (علیہم السلام) کو ہادی قرار دیا ہے وہ اسی دوسرے درجے کے اعتبار سے ہے اور جہاں یہ ارشاد ہے اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ (٥٦: ٢٨) یعنی آپ ہدایت نہیں کرسکتے جسکو چاہیں تو اس میں ہدایت کا تیسرا درجہ مراد ہے یعنی توفیق دینا آپ کا کام نہیں، - الغرض اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ایک جامع اور اہم ترین دعا ہے جو انسان کو سکھلائی گئی ہے، انسان کا کوئی فرد اس سے بےنیاز نہیں، دین اور دینا دونوں میں صراط مستقیم کے بغیر فلاح و کامیابی نہیں دنیا کی الجہنوں میں بھی صراط مستقیم کی دعا نسخہ اکسیر ہے مگر لوگ توجہ نہیں کرتے ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا۔- صراط مستقیم کونسا راستہ ہے ؟- سیدھا راستہ وہ ہے جس میں موڑ نہ ہوں، اور مراد اس سے دین کا وہ راستہ ہے جس میں افراط اور تفریط نہ ہو افراط کے معنی حد سے آگے بڑہنا اور تفریط کے معنی کوتاہی کرنا پھر اس کے بعد کی دو آیتوں میں اس صراط مستقیم کا پتہ دیا گیا ہے جسکی دعا اس آیت میں تلقین کی گئی ہے،- ارشاد ہوتا ہے، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا " اور وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ان کی تفصیل ایک دوسری آیت میں اس طرح آئی ہے اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا یعنی انبیاء، اور صدیقین اور شہداء اور صالحین، مقبولان بارگاہ الہی کے یہ چار درجات ہیں جن میں سب سے اعلیٰ انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور صدیقین وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی امت میں سب سے زیادہ رتبے کے ہوتے ہیں جن میں کمالات باطنی بھی ہوتے ہیں عرف میں ان کو اولیاء کہا جاتا ہے، شہداء وہ ہیں جنہوں نے دین کی محبت میں اپنی جان تک دے دی اور صلحاء وہ ہیں جو شریعت کے پورے متبع ہوتے ہیں واجبات میں بھی مستحبات میں بھی جن کو عرف میں نیک دیندار کہا جاتا ہے .
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ٥ ۙ- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
(٦۔ ٧) ان لوگوں کا دین جن پر تو نے دین عطا کرکے احسان کیا ہے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے اور ان کا وہ وقت جب تک اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی نعمتوں کو واپس نہیں لیا تھا کہ ان پر وادی تیہ میں بادل نے سایہ کیے رکھا اور اس امت پر بطور نعمت من وسلوی آسمان سے اتارا گیا۔ اور یہ تفسیر بھی ہے کہ انعام والی جماعت سے نبیوں کی جماعت مراد ہے جو ان یہودیوں کے دن کی طلب گار نہیں جن پر تو نے اپنا غصہ کیا اور ان کو ذلیل ورسوا کیا اور ان کے دلوں کو مضبوط نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ یہودی بن گئے۔ اور نہ ان نصاری کے دین کے طلب گار ہیں، ان کے دلوں کو مضبوط نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وہ یہودی بن گئے، اور نہ ان نصاری کے دین کے طلب گار ہیں، جو اسلام سے بےراہ ہوگئے، اس طرح ہماری یہ امیدیں بڑھتی رہیں اور اسی طرح ہوتا رہے یا یہ کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے جو تجھ سے دلی درخواست کی ہے، وہ وہی ہمیں عطا فرما، (اور ہماری ان جملہ دعاؤں کو قبول فرما)
(اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ٥ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ) (آمین )- اب دیکھئے ‘ یہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہی کی تشریح ہے جو آخری تین آیتوں میں ہے۔ ہمیں اللہ سے کیا مدد چاہیے ؟ پیسہ چاہیے ؟ دولت چاہیے ؟ نہیں نہیں اے اللہ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ پھر کیا چاہیے ؟ (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ” ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما “۔ یہ جو زندگی کے مختلف معاملات میں دورا ہے ‘ سہ را ہے اور چورا ہے آجاتے ہیں ‘ وہاں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صحیح کیا ہے ‘ غلط کیا ہے۔ لہٰذا اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخش۔ ” اِھْدِ “ ہدایت سے فعل امر ہے کہ ہمیں ہدایت دے۔ ہدایت کا ایک درجہ یہ بھی ہے کہ سیدھا راستہ بتادیا جائے۔ ہدایت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھا دیا جائے ‘ اور ہدایت کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ انگلی پکڑ کر سیدھے راستے پر چلایا جائے ‘ جیسے بچوں کو لے کر آتے ہیں۔ لہٰذا سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا میں یہ سارے مفہوم شامل ہوں گے۔ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے۔ اے اللہ اس سیدھے راستے کے لیے ہمارے سینوں کو کھول دے۔ اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنَا بالْاِیْمَانِ وَاشْرَحْ صُدُوْرَنَا لِلْاِسْلَامِ ” اے اللہ ہمارے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کر دے اور ہمارے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے “۔ ہمیں اس پر انشراح صدر ہوجائے۔ اور پھر یہ کہ ہمیں اس سیدھے راستے کے اوپر چلا۔- اب آگے اس صراط مستقیم کی بھی وضاحت ہے ‘ اور یہ وضاحت دو طرح سے ہے۔ صراط مستقیم کی وضاحت ایک مثبت انداز میں اور ایک منفی انداز میں کی گئی ہے۔ مثبت انداز یہ ہے کہ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ) ” (اے اللہ ) ان لوگوں کے راستہ پر (ہمیں چلا) جن پر تو نے اپنا انعام نازل فرمایا “۔ یہ مضمون جا کر سورة النساء میں کھلے گا کہ منعم علیہم چار گروہ ہیں : (مِنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا) ” کہ وہ نبی ‘ صدّ یقین ‘ شہداء اور صالحین ہیں۔ اور بہت ہی خوب ہے ان کی رفاقت “۔ اے اللہ ان کے راستہ پر ہمیں چلا۔ یہ تو مثبت بات ہوگئی۔ منفی انداز یہ اختیار فرمایا : (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ) ” نہ ان پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے “۔ جو لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے وہ دو قسم کے ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ جو شرارت نفس کی وجہ سے غلط راستہ پر چلتا ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے ‘ اور جس کی نیت تو غلط نہیں ہوتی ‘ لیکن وہ غلو کر کے جذبات میں آکر کوئی غلط راستہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ ضالّّ (گمراہ) ہے۔ چناچہ ” مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ “ کی سب سے بڑی مثال یہود ہیں کہ اللہ کی کتاب ان کے پاس تھی ‘ شریعت موجود تھی ‘ لیکن شرارت نفس اور تکبر کی وجہ سے وہ غلط راستہ پر چل پڑے۔ جبکہ نصاریٰ ” ضَآلِّیْن “ ہیں ‘ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں صرف غلو کیا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں بھی بعض نعت گو اور نعت خواں نبی کریم کی شان بیان کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کبھی انہیں اللہ سے بھی اوپر لے جاتے ہیں۔ یہ غلو ہوتا ہے ‘ لیکن ہوتا ہے نیک نیتی سے ‘ محبت سے۔ چناچہ نصاریٰ نے حب رسول میں غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا دیا۔ ہمارے شیعہ بھائیوں میں سے بھی بعض لوگ ہیں جو حضرت علی کو خدا ہی بنا بیٹھے ہیں۔ مثلاً - ” لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی “- بہرحال یہ غلو ہوتا ہے جو انسان کو گمراہ کردیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے : (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ ) (المائدۃ : ٧٧) ” اے کتاب والو اپنے دین میں ناحق غلو سے کام نہ لو “۔ لیکن نصاریٰ نے اپنے دین میں اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی محبت میں غلو سے کام لیا تو وہ گمراہ ہوگئے۔ تو اے اللہ ان سب کے راستے سے ہمیں بچا کر سیدھے راستے پر چلا ‘ جو صدّ یقین کا ‘ انبیاء کا ‘ شہداء کا اور صالحین کا راستہ ہے۔- حدیث قدسی - آخر میں وہ حدیث قدسی پیش کر رہا ہوں جس میں سورة الفاتحہ ہی کو الصَّلَاۃ (نماز) قرار دیا گیا ہے۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے اور حضرت ابوہریرہ اس کے راوی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- ( قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ (اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی : اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ ‘ وَاِذَا قَالَ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) قَالَ مَجَّدَنِیْ - عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً : فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ فَاِذَا قَالَ (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ‘ فَاِذَا قَالَ (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ) قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ ) (٧)- ” میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں میں تقسیم کردیا ہے ( اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے ) اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اس نے طلب کیا۔ جب بندہ کہتا ہے : ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی (میرا شکر ادا کیا) ۔ جب بندہ کہتا ہے : ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب بندہ کہتا ہے : ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی اور ایک مرتبہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ” میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے سپرد کردیا (گویا یہ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے۔ ) پھر جب بندہ کہتا ہے : ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ “ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے مابین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اس نے مانگا۔ (گویا یہ حصہ ایک قول وقرار اور عہد و میثاق ہے۔ اسے میں نے کہا تھا کہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے۔ ) پھر جب بندہ کہتا ہے : ” اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ “ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ (کل کا کل) میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اسے بخشا “۔- اس حدیث کی رو سے سورة الفاتحہ کے تین حصے بن جائیں گے۔ پہلا حصہ کلیتاً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیتاً بندے کے لیے ‘ جبکہ درمیانی و مرکزی آیت : ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ “ بندے اور اللہ کے مابین قول وقرار ہے۔ گویا اس کا بھی نصفِ اوّل اللہ کے لیے اور نصف ثانی بندے کے لیے ہے۔ اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہوگئی - ایک بات یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس حدیث قدسی میں ” قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ “ کے بعد آیت ” بسم اللہ “ کا ذکر نہیں ہے ‘ بلکہ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ “ سے بات براہ راست آگے بڑھتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس ضمن میں امام ابوحنیفہ (رح) کا موقف درست ہے کہ آیت بسم اللہ سورة الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔- اس سورة مبارکہ کے اختتام پر ” آمین “ کہنامسنون ہے۔ ” آمین “ کے معنی ہیں ” اے اللہ ایسا ہی ہو “ اس سورة مبارکہ کا اسلوب چونکہ دعائیہ ہے ‘ لہٰذا دعا کے اختتام پر ” آمین “ کہہ کر بندہ گویا پھر بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار میں نے یہ عرضداشت تیرے حضور پیش کی ہے ‘ تو اسے شرف قبول عطا فرما - بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :8 یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں خیال اور عمل اور برتاؤ کا وہ طریقہ ہمیں بتا جو بالکل صحیح ہو ، جس میں غلط بینی اور غلط کاری اور بدنامی کا خطرہ نہ ہو ، جس پر چل کہ ہم سچی فلاح و سعادت حاصل کر سکیں -------- یہ ہے وہ درخواست جو قرآن شروع کرتے ہوئے بندہ اپنے خدا کے حضور پیش کرتاہے ۔ اس کی گزارش یہ ہے کہ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں بتائیں کہ قیاسی فلسفوں کی اس بھول بھلیاں میں حقیقتِ نفس الامری کیا ہے ، اخلاق کے ان مختلف نظریات میں صحیح نظام اخلاق کونسا ہے ، زندگی کی ان بے شمار پگڈنڈیوں کے درمیان فکر و عمل کی سیدھی اور صاف شاہراہ کونسی ہے ۔