Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عبادت کا مفہوم ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے ایاک پڑھا ہے ۔ عمرو بن فائد نے ایاک پڑھا ہے ۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے ۔ اس لئے کہ ایا کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ھیاک پڑھا ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی ھیاک ہے ۔ نستعین کی یہی قرأت تمام کی ہے ۔ سوائے یحییٰ بن وہاب اور اعمش کے ۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں ۔ قبیلہ بنو اسد ، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے ۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو ۔ اسی طرح بغیر معبد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت ، خشوع ، خضوع اور خوف کے مجموعے کا ۔ لفظ ایاک کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے ۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حل صرف یہی دو حیزیں ہیں ۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورۃ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت آیت ( ایاک نعبد و ایاک نستعین میں ہے ۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ) 11 ۔ ہود:123 ) یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں ۔ فرمایا آیت ( قُلْ هُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِهٖ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا ) 67 ۔ الملک:29 ) کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا فرمایا آیت ( رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا ) 73 ۔ المزمل:9 ) یعنی مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لئے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الٰہی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا ، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ الہ ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں ۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ثناء انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لئے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے ۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان ( نصف نصف ) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔ جب بندہ آیت ( الحمد للہ رب العلمین ) کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی ۔ جب کہتا ہے آیت ( الرحمن الرحیم ) اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ۔ جب وہ کہتا ہے آیت ( مالک یوم الدین اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ عبادت اور طلب مدد٭٭ جب وہ آیت ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے ۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لئے ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ( ایاک نعبد ) کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں ، نہ ڈریں ، نہ امید رکھیں ۔ اور آیت ( ایاک نستعین ) سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو آیت ( ایاک نعبد کو پہلے لانا اس لئے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ جمع کے لئے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لئے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے ۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو ۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لئے آگے بڑھا ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لئے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب آیت ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر ۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں ۔ بعض کا قول ہے کہ آیت ( ایاک نعبد ) میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ ایاک عبدنا میں نہیں اس لئے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا ۔ کسی شاعر کا قول ہے ( ترجمہ ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا ، نماز میں کھڑے ہونا ، معراج کرانا وغیرہ ۔ فرمایا آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ) 18 ۔ الکہف:1 ) فرمایا آیت ( وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا ) 72 ۔ الجن:19 ) فرمایا آیت ( سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) 17 ۔ الاسراء: ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ ۔ فرمان ہے آیت ( ولقد نعلم یعنی ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں٠ تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں ۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا ۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لئے ۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لئے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا ۔ اس کی تکالیف کے لئے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے ۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لئے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو ۔ اسی لئے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے ہو تو باطل ہے ۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ حضرت معاذ جیسا میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کردیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) 005:002 نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق ؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات۔ 1۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) 010:031 دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 84؀ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 85؀ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ 86؀ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 87؀ قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 88؀ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ 89؀) 023:084 089 وغیرھا من الآیات۔ 2۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ 3۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔توحید کی تین قسمیں۔اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید صفات 1۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق، اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس توحید کو ملاحدہ و زنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں حتی کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکیں مکہ اعتراف نقل کا ہے۔ مثلا فرمایا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ تم آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار اور جاندار سے بےجان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کے اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 31) 010:031 ۔ دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) 39 ۔ الزمر :38) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقینا یہی کہیں گے کہ اللہ۔ ایک اور مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ وغیرھا من الایات۔2۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے، اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا۔ اس کے نام کی نذر ونیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔3۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں، مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نبی، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] عبادت : یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (١) پرستش (٢) اطاعت و فرمانبرداری (٣) ہمہ وقت کی بندگی اور غلامی۔ یہاں یہ لفظ اپنے تینوں معنوں میں مستعمل ہے۔- عبادت کا مفہوم :۔ عبادت تین قسم کی ہے جیسے ہم تشہد میں اس کا اقرار کرتے ہیں۔ (آیت التحیات للہ والصلوات والطیبات) یعنی ہماری تمام قلبی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں قلبی عبادات میں توکل، خوف ورجاء، محبت، تذلل اور خشوع و خضوع شامل ہیں۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کیا جائے، اسی سے امید وابستہ کی جائے۔ اسی سے ڈرا جائے اس سے محبت باقی سب چیزوں سے بڑھ کر ہو اور اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔ بدنی عبادات سے مراد فرض نماز اور نوافل نمازیں، روزہ اور حج اور دوسرے احکام الٰہی کی عملاً پیروی کرنا ہے اور مالی عبادات سے مراد زکوٰۃ، صدقات و خیرات، قربانی اور نذر و نیاز وغیرہ ہیں۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ان کاموں میں سے کوئی بھی کام بجا لایا جائے۔ یا اللہ کے سوا کسی اور کو بھی اس میں شریک کیا جائے تو یہ عبادت کی نفی اور اللہ کے ساتھ شرک کرنا ٹھہرے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ شرک کا گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔- [١١] استعانت کا مفہوم :۔ استعانت : (مدد چاہنا) انسان دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے وہ یا تو کسی فائدہ کے حصول کے لئے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دور کرنے کی خاطر۔ ان کاموں کو عربی زبان میں جلب منفعت اور دفع مضرت کہتے ہیں۔ اب انہی کاموں میں سے کسی کے لئے اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو یا اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو (یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں) تو یہ صریح شرک ہے اس کی مثال درج ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیے :- امداد کن امداد کن، از بند غم آزاد کن - دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادرا - اب اگر کوئی شخص یہ شعر یا وظیفہ اپنی جگہ پر پڑھے یا شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) کی قبر پر جاکر پڑھے تو یہ شرک ہوگا۔ کیونکہ اس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ بزرگ میری پکار کو سن بھی رہے ہیں پھر میری مشکل کشائی اور حاجت براری کا اختیار یا تصرف بھی رکھتے ہیں۔- دعا یا پکار کو اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی قرار دیا ہے (دیکھئے (٤٠: ٦٠) اور احادیث صحیحہ میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں۔ الدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (دعا ہی اصل عبادت ہے) اور دوسری یہ کہ الدعاء مخ العبادۃ (دعا ہی عبادت کا مغز ہے) - ہاں اگر کسی حاضر شخص سے ایسے کام میں مدد چاہی جائے جو اس کے اختیار میں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ ایسی امداد و تعاون کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو کام اللہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔ مثلاً اولاد عطا کرنا، رزق میں کمی بیشی کرنا، گناہ بخشنا، عذاب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ ایسے کاموں کے لئے کسی زندہ موجود شخص سے بھی مدد چاہنا شرک ہوگا۔ مگر کسی خطرہ مثلاً سانپ یا دشمن سے بچنے کے لئے مدد حاصل کرنا اور تعاون چاہنا درست ہوگا۔- اس آیت میں (نَعْبُدُ ) اور (نَسْتَعِیْنُ ) سے پہلے (اِیَّاکَ ) کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دے رہا ہے اور تاکید کا بھی اور اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں یا کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے استیصال کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔- نیز اس آیت میں جمع متکلم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ واحد متکلم کے نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام نماز باجماعت کی بھی تاکید کرتا ہے اور معاشرتی اجتماعی زندگی اور نظم و ضبط کی بھی۔ علاوہ ازیں (نَعْبُدُ ) کے فوراً بعد (نَسْتَعِیْنُ ) کا لفظ لایا گیا تاکہ انسان کو اپنی عبادت پر غرور نہ پیدا ہوجائے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اسے عبادت کی توفیق بھی اللہ ہی کی مدد کی بنا پر میسر آئی ہے۔- جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں کا ردّ :۔ دنیا میں عموماً تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ جبریہ کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ چاہے کرسکتا ہے ایسے لوگ قدریہ کہلاتے ہیں۔ معتزلین بھی اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسرے وہ جو نہ اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور نہ مجبور محض اور یہی لوگ دراصل حق پر ہیں۔ اس چھوٹی سی چار الفاظ کی آیت میں جبریہ اور قدریہ دونوں کا رد موجود ہے۔ وہ یوں کہ جب ہم نَعْبُدُ کہتے ہیں یعنی ہم عبادت کرتے ہیں تو اختیار ثابت ہوگیا اور اس میں جبریہ کا رد ہے اور جب ہم مدد چاہتے ہیں۔ تو اس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہوا یعنی وہ مختار مطلق نہیں اور اس میں قدریہ کا رد موجود ہے۔- [١٢] علاوہ ازیں چھٹی آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے یا دعا مانگنے یا مدد چاہنے سے پہلے وسیلہ ضروری ہے اور اس آیت میں وہ وسیلہ عبادت ہے۔ جس کا ذکر پہلے آگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون میں پوری وضاحت کر رہی ہے - فضالہ بن عبید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا، جس نے نہ تو اللہ کی حمد بیان کی تھی اور نہ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس شخص نے جلدی کی۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص بھی جب دعا کرے تو اپنے پروردگار کی تعریف اور ثنا سے شروع کرے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجے۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (احمد۔ ترمذی۔ نسائی۔ ابو داؤد۔ بحوالہ سبل السلام ج ١ ص ١٩٢ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر ٤٨)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِيَّاكَ نَعْبُدُ : سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد غائب کے صیغے کے ساتھ کی گئی ہے، ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ اور اس کے بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرلیا گیا ہے، اسے التفات کہتے ہیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اسے اس کا قرب اور اس کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوجاتا ہے، اب وہ براہ راست خطاب کے صیغے سے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔ - 2 عربی زبان میں جملہ فعلیہ کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے فعل، پھر فاعل اور اس کے بعد مفعول ہوتا ہے۔ اگر بعد والے لفظ کو پہلے لایا جائے تو اس سے کلام میں تخصیص یا حصر پیدا ہوجاتا ہے۔ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ اصل میں ” نَعْبُدُکَ “ (ہم تیری عبادت کرتے ہیں) تھا۔ مفعول ” کاف ضمیر “ کو ” نَعْبُدُ “ سے پہلے لایا گیا تو ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ ہوگیا، جس سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی ہم تیری عبادت کرتے ہیں، کسی اور کی نہیں کرتے۔ اس مفہوم کو ” ہم صرف تیری عبادت “ یا ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں “ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بعینہ ” لا الٰہ الا اللہ “ کا مفہوم ہے، یعنی عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں۔- 3 عبادت کا معنی کسی کو غیبی طاقتوں کا مالک سمجھ کر اس سے انتہائی درجے کی محبت کے ساتھ اس کے سامنے انتہائی درجے کی عاجزی، ذلت اور خوف ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اسلام نے بندوں کو ایسی ہر غلامی سے آزادی دلا کر صرف ایک ذات پاک کا بندہ اور عبد بنادیا جو انھیں پیدا کرنے والی اور ان کی پرورش کرنے والی ہے۔ عبادت صرف اس کی ہے، اس کے ساتھ کسی کو نہ شریک کرنا جائز ہے نہ اس کی محبت جیسی محبت یا اس کے خوف جیسا خوف کسی سے جائز ہے۔ افسوس کہ بعض مسلمان اللہ کے گھر میں داخل ہوتے یا نکلتے وقت اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام نہیں ہوتے جتنے وہ کسی قبر پر یا کسی پیر کے پاس جاتے یا واپس آتے وقت ہوتے ہیں۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کے عہد و اقرار کے بعد کسی دوسرے کی بندگی اللہ تعالیٰ سے سب سے بڑی غداری ہے، جسے وہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ دیکھیے سورة نساء (١١٦) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تین جگہ فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کی قدر اس طرح نہیں کی جیسے اس کی قدر کا حق ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٩١) ، حج ( ٧٤) اور زمر (٦٧) ۔- وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ” نَسْتَعِيْنُ “ ” عَوْنٌ“ میں سے باب استفعال فعل مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے، جو اصل میں ” نَسْتَعْوِنُ “ تھا۔ اس میں بھی ” اِيَّاكَ “ پہلے آنے کی وجہ سے حصر ہے، یعنی ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، کسی دوسرے سے نہیں۔ یہاں سے بندے کی درخواست شروع ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قبول ہوچکی۔ - 3 ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کو پہلے اور ” وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ کو بعد میں ذکر کرکے دعا کا سلیقہ سکھایا گیا ہے کہ درخواست سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا اور تمجید کے بعد اپنی بندگی اور اپنے تعلق کا حوالہ پیش کرو، یعنی اپنے عمل کے وسیلے سے درخواست کرو۔ یہ وسیلہ حق ہے، جیسا کہ فرمایا : (رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّاڰ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ) [ آل عمران : ١٩٣ ] ” اے ہمارے رب بیشک ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا، جو ایمان کے لیے آواز دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب پس ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کر۔ “ صحیح بخاری (٣٤٦٥) میں غار میں پھنسنے والے تین آدمیوں کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص سے کیے ہوئے اعمال کے وسیلے سے دعا قبول ہوتی ہے۔ البتہ کسی شخص کا نام لے کر اس کی ذات یا اس کی حرمت وغیرہ کے وسیلے سے دعا کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں، مثلاً یہ کہنا کہ یا اللہ فلاں کے وسیلے یا طفیل یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول کر۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٣٧) (فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ) کی تفسیر۔- 6 ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کے بعد ” وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ لانے میں یہ سبق بھی ہے کہ آدمی یقین رکھے کہ وہ کوئی بھی نیکی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں کرسکتا اور مکمل طور پر اللہ کے سامنے بےبس اور بےاختیار ہونے کا عقیدہ رکھے اور اس کا اظہار و اقرار بھی کرے۔ یعنی ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری عبادت میں اور اپنے تمام کاموں میں تیری ہی مدد مانگتے ہیں، تیری مدد کے بغیر نہ ہم تیری عبادت کرسکتے ہیں نہ کچھ اور۔ اس لفظ میں اللہ پر توکل اور اپنے تمام کام اس کے سپرد کرنے کی اعلیٰ ترین تعلیم دی گئی ہے۔ بعض سلف نے فرمایا، فاتحہ قرآن کا خلاصہ ہے اور (اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ) فاتحہ کا خلاصہ ہے۔ کیونکہ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ کہنے سے انسان شرک سے بری ہوجاتا ہے اور ” وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ کہنے سے وہ اپنی قوت و طاقت اور اختیار سے خالی ہو کر صرف اللہ پر توکل و اعتماد کا اقرار و اظہار کرتا ہے۔- 7 اس استعانت سے مراد ان کاموں میں مدد طلب کرنا ہے جن کا اختیار اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس رکھا ہے، کسی مخلوق کو ان کا اختیار نہیں دیا، مثلاً معالج دوا دے سکتا ہے مگر شفا صرف اللہ کے پاس ہے۔ کوئی صاحب خیر کچھ روپے پیسے دے سکتا ہے مگر غنی یا فقیر کردینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ طبیب علاج کرسکتا ہے مگر اولاد سے نوازنا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ فوج، آدمیوں اور اسلحے سے ایک دوسرے کی مدد ہوسکتی ہے مگر فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ غرض دنیا کے ظاہری اسباب و وسائل جو انسانوں کو عطا کیے گئے ہیں، ان میں ایک دوسرے سے مدد مانگنا بھی جائز ہے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی لازم ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى [ المائدۃ : ٢ ] ” نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “ افسوس کہ بعض لوگ ان ہستیوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں جو سنتے ہی نہیں، نہ پاس موجود ہوتے ہیں اور ایسی چیزوں کی مدد مانگتے ہیں جو اگر وہ زندہ ہوں یا سن رہے ہوں تب بھی ان کے اختیار میں نہیں۔ کتنا ظلم ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں ” وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ (صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں) کا اقرار کرتے ہیں، پھر غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں، مثلاً ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَغِثْنِیْ “ (اے اللہ کے رسول میری مدد کیجیے) یا اے مولا علی، اے شیر خدا میری کشتی پار لگا دینا، یا المدد یا غوث اعظم، یا مدد کن یا معین الدین چشتی۔ غرض صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے عہد و اقرار کے بعد غیروں کو رب تعالیٰ کا شریک بنا کر انھیں رب کے اختیارات کا مالک سمجھتے ہیں اور ان سے استغاثہ و استعانت کرتے ہیں۔ - 3 یہاں ایک سوال ہے کہ ” اِيَّاكَ نَعْبُدُ “ سے آخر فاتحہ تک دعا کرنے والا جمع کے صیغے سے دعا کرتا ہے، جب کہ دعا کرنے والا ایک ہے، اس لیے واحد کا صیغہ ہونا چاہیے تھا، اگر جمع کا لفظ تعظیم کے لیے مانا جائے تو یہ دعا کے مناسب نہیں ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ بندہ اپنی انتہائی تواضع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عالی بارگاہ میں اپنی درخواست اکیلا پیش کرنے کی جرأت نہیں کرتا، بلکہ تمام عبادت کرنے والے جن و انس اور فرشتوں کے ساتھ مل کر پیش کرتا ہے کہ ہم سب (جن میں تیرا یہ عاجز بندہ بھی ہے) تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔- بعض اہل علم نے یہ حکمت بیان فرمائی کہ جمع کے صیغے میں ایک لطیف تواضع پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ واحد کے صیغے میں اپنی کچھ بڑائی کا اظہار ہوتا ہے جو جمع کے صیغے میں نہیں ہے۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے اس میں یہ حکمت بیان فرمائی کہ ہر مومن دوسرے مومنوں کے ساتھ ایک جسم کی مانند ہے اور ہر مومن تمام مومنوں کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے وہ اکیلا ہی تمام مسلمانوں کی طرف سے عرض کرتا ہے کہ ہم سب صرف تیری تعریف کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْمُؤْمِنُوْنَ تَتَکَافَأُ دِمَاءُ ھُمْ وَ یَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَاھُمْ وَ ھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ ) ” ایمان والے لوگ، ان کے خون آپس میں برابر ہوتے ہیں، ان کا سب سے معمولی آدمی بھی ان کے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔ “ [ أبوداوٗد، الدیات، باب أیقاد المسلم من الکافر ؟ : ٤٥٣٠، وقال الألبانی حسن صحیح ]- اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ “ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ عبادت و استعانت کی بہترین صورت اجتماعی عبادت و استعانت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی جامع صورت نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا : (وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ) [ البقرۃ : ٤٣ ] ” اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ “- وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس کام کے لیے مدد مانگتے ہیں، تاکہ وہ عام رہے، مقصد یہ ہے کہ ہر کام میں تیری مدد مانگتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اس آیت میں ایک پہلو حمد وثناء کا اور دوسرا دعاء و درخواست کا ہے، نَعْبُدُ عبادت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کی انتہائی تعظیم و محبت کی وجہ سے اس کے سامنے اپنی انتہائی عاجزی اور فرمانبرداری کا اظہار نَسْتَعِيْنُ استعانت سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں کسی سے مدد مانگنا آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں انسان پر تین حالات گذرتے ہیں ماضی، حال مستقبل، پچھلی تین آیتوں میں سے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ اور الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں انسان کو اس پر متنبہ کردیا گیا وہ اپنے ماضی اور حال میں صرف اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے کہ اس کو ماضی میں نابود سے بود کیا اور اس کو تمام کائنات سے زیادہ بہترین شکل و صورت اور عقل و بصیرت عطا فرمائی اور حال میں اس کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ میں یہ بتادیا کہ مستقبل میں بھی وہ خدا ہی کا محتاج ہے، کہ روز جزاء میں اس کے سوا کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا، اور جب ان تینوں آیتوں نے یہ واضح کردیا کہ انسان اپنی زندگی کے تینوں دور میں خدا ہی کا محتاج ہے تو اس کا طبعی اور عقلی تقاضا یہ ہوا کہ عبادت بھی صرف اسی کی کی جائے کیونکہ عبادت جو انتہائی تعظیم و محبت کے ساتھ اپنی انتہائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے وہ کسی دوسری ہستی کے لائق نہیں اس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ ایک عاقل انسان پکار اٹھے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اسی مقتضائے طبع کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ حاجت روا صرف ایک ہی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے تو اقتضائے عقلی و طبعی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں مدد بھی صرف اسی سے مانگنا چاہئے، اسی اقتضائے عقل وطبع کو وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ذکر فرمایا گیا ہے (روح البیان) - غرض اس چوتھی آیت میں ایک حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے کہ عبادت واعانت کے لائق صرف وہی ہے اور دوسری حیثیت سے انسان کی دعا و درخواست ہے کہ ہماری مدد فرمائے اور تیسری حیثیت اور بھی ہے کہ اس میں انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا نہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں، اس آیت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ارشاد یہ ہے کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کسی کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں۔ جمہور مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی عبادت اور ہر دینی و دنیوی کام اور ہر مقصد میں صرف آپ کی مدد چاہتے ہیں پھر عبادت صرف نماز روزے کا نام نہیں امام غزالی نے اپنی کتاب اربعین میں عبادت کی دس قسمیں لکھی ہیں۔ ١ نماز، ٢ زکوٰۃ، ٣ روزہ، ٤ حج، ٥ تلاوت قرآن، ٦ ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرنا، ٧ حلال روزی کے لئے کوشش کرنا، ٨ پڑوسی اور ساتھی کے حقوق ادا کرنا، ٩ لوگوں کو نیک کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے منع کرنا، ١٠ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا اتباع کرنا،- اس لئے عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کے معنے یہ ہوگئے کہ نہ کسی کی محبت اللہ تعالیٰ کے برابر ہو نہ کسی کا خوف اس کے برابر ہو نہ کسی سے امید اس کی طرح ہو نہ کسی پر بھروسہ اللہ کی مثل ہو نہ کسی کی اطاعت و خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا اللہ تعالیٰ کی عبادت کو نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی کی نذر اور منت مانے نہ اللہ تعالیٰ کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلّل کا اظہار کرے نہ وہ افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جو انتہائی تذلّل کی علامات ہیں جیسے رکوع و سجدہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝ ٤ ۭ- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤۔ ٥) ہم تیری ہی توحید بیان کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور تجھ ہی سے تیری عبادت پر اور تیرے ان انعامات پر کہ جن کی وجہ سے ہم تیری فرمانبرداری پر قائم رہیں مدد مانگتے ہیں۔ قائم رہنے والے دین اسلام کی طرف ہماری رہنمائی فرما ایسی رہنمائی جس سے تو خوش ہے اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ہمیں ان دن پر ثابت قدم رکھ اور کتاب اللہ کے ساتھ بھی اس کی تفسیر کی گئی ہے یعنی اس قرآن کے حلال و حرام اور اسکے مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )- ضمیر مخاطب ” کَ “ کو مقدمّ کرنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ پھر عربی میں فعل مضارع ‘ زمانۂ حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے ‘ لہٰذا میں نے ترجمہ میں ان باتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ بندے کا اپنے پروردگار سے عہد و پیمان ہے جسے میں نے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا صحیح تصور ایک حدیث قدسی کی روشنی میں سامنے آتا ہے جسے میں بعد میں پیش کروں گا۔ یہاں سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرلینا تو آسان ہے کہ اے اللہ میں تیری ہی بندگی کروں گا ‘ لیکن اس فیصلہ کو نبھانا بہت مشکل ہے ؂- یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے - لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا - اللہ کی بندگی کے جو تقاضے ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہے ‘ لہٰذا بندگی کا عہد کرنے کے فوراً بعد اللہ کی پناہ میں آنا ہے کہ اے اللہ میں اس ضمن میں تیری ہی مدد چاہتا ہوں۔ فیصلہ تو میں نے کرلیا ہے کہ تیری ہی بندگی کروں گا اور اس کا وعدہ کر رہا ہوں ‘ لیکن اس پر کاربند رہنے کے لیے مجھے تیری مدد درکار ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اذکارِ مأثورہ میں ہر نماز کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ذکر یہ بھی ہے : (رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) (٦) ” پروردگار میری مدد فرما کہ میں تجھے یاد رکھ سکوں ‘ تیرا شکر ادا کرسکوں اور تیری بندگی احسن طریقے سے بجا لاؤں “۔ تیری مدد کے بغیر میں یہ نہیں کرسکوں گا۔- (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ ) جب بھی آپ اس آیت کو پڑھیں تو آپ کے اوپر ایک خاص کیفیت طاری ہونی چاہیے کہ پہلے کپکپی طاری ہوجائے کہ اے اللہ میں تیری بندگی کا وعدہ تو کر رہا ہوں ‘ میں نے ارادہ تو کرلیا ہے کہ تیرا بندہ بن کر زندگی گزاروں گا ‘ میں تیری جناب میں اس کا اقرار کر رہا ہوں ‘ لیکن اے اللہ میں تیری مدد کا محتاج ہوں ‘ تیری طرف سے توفیق ہوگی ‘ تیسیر ہوگی ‘ تعاون ہوگا ‘ نصرت ہوگی تب ہی میں یہ عہد و پیمان پورا کرسکوں گا ‘ ورنہ نہیں۔- (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ ) آیت ایک ہے لیکن جملے دو ہیں۔ ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ “ مکمل جملہ ہے ‘ جملہ فعلیہ انشائیہ ‘ اور ” اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ “ دوسرا جملہ ہے۔ بیچ میں حرف عطف واؤ ہے۔ اس سے پہلے اس سورة مبارکہ میں کوئی حرف عطف نہیں آیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری صفات اس کی ذات میں بیک وقت موجود ہیں۔ یہاں حرف عطف آگیا : ” اے اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے “ اور ” تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے “۔ ہمارا سارا دار و مدار اور توکل تجھ ہی پر ہے۔ ہم تیری مدد ہی کے سہارے پر اتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ ہم تیری ہی بندگی کرتے رہیں گے۔- ہم نماز وتر میں جو دعائے قنوت پڑھتے ہیں کبھی آپ نے اس کے مفہوم پر بھی غور کیا ہے ؟ اس میں ہم اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑا اقرار کرتے ہیں : - اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ ‘ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ ‘ اَللّٰہُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ ‘ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ اِنَّ عَذَابَکَ بالْکُفَّارِ مُلْحِقٌ- ” اے اللہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ‘ اور تجھ ہی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ اور ہم تجھ پر ایمان رکھتے ہیں ‘ اور تجھ پر توکل کرتے ہیں ‘ اور تیری تعریف کرتے ہیں ‘ اور تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم علیحدہ کردیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں ہر اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے۔ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ‘ اور ہم تیری طرف کوشش کرتے ہیں اور ہم حاضری دیتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ‘ بیشک تیرا عذاب کافروں کو پہنچنے والا ہے۔ “- واقعہ یہ ہے کہ اس دعا کو پڑھتے ہوئے لرزہ طاری ہوتا ہے کہ کتنی بڑی بڑی باتیں ہم اپنی زبان سے نکال رہے ہیں۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ” اے اللہ ہم صرف تیری ہی مدد چاہتے ہیں “ لیکن نہ معلوم کس کس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کس کس کے سامنے جبیں سائی کرتے ہیں ‘ کس کس کے سامنے اپنی عزت نفس کا دھیلا کرتے ہیں۔ پھر یہ الفاظ دیکھئے : نَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ کہ جو بھی تیری نافرمانی کرے اسے ہم علیحدہ کردیتے ہیں ‘ اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ اس سے ترک تعلق کرلیتے ہیں۔ لیکن کیا واقعۃً ہم کسی سے ترک تعلق کرتے ہیں ؟ ہم کہتے ہیں دوستی ہے ‘ رشتہ داری ہے کیا کریں ‘ وہ اپنا عمل جانیں میں اپنا عمل جانوں۔ ہمارا طرز عمل تو یہ ہے۔ تو کتنا بڑا دعویٰ ہے اس دعا کے اندر ؟ اور وہ پورا دعویٰ اس ایک جملے میں مضمر ہے : اِیَّاکَ نَعْبُدُ ” پروردگار ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے “۔ چناچہ اس وقت فوری طور پر بندے کے سامنے یہ کیفیت آ جانی چاہیے کہ اے اللہ میں یہ اسی صورت میں کرسکوں گا اگر تیری مدد شامل حال رہے۔- جزو ثالث : سورة الفاتحہ کا تیسرا حصہ تین آیات پر مشتمل ہے ‘ تاہم یہ ایک ہی جملہ بنتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :6 عبادت کا لفظ بھی عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ﴿١﴾ پوجا اور پرستش ﴿۲﴾ اطاعت اور فرمانبرداری ﴿۳﴾ بندگی اور غلامی ۔ اس مقام پر تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں ۔ یعنی ہم تیرے پرستار بھی ہیں ، مطیع فرمان بھی اور بندہ و غلام بھی ۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ہم تیرے ساتھ یہ تعلق رکھتے ہیں ۔ بلکہ واقعی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلق صرف تیرے ہی ساتھ ہے ۔ ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے ۔ سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :7 یعنی تیرے ساتھ ہمارا تعلق محض عبادت ہی کا نہیں ہے بلکہ استعانت کا تعلق بھی ہم تیرے ہی ساتھ رکھتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ساری کائنات کا رب تو ہی ہے ، اور ساری طاقتیں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، اور ساری نعمتوں کا تو ہی اکیلا مالک ہے ، اس لیے ہم اپنی حاجتوں کی طلب میں تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں ، تیرے ہی آگے ہمارا ہاتھ پھیلتا ہے اور تیری مدد پر ہمارا اعتماد ہے ۔ اسی بنا پر ہم اپنی درخواست لے کر تیری خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

(4) یہاں سے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے اور اسی کے ساتھ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی قسم کی عبادت کے لائق نہیں، نیز ہر کام میں حقیقی مدد اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہیے ؛ کیونکہ صحیح معنی میں کار ساز اس کے سوا کوئی نہیں، دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے، وہ اسے کارساز سمجھ کر نہیں ؛ بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے۔