حقیقی وارث مالک کون ہے؟ بعض قاریوں نے ملک پڑھا ہے اور باقی سب نے مالک اور دونوں قرأت یں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قرأت وں میں سے ہیں اور مالک نے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ ۔ اور ملیک اور ملکی بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قرأت یں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی ۔ زمخشری نے ملک کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرأت ہے ۔ اور قرآن میں بھی آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40 ۔ غافر:16 ) اور ( قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ ) 6 ۔ الانعام:73 ) ہے ۔ امام ابو حنیفہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بیحد غریب ہے ۔ ابو بکر بن داؤد نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور حضرت معاویہ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے ۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے ملک پڑھا ۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرأت کی صحت کا علم تھا ۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا واللہ اعلم ۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مالک پڑھتے تھے ۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا وَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ ) 19 ۔ مریم:40 ) یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے ۔ اور فرمایا آیت ( قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ Ǻۙ مَلِكِ النَّاسِ Ąۙ ) 114 ۔ الناس:2-1 ) یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی ۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا آیت ( لمن الملک الیوم ) الخ یعنی آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا ۔ اور فرمایا آیت ( قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام:73 ) اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے ۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے ۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رب العالمین ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں ۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا ۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا ۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا ۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا ۔ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض سعادت مند ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ آیت ( یوم الدین سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یا اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سعادت مند ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہوگا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے ۔ آیت ( یوم الدین ) سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے ۔ صحابہ ، تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے ۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے ۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان ہے آیت ( الملک یومئذ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا آیت ( ویوم یقول کن فیکون ) یعنی جس دن کہے گا ہو جا بس اسی وقت ہو جائے گا واللہ اعلم ۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک الخ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے ۔ قرآن عظیم میں ہے کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالتون کو ملک کہا گیا اور آیت ( وکان ورائھم ملک ) کا لفظ آیا ۔ اور بخاری مسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قرآن کی آیت میں آیت ( اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا ) یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ، آیا ہے ۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے اور جگہ ہے آیت ( ائنا لمدینون ) کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا ؟ حدیث میں ہے دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے ۔ جیسے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں ۔
ف 1 دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔
[٨] دین کے مختلف معانی :۔ دین کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں استعمال ہوا ہے :- (١) اللہ تعالیٰ کی مکمل حاکمیت اور اسی کا دوسرا پہلو یا لازمی نتیجہ ہے۔- (٢) انسان کی مکمل عبودیت جیسے ارشاد باری ہے :- (فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ ۭ ) 39 ۔ الزمر :2) لہٰذا خالصتاً اسی کی عبادت کرو۔ سن لو مکمل حاکمیت خالصتہ اللہ ہی کے لئے ہے ان دونوں آیات میں دین کا لفظ مذکورہ بالا دونوں معنی دے رہا ہے۔- (٣) قانون سزا و جزاء یا تعزیرات جیسے ارشاد باری ہے :- (مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ 76) 12 ۔ یوسف :76) اس (سیدنا یوسف علیہ السلام) کی شان کے لائق نہ تھا۔ ممکن نہ تھا کہ وہ بادشاہ کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو رکھ سکتا - (٤) قانون سزا و جزاء کو نافذ کرنے کی قوت، جیسے ارشاد باری ہے :- ( فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ 86 ۙ ) 56 ۔ الواقعة :86) پھر اگر تم سچے ہو اور قانون کی گرفت سے آزاد ہو تو (جب جان لبوں پر آجاتی ہے) اسے لوٹا کیوں نہیں لیتے ؟ - اور اس آیت میں دین کا لفظ مندرجہ بالا چاروں معنی دے رہا ہے۔- [٩] پہلی آیات میں اللہ کی معرفت کا ذکر تھا۔ اس پانچویں آیت میں روز آخرت پر ایمان اور روز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عملی اقتدار و اختیار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کے اچھے اعمال کا اچھا اور برے اعمال کا برا بدلہ دے گا۔ وہ ایسا بدلہ دینے کی اور اپنے اس فیصلہ کو نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ اعمال کے بدلہ کے سلسلہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے ضابطے اور قوانین ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ نیکیوں کا بدلہ اللہ جسے چاہے گا بہت زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ مگر برائی کا بدلہ اتنا ہی دے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی۔ یا یہ کہ ایک کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ یا یہ کہ کوئی مجرم کسی صورت میں سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ وغیرہ وغیرہ اور ان سب چیزوں کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر آیا ہے۔
مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ” الدِّيْنِ “ ” دَانَ یَدِیْنُ “ کا مصدر ہے، بدلہ دینا، جزا دینا۔ رحمن و رحیم کے بعد جزا کے دن کا مالک ہونے کی صفت بیان فرمائی۔ ایک قراءت (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) ہے یعنی روز جزا کا مالک اور دوسری ” مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ ہے، یعنی روز جزا کا بادشاہ۔ قرآن مجید کے رسم الخط میں ” مٰلِكِ “ لکھا ہے، اسے ” مَالِکِ “ اور ” مَلِکِ “ دونوں طرح پڑھا جاسکتا ہے اور دونوں قراءتیں متواتر طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک بھی ہے اور بادشاہ بھی۔ ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کے ساتھ قیامت کے دن کے مالک اور بادشاہ ہونے کی مناسبت یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی بہت رحم کرنے والا ہوتا ہے مگر اس کی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا، اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی رحم نہیں کرسکتا، پھر کوئی شخص بہت سی ملکیت کا مالک ہوتا ہے مگر اس کا بادشاہ کوئی اور ہوتا ہے، وہ مالک ہوتے ہوئے بھی پورا اختیار نہیں رکھتا۔ ” يَوْمِ الدِّيْنِ “ کے معنی یوم جزا کے ہیں۔ اس دنیا میں بھی مکافات یعنی اعمال کی جزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہوگا اس لیے قیامت کے دن کو خاص طور پر ” يَوْمِ الدِّيْنِ “ (بدلے کا دن) کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کے ” مَالِک “ اور ” مَلِک “ (بادشاہ) ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا، فرمایا : (يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَـيْــــًٔا ۭ وَالْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ) [ الانفطار : ١٩ ] ” جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کی مالک نہیں ہوگی اور اس دن حکم صرف اللہ کا ہوگا۔ “ اور فرمایا : (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) [ المؤمن : ١٦ ] ” آج بادشاہی کس کی ہے ؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے، دبدبے والا ہے۔ “ اس دن مالک بھی اللہ تعالیٰ ہوگا، بادشاہ بھی وہی ہوگا، صرف اسی کا حکم چلے گا۔ صفت رحمت اور بدلے کے دن کی ملکیت میں مناسبت اس حدیث سے واضح ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، جن میں سے اس نے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان نازل فرمائی ہے، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانویں رحمتیں مؤخر کر رکھی ہیں، جن کے ساتھ وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ “ [ مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالٰی۔۔ : ١٩؍٢٧٥٢۔ بخاری :- ٦٠٠٠، عن أبی ہریرہ (رض) ]- 3 تقسیم صلاۃ والی حدیث قدسی کے مطابق بندہ جب (مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ( مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ ) ” میرے بندے نے میری تمجید (بزرگی بیان) کی۔ “ ایک روایت کے مطابق فرماتا ہے : ( فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ )” میرے بندے نے اپنا سب کچھ میرے سپرد کردیا۔ “ [ مسلم، الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ ۔۔ : ٣٩٥ ] قرآن مجید میں تمجید الٰہی اور تفویض و توکل پر مشتمل تمام آیات ” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “ کی تفصیل ہیں۔
(آیت) مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ لفظ مالک ملک سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز پر ایسا قبضہ کہ وہ اس میں تصرف کرنے کی جائز قدرت رکھتا ہو (قاموس) لفظ دین کے معنی جزاء دینا۔ ملک یوم الدین کا لفظی ترجمہ ہوا مالک روز جزاء کا یعنی روز جزاء میں ملکیت رکھنے والا وہ ملکیت کس چیز پر ہوگی ؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا تفسیر کشاف میں ہے کہ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے یعنی روز جزاء میں تمام کائنات اور تمام امور کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی (کشاف) - روز جزاء کی حقیقت اور عقلاً اس کی ضرورت :- اب یہاں چند با تیں قابل غور ہیں : - اول یہ کہ روز جزا کس دن کا نام ہے، اور اس کی کیا حقیقت ہے ؟ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت تمام کائنات پر جس طرح روز جزا میں ہوگی ایسے ہی آج بھی ہے، پھر روز جزا کی کیا خصو صیت ہے ؟ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ روز جزاء اس دن کا نام ہے جس کو اللہ نے نیک وبد اعمال کا بدلہ دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے، لفظ روز جزا سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ حاصل ہوا کہ دنیا نیک وبد اعمال کی جزاء وسزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالعمل فرض ادا کرنے کا دفتر ہے تنخواہ یاصلہ وصول کرنے کی جگہ نہیں اس سے معلوم ہوگیا کہ دنیا میں کسی کو عیش و عشرت دولت و راحت سے مالامال دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول و محبوب ہے یا کسی کو رنج و مصیبت میں مبتلا پا کر یہ نہیں قرار دیا جاسکتا کہ وہ اللہ کے نزدیک معتوب ومبغوض ہے جس طرح دنیا کے دفتروں اور کارخانوں میں کسی کو اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف محنت دیکھا جائے تو کوئی عقلمند اس کو مصیبت زدہ نہیں کہتا اور نہ وہ خود اپنی مشقت کے باوجود اپنے آپ کو گرفتار مصیبت سمجھتا ہے بلکہ وہ اس محنت ومشقت کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے اور کوئی مہربان اس کو اس مشقت سے سبکدوش کرنا چاہے تو وہ اس کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتا ہے کیونکہ وہ اس تیس روزہ محنت کے پس پردہ اس راحت کو دیکھ رہا ہے جو اس کو تنخواہ کی شکل میں ملنے والی ہے،
مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ٣ ۭ- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - يَوْمِ الدِّيْنِ- علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں : يَوْمِ الدِّيْنِ : قیامت کا دن ہے دین۔ جزاء اور بدلے کو کہتے ہیں اور کَمَا تُدِینُ تُدَانُ دین ہی سے مشتق ہے ( یعنی جیسے تو فعل کرے گا ویسا ہی بدلہ لے گا۔۔ یا لفظ دین سے اسلام اور اطاعت مراد ہے کیونکہ وہ ایسا دن ہے کہ جس میں اسلام اور اطاعت کے سوا کوئی چیز نفع نہیں دیگی۔ مجاہد کہتے ہیں کہ يَوْمِ الدِّيْنِ بمعنی يَوْمُ الحِسَاب ہے چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ یعنی یہ سید ھا حساب ہے۔
(٣) یوم الدین بدلہ کا وہ فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ قیامت کا دن ہے جس میں مخلوق کے درمیان فیصلہ ہوگا ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا، اس دن اللہ کے علاوہ کسی کا فیصلہ نہیں ہوگا۔
(مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) ” وہ جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے “۔ وہ مختار مطلق ہے۔ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کے فیصلے ہوں گے۔ کسی کی وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی ‘ کسی کا وہاں زور نہیں چلے گا ‘ کوئی دے دلا کر چھوٹ نہیں سکے گا ‘ کسی کو کہیں سے مطلقاً کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اس روز کہا جائے گا : (لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ) ” آج کس کے ہاتھ میں اختیار اور بادشاہی ہے ؟ “ (لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ) ” اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو اکیلا ہے اور پوری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ “- اب دیکھئے گر امر کی رو سے یہ ایک جملہ مکمل ہوا : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ ) ” کل حمد و ثنا اور شکر اس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ‘ جو رحمن ہے ‘ رحیم ہے ‘ اور جو جزا و سزا کے دن کا مالک اور مختار مطلق ہے۔ “- جزو ثانی : سورة الفاتحہ کا دوسرا حصہ صرف ایک آیت پر مشتمل ہے ‘ جو ہر اعتبار سے اس سورة کی مرکزی آیت ہے :
سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :5 یعنی اس دن کا مالک جبکہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کرکے ان کے کارنامہٴ زندگی کا حساب لیا جائیگا اور ہر انسان کو اس کے عمل کا پورا صِلہ مل جائےگا ۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روزِجزا کہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نِرا مہربان ہی نہیں ہے بلکہ منصف بھی ہے ، اور منصف بھی ایسا بااختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہوگا ، نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہوسکے گا اور نہ جزا میں مانع ۔ لہٰذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بناء پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پر اس سے ڈرتے بھی ہیں اور یہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اوربُرائی بالکُلّیہ اسی کے اختیار میں ہے ۔
(٣) روز جزا کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو ان کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یوں تو روز جزا سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن یہاں خاص طور پر روز جزا کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنایا ہوا ہے، یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے، لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جزا وسزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہ ہوگی۔