Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ قرطبی فرماتے ہیں آیت ( رب العلمین کے وصف کے بعد آیت ( الرحمن الرحیم کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( نبی عبادی الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں ۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے ۔ رب کے لفظ میں ڈراوا ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں امید ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 رحمن بروز فعلان اور رحیم بر وزن فعیل ہے۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم۔ آمین

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] رحمن اور رحیم کا فرق پہلی آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بتایا جاچکا ہے۔ ان الفاظ کو یہاں دوبارہ لانے کا مقصد صرف اس بات کا اظہار ہے کہ تمام جہانوں کی ربوبیت عامہ کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہوسکتے ہیں جب ان عالمین کا پروردگار رحمن بھی ہو اور رحیم بھی ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ رحمن اور رحیم نہ ہوتا تو یہ دنیا کبھی آباد نہ رہ سکتی بلکہ کب کی فنا ہوچکی ہوتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ. یہ دوسری اور تیسری صفت ہے۔ جب سارے جہانوں کی ربوبیت کا ذکر ہوا تو ساتھ ہی اللہ کی بیحد و حساب رحمت کا ذکر ہوا، کیونکہ رحمت کے بغیر ربوبیت ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ دونوں رحم میں سے مبالغے کے صیغے ہیں۔ معنی دونوں کا بہت زیادہ رحم والا ہے، مگر اس پر اتفاق ہے کہ ” الرَّحْمٰنِ “ میں مبالغہ زیادہ ہے، کیونکہ اس کے حروف ” الرَّحِيْمِ “ سے زیادہ ہیں (اور حروف کی زیادتی سے معنی میں زیادتی ظاہر ہوتی ہے) اور اس لیے بھی کہ لفظ ” اللہ “ کی طرح ” رحمان “ بھی صرف باری تعالیٰ کے لیے بولا جاتا ہے، جب کہ ” رحیم “ بعض اوقات مخلوق پر بھی آجاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا : (بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيم) [ التوبۃ : ١٢٨ ] ” مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہاں رحم میں مبالغے کا اظہار کرنے کے لیے دو لفظ کیوں ذکر فرمائے ؟ بعض اہل علم نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ تاکید کے لیے ہے، مگر اکثر علماء ایک مادے (رحم) سے مشتق ہونے کے باوجود ان دونوں کے درمیان فرق مانتے ہیں۔ اکثر مفسرین نے فرمایا کہ ” الرَّحْمٰنِ “ کا معنی بڑی بڑی نعمتیں عطا کرنے والا اور ” الرَّحِيْمِ “ کا معنی دقیق اور باریک نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔ بعض نے فرمایا کہ رحمٰن وہ ہے جس کی رحمت سب کے لیے عام ہے، مسلم ہوں یا کافر، جب کہ رحیم وہ ہے جو خاص طور پر مومنوں کو رحمت سے نوازنے والا ہے۔ بعض نے فرمایا کہ رحمٰن وہ ہے جس کی رحمت دنیا میں مسلم و کافر سب کے لیے اور آخرت میں صرف مسلمانوں کے لیے ہے اور رحیم وہ جو آخرت میں خاص مسلمانوں پر رحم کرنے والا ہے۔ مگر ان تینوں اقوال کی پختہ دلیل، جس پر اعتراض نہ ہو، مجھے معلوم نہیں ہوسکی۔ مفسر قاسمی نے شیخ محمد عبدہ مصری (رض) سے ایک مدلل و مضبوط فرق نقل کیا ہے، میں اسے تھوڑی سی وضاحت اور اضافے سے نقل کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ رحمٰن ” فَعْلَانُ “ کے وزن پر ہے، جو معنی کی کثرت پر دلالت کرتا ہے، مثلاً ” عَطْشَانُ “ بہت زیادہ پیاسا، ” غَرْثَانُ “ بہت زیادہ بھوکا اور ” غَضْبَانُ “ غصے سے بھرا ہوا۔ اس وزن میں معنی کی کثرت تو ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے، بلکہ وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) طور سے لوٹے تو ” غَضْبَانُ “ (غصے سے بھرے ہوئے) تھے، مگر ہارون (علیہ السلام) کا عذر سن کر غصہ ختم ہوگیا، بلکہ ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ گویا رحمٰن کا معنی وہ ذات ہے جس میں بہت ہی زیادہ رحمت ہے، جو بیحد و بےحساب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اس کتاب میں لکھ دیا جو اس کے پاس عرش پر ہے کہ بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ “ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ویحذرکم اللہ نفسہ ) : ٧٤٠٤، عن أبی ہریرہ (رض) ] ” فَعِیْلٌ“ کا وزن کسی چیز میں مفہوم کے لزوم، دوام اور ہمیشگی کے لیے آتا ہے، وہ صفت اس سے جدا نہیں ہوسکتی، مثلاً علیم، حلیم، عظیم، خبیر، بصیر، سمیع، رؤف اور رحیم۔ یعنی وہ ذات جس کی رحمت دائمی ہے، کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی۔ دونوں صفتوں کے ملنے سے صفت رحمت کی وسعت بھی ثابت ہوئی اور اس کا دوام بھی۔ اگر اس کی رحمت میں وسعت و کثرت نہ ہو تو بعض مخلوق محروم رہ جائے اور اگر اس میں دوام نہ ہو تو کوئی چیز نہ پایۂ تکمیل تک پہنچے، نہ باقی رہ سکے۔- 3 قرآن مجید میں ثنائے الٰہی پر مشتمل تمام آیات ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کی تفصیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان نماز کی تقسیم والی حدیث قدسی کے مطابق بندہ جب ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” میرے بندے نے میری ثنا کی۔ “ [ مسلم، الصلوۃ، وجوب قراء ۃ الفاتحۃ ۔۔ : ٣٩٥ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ ٢ ۙ- یہ دونوں نام رحمۃ سے مشتق ہیں، دونوں میں مبالغہ ہے رحمن کے معنی میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اس میں رحیم کی نسبت ایک حرف زائد ہے اور زیادۃ اللفظ تدل علی زیادۃ المعنی یعنی زائد حروف زیادۃ معنی پر دلالت کرتے ہیں۔ رحمن کا لفظ اللّٰہ کی طرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے اور اس کی دلیل یہ آیت شریفہ ہے : قل ادعوا اللّٰہ ادادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسمآء الحسنی (17:11) کہہ دو تم ( خدا کو) اللہ ( کے نام سے) پکارو یا رحمن ( کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔ بخلاف اس کے رحیم کا لفظ ماسوی اللہ کے لئے بھی مستعمل ہے مثلاً رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رؤف رحیم، کہا گیا ہے آیۃ شریفہ ہے لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رء وف الرحیم ۔ (6:128) ( لوگو) تمہارے پاس تمہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری ( بھلائی) کے حریص ہیں ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔- بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمن اور آخرت میں رحیم ہے کہ دنیا میں مومن اور کافر سب اس کی رحمت سے متمتع ہوتے ہیں اور آخرت میں رحمت سے فائدہ اٹھانے والے صرف مومن ہوں گے۔ اس بارے میں اور بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ گرامر کے لحاظ سے الرحمن الرحیم ۔ کی دو صورتیں ہیں (1) یہ اللہ کی صفت ہیں اس صورت میں ترجمہ ہوگا اللہ کے نام سے جو کہ رحمن اور رحیم ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) لفظ رحمن میں رحیم سے زیادہ رقت و رحمت ہے اور رحیم بمعنی رقیق ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) رحمت کے مادہ سے یہ اللہ کے دو اسماء ہیں۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے ؟ رَحْمٰن ‘ فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ‘ چناچہ اس کے اندر مبالغہ کی کیفیت ہے ‘ یعنی انتہائی رحم کرنے والا۔ اس لیے کہ عرب جو اس وزن پر کوئی لفظ لاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نہایت شدت ہے۔ مثلاً غَضْبان ” غصہ میں لال بھبھوکا شخص “۔ سورة الاعراف میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے الفاظ آئے ہیں : (غَضْبَانَ اَسِفًا) ” غصہ اور رنج میں بھرا ہوا “۔ عرب کہے گا : اَنَا عَطْشَانُ : میں پیاس سے مرا جا رہا ہوں۔ اَنَا جَوْعَانُ : میں بھوک سے مرا جا رہا ہوں۔ تو رحمن وہ ہستی ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہے۔- اور ” رَحِیْم “ فعیل کے وزن پر صفت مشبہّ ہے۔ جب کوئی صفت کسی کی ذات میں مستقل اور دائم ہوجائے تو وہ فعیل کے وزن پر آتی ہے۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ دونوں صفات اکٹھی ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند بھی ہے اور اس کی رحمت میں دوام بھی ہے ‘ وہ ایک دریا کی طرح مستقل رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ دونوں شانیں بیک وقت موجود ہیں۔ ہم اس کا کچھ اندازہ ایک مثال سے کرسکتے ہیں۔ فرض کیجیے کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور وہاں آپ دیکھیں کہ کوئی خاتون بےچاری مرگئی ہے اور اس کا دودھ پیتا بچہ اس کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ یہ بھی پتا نہیں ہے کہ وہ کون ہے ‘ کہاں سے آئی ہے ‘ کوئی اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر ہر شخص کا دل پسیج جائے گا اور ہر وہ شخص جس کی طبیعت کے اندر نیکی کا کچھ مادہ ہے ‘ چاہے گا کہ اس لاوارث بچے کی کفالت اور اس کی پرورش کی ذمہ داریّ میں اٹھا لوں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ جذبات کے جوش میں آپ یہ کام تو کر جائیں لیکن کچھ دنوں کے بعد آپ کو پچھتاوا لاحق ہوجائے کہ میں خواہ مخواہ یہ ذمہ داری لے بیٹھا اور میں نے ایک بوجھ اپنے اوپر ناحق طاری کرلیا۔ چناچہ ہمارے اندر رحم کا جو جذبہ ابھرتا ہے وہ جلد ہی ختم ہوجاتا ہے ‘ وہ مستقل اور دائم نہیں ہے ‘ جبکہ اللہ کی رحمت میں جوش بھی ہے اور دوام بھی ہے ‘ دونوں چیزیں بیک وقت موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْفَاتِحَة حاشیہ نمبر :4 انسان کا خاصہ ہے کہ جب کوئی چیز اس کی نگاہ میں بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ مبالغہ کے صیغوں میں اس کو بیان کرتا ہے ، اور اگر ایک مبالغہ کا لفظ بول کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس شے کی فراوانی کا حق ادا نہیں ہوا ، تو پھر وہ اسی معنی کا ایک اور لفظ بولتا ہے تاکہ وہ کمی پوری ہوجائے جو اس کے نزدیک مبالغہ میں رہ گئی ہے ۔ اللہ کی تعریف میں رحمن کا لفظ استعمال کرنے کے بعد پھر رحیم کا اضافہ کرنے میں بھی یہی نقطہ پوشیدہ ہے ۔ رحمان عربی زبان میں بڑے مبالغہ کا صیغہ ہے ۔ لیکن خدا کی رحمت اور مہر بانی اپنی مخلوق پر اتنی زیادہ ہے ، اس قدر وسیع ہے ، ایسی بے حد و حساب ہے کہ اس کے بیان میں بڑے سے بڑا مبالغہ کا لفظ بول کر بھی جی نہیں بھرتا ۔ اس لیے اس کی فراوانی کا حق ادا کرنے کے لیے پھر رحیم کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں سخی کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں تو اس پر داتا کا اضافہ کرتے ہیں ۔ رنگ کی تعریف میں جب گورے کو کافی نہیں پاتے تو اس پر چٹےّ کا لفظ اور بڑھا دیتے ہیں ۔ درازیِ قد کے ذکر میں جب لمبا کہنے سے تسلّی نہیں ہوتی تو اس کے بعد تڑنگا بھی کہتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani