[٣٧] دنیا کی اس فانی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کی ایک پائیدار اور لازوال زندگی بھی ہے جس کی زینت اور رعنائیاں اس دنیا سے بدرجہا زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اسی سلامتی کے گھر کی طرف بلارہا ہے جہاں کسی ارضی یا سماوی آفت کے آپڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں نہ ہی وہاں موت کا خطرہ ہے اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی بتلا رہا ہے۔ لہذا دنیا کی پرفریب اور فانی زندگی پر مفتون نہ ہوجاؤ بلکہ اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس ہر آفت سے محفوظ گھر کا قصد کرو جہاں فرشتے بھی تمہارے لیے سلامتی کی دعائیں کریں گے اور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی تحفہ سلام پہنچے گا۔
وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَار السَّلٰمِ ۔۔ : اوپر کی آیت میں دنیا اور اس کے بہت جلد زوال کا ذکر کرکے لوگوں کو اس کی طرف مائل ہونے سے نفرت دلائی، اب اس آیت میں جنت کی ترغیب دی اور جنت کا نام ” دار السلام “ رکھا۔ دیکھیے سورة انعام (١٢٥ تا ١٢٧) یعنی جو ہر قسم کے آفات و آلام سے پاک ہے اور اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے، فرشتے ہر طرف سے اس میں سلام کریں گے اور اہل جنت بھی ایک دوسرے کو سلام کا تحیہ پیش کریں گے، فرمایا : (تَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ) [ یونس : ١٠ ] ” اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی۔ “ رب رحیم کی طرف سے بھی سلام کی نعمت سے سرفراز ہوں گے، فرمایا : (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٥٨] ” سلام ہو، اس رب کی طرف سے کہا جائے گا جو بیحد مہربان ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے جنت کی دعوت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے دی ہے، چناچہ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبریل اور میکائیل نے آپس میں میرے لیے ایک مثال بیان کی کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک محل بنایا، پھر اس میں ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا اور لوگوں کو بلانے کے لیے ایک بلانے والا بھیجا، پس جس شخص نے اس بلانے والے کے کہنے کو قبول کیا وہ تو محل میں بھی داخل ہوگا اور کھانا بھی کھائے گا اور جو بلانے والے کے کہنے کو قبول نہیں کرے گا وہ نہ تو محل میں داخل ہوگا اور نہ کھانا کھائے گا، پھر انھوں نے کہا، اس کے لیے اس کی وضاحت کرو، تاکہ یہ سمجھ جائے تو ایک نے کہا کہ وہ محل جنت ہے اور اس کی طرف بلانے والے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، تو جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی، تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے (اچھے برے کے) درمیان فرق (کرنے والے) ہیں۔ [ بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٧٢٨١ ]
خلاصہ تفسیر - اور اللہ تعالیٰ دارالبقاء کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دے دیتا ہے ( جس سے دارالبقاء تک رسائی ہو سکتی ہے، آگے جزا و سزا کا بیان ہے کہ) جن لوگوں نے نیکی کی ہے ( یعنی ایمان لائے ہیں) ان کے واسطے خوبی ( یعنی جنت) ہے اور مزید براں ( خدا کا دیدار) بھی اور ان کے چہروں پر نہ کدورت ( غم کی) چھاوے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور جن لوگوں نے بد کام کئے ( یعنی کفر و شرک کیا) ان کی بدی کی سزا اس کے برابر ملے گی ( بدی سے زیادہ نہ ہوگی) اور ان کو ذلت چھا لے گی، ان کو اللہ ( کے عذاب) سے کوئی نہ بچا سکے گا ( ان کی کدورت چہرہ کی ایسی حالت ہوگی کہ) گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت ( یعنی ٹکڑے) لپیٹ دیئے گئے ہیں، یہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب ( خلائق) کو ( میدان قیامت میں) جمع کریں گے پھر ( منجملہ ان تمام خلائق کے) مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے ( تجویز کئے ہوئے) شریک ( جن کو تم عبادت میں خدا کا شریک ٹھہراتے تھے ذرا) اپنی جگہ ٹھہرو ( تاکہ تم کو حقیقت تمہارے عقیدہ کی معلوم کرائی جاوے) پھر ہم ان ( عابدین و معبودین) کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وہ شرکاء ( ان سے خطاب کرکے) کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ( کیونکہ عبادت سے مقصود ہوتا ہے معبود کا راضی کرنا) سو ہمارے تمہارے درمیان خدا کافی گواہ ہے کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی ( اور راضی ہونا تو درکنار البتہ شیاطین کی تعلیم تھی اور وہی راضی تھے، پس اس اعتبار سے ان کی پرستش کرتے تھے) اس مقام پر ہر شخص اپنے کئے ہوئے کا امتحان کرلے گا ( کہ آیا واقع میں یہ اعمال نافع تھے یا غیر نافع، چناچہ ان مشرکین کو بھی حقیقت کھل جاوے گی کہ جن کی شفاعت کے بھروسے ہم ان کو پوجتے تھے انہوں نے اور ہمارے خلاف شہادت دی، نفع کی تو کیا امید کی جاوے) اور یہ لوگ اللہ ( کے عذاب) کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جاویں گے، اور جو کچھ معبود تراش رکھے تھے سب ان سے غائب ( اور گم) ہوجاویں گے ( کوئی بھی تو کام نہ آوے گا) آپ ( ان مشرکین سے) کہئے کہ ( بتلاؤ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے ( یعنی آسمان سے بارش کرتا ہے اور زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے جس سے تمہارا رزق تیار ہوتا ہے) یا ( یہ بتلاؤ کہ) وہ کون ہے جو ( تمہارے) کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے ( کہ پیدا بھی اسی نے کیا، حفاظت بھی وہی کرتا ہے اور اگر چاہتا ہے تو ان کو معاف کردیتا ہے) اور وہ کون ہے جو جاندار ( چیز) کو بےجان ( چیز) سے نکالتا ہے اور بےجان ( چیز) کو جاندار ( چیز) سے نکالتا ہے ( جیسے نطفہ اور بیضہ کہ وہ جاندار سے نکلتا ہے اور اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے) اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ( ان سے سوالات کیجئے) سو ضرور وہ ( جواب میں) یہی کہیں گے کہ ( ان سب افعال کا فاعل) اللہ ( ہے) تو ان سے کہئے کہ پھر ( شرک سے) کیوں نہیں پرہیز کرتے سو ( جس کے یہ افعال و اوصاف مذکور ہوئے) یہ ہے اللہ جو تمہارا رب حقیقی ہے ( اور جب امر حق ثابت ہوگیا) پھر ( امر) حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے ( یعنی جو امر حق کی ضد ہوگی وہ گمراہی ہے اور توحید کا حق ہونا ثابت ہوگیا، پس شرک یقینا گمراہی ہے) پھر ( حق کو چھوڑ کر) کہاں ( باطل کی طرف) پھرے جاتے ہو۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں دنیاوی زندگی اور اس کی ناپائیداری کی مثال اس کھیتی سے دی گئی تھی جو آسمانی پانی سے سیراب ہو کر لہلہانے لگی اور ہر طرح کے پھل پھول نکل آئے اور کھیتی والے خوش ہونے لگے کہ اب ہماری ساری ضرورتیں اس سے پوری ہوں گی، مگر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے رات یا دن میں ہمارے عذاب کا کوئی حادثہ آپڑا جس نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا یہاں کوئی چیز موجود ہی نہ تھی، یہ تو دنیا کی زندگی کا حال تھا، اس کے بعد آیت مذکورہ میں اس کے بالمقابل دار آخرت کا حال بیان کیا گیا ہے۔- ارشاد فرمایا : (آیت) وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَار السَّلٰمِ ، یعنی اللہ تعالیٰ انسان کو دارالسلام کی طرف دعوت دیتا ہے یعنی ایسے گھر کی طرف جس میں ہر طرح کی سلامتی ہی سلامتی ہے نہ اس میں کسی طرح کی کوئی تکلیف ہے نہ رنج و غم، نہ بیماری کا خطرہ، نہ فنا ہونے یا حالت بدل جانے کی فکر۔- دارالسلام سے مراد جنت ہے، اس کو دارالسلام کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں ہر طرح کی سلامتی اور امن و سکون ہر شخص کو حاصل ہوگا، دوسری وجہ بعض روایات میں ہے کہ جنت کا نام دارالسلام اس لئے بھی رکھا گیا ہے کہ اس میں بسنے والوں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیز فرشتوں کی طرف سے سلام پہنچتا رہے گا، بلکہ لفظ سلام ہی اہل جنت کی اصطلاح ہوگی، جس کے ذریعہ وہ اپنی خواہشات کا اظہار کریں گے اور فرشتے ان کو مہیا کریں گے، جیسا کہ اس سے پہلی آیات میں گزر چکا ہے۔- حضرت یحییٰ بن معاذ نے اس آیت کی تفسیر میں بطور نصیحت عوام کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹے تجھ کو اللہ تعالیٰ نے دارالسلام کی طرف بلایا، تو اس دعوت الہٰیہ کی طرف کب اور کہاں سے قدم اٹھائے گا، خوب سمجھ لے کہ اس دعوت کو قبول کرنے کے لئے اگر تو نے دنیا ہی سے کوشش شروع کردی تو وہ کامیاب ہوگی اور تو دارالسلام میں پہنچ جائے گا اور اگر تو نے اس دنیا کی عمر کو ضائع کرنے کے بعد یہ چاہا کہ قبر میں پہنچ کر اس دعوت کی طرف چلوں گا تو تیرا راستہ روک دیا جائے گا، تو وہاں ایک قدم آگے نہ بڑھ سکے گا، کیونکہ وہ دارالعمل نہیں۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ دارالسلام جنت کے سات ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ( تفسیر قرطبی ) ۔- اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی گھر کا نام دارالسلام رکھنا مناسب نہیں، جیسے جنت یا فردوس وغیرہ نام رکھنا بھی درست نہیں۔- اس کے بعد آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا (آیت) وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ، یعنی پہنچا دیتا ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھے راستہ پر۔
وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ ٠ ۭ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ٢٥- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سداھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
(٢٥) اور اللہ تعالیٰ مخلوق کو توحید کے ذریعے دارالبقاء کی طرف بلاتا ہے، سلام اللہ تعالیٰ کا نام اور جنت اس کا گھر ہے اور جسے چاہتا ہے، دین مستقیم یعنی دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :32 یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کی طرف جو آخرت کی زندگی میں تم کو دارالسلام کا مستحق بنائے ۔ دارالسلام سے مراد ہے جنت اور اس کے معنی ہیں سلامتی کا گھر ، وہ جگہ جہاں کوئی آفت ، کوئی نقصان ، کوئی رنج اور کوئی تکلیف نہ ہو ۔
13: سلامتی کے گھر سے مراد جنت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت توتمام انسانوں کے لئے عام ہے کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے جنت حاصل کریں لیکن اس تک پہنچنے کا جو سیدھا راستہ ہے، اس تک اللہ تعالیٰ اسی کو پہنچاتا ہے جسے وہ اپنی حکمت سے چاہتا ہے اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اسی کو پہنچایا جائے جو اپنے اختیار اور ہمت کو کام میں لاکر جنت کی ضروری شرائط پوری کرے۔