میدان حشر میں سبھی موجود ہوں گے مومن ، کافر ، نیک ، بد ، جن انسان ، سب میدان قیامت میں اللہ کے سامنے جمع ہونگے ۔ سب کا حشر ہوگا ، ایک بھی باقی نہ رہے گا ۔ پھر مشرکوں اور ان کے شریکوں کو الگ کھڑا کر دیا جائے گا ۔ ان مجرموں کی جماعت مومنوں سے الگ ہو جائے گی ، سب جدا جدا گروہ میں بٹ جائیں گے ایک سے ایک الگ ہو جائے گا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ خود فیصلوں کے لیے تشریف لائے گا ۔ مومن سفارش کر کے اللہ کو لائیں گے کہ وہ فیصلے فرما دے ۔ یہ امت ایک اونچے ٹیلے پر ہوگی ، مشرکین کے شرکا اپنے عابدوں سے بےزاری ظاہر کریں گے اسی طرح خود مشرکین بھی ان سے انجان ہو جائیں گے ۔ سب ایک دوسرے انجان بن جائیں گے ۔ اب بتلاؤ ان مشرکوں سے بھی زیادہ کوئی بہکا ہوا ہے کہ انہیں پکارتے رہے جو آج تک ان کی پکار سے بھی غافل رہے اور آج ان کے دشمن بن کر مقابلے پر آگئے ۔ صاف کہا کہ تم نے ہماری عبادت نہیں کی ۔ ہمیں کچھ خبر نہیں ہماری تمہاری عبادتوں سے بالکل غافل رہے ۔ اسے اللہ خوب جانتا ہے ، نہ ہم نے اپنی عبادت کو تم سے کہا تھا نہ ہم اس سے کبھی خوش رہے ۔ تم اندھی ، نہ سنتی ، بیکار چیزوں کو پوجتے رہے جو خود ہی بےخبر تھے نہ وہ اس سے خوش نہ ان کا یہ حکم ۔ بلکہ تمہاری پوری حاجت مندی کے وقت تمہارے شرک کے منکر ، تمہاری عبادتوں کے منکر بلکہ تمہارے دشمن تھے ۔ اس حی و قیوم ، سمیع و بصیر ، قادر و مالک وحدہ لاشریک کو تم نے چھوڑ دیا جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ تھا ۔ جس نے رسول بھیج کر تمہیں توحید سکھائی اور سنائی تھی سب رسولوں کی زبانی کہلوایا تھا کہ میں ہی معبود ہوں میری ہی عبادت و اطاعت کرو ۔ سوائے میرے کوئی پوجا کے لائق نہیں ۔ ہر قسم کے شرک سے بچو ۔ کبھی کسی طرح بھی مشرک نہ بنو ۔ وہاں ہر شخص اپنے اعمال دیکھ لے گا ۔ اپنی بھلائی برائی معلوم کر لے گا ۔ نیک و بد سامنے آجائے گا ۔ اسرار بے نقاب ہوں گے ، کھل پڑیں گے ، اگلے پچھلے چھوٹے بڑے کام سامنے ہوں گے ۔ نامہ اعمال کھلے ہوئے ہوں گے ، ترازو چڑھی ہوئی ہوگی ۔ آپ اپنا حساب کر لے گا ۔ تبلوا کی دوسری قرات تتلوا بھی ہے ۔ اپنے اپنے کرتوت کے پیچھے ہر شخص ہوگا ۔ حدیث میں ہے ہر امت کو حکم ہوگا کہ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چل کھڑی ہو جائے ۔ سورج پرست سب سورج کے پیچھے ہوں گے ، چاند پرست چاند کے پیچھے ، بت پرست بتوں کے پیچھے ۔ سارے کے سارے حق تعالیٰ مولائے برحق کی طرف لوٹائے جائیں گے تمام کاموں کے فیصلے اس کے ہاتھ ہوں گے ۔ اپنے فضل سے نیکوں کو جنت میں اور اپنے عدل سے بدوں کو جہنم میں لے جائے گا ۔ مشرکوں کی ساری افرا پردازیاں رکھی کی رکھی رہ جائیں گی ، بھرم کھل جائیں گے ، پردے اٹھ جائیں گے ۔
28۔ 1 جَمَیْعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالیٰ جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا ( ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا) 18 ۔ الکہف :47) ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ 28۔ 2 ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کردیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کردیا جائے گا جیسے فرمایا (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ) 36 ۔ یس :59) اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے یعنی دو گروہوں میں (ابن کثیر) 28۔ 3 یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کردیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔
[٤١] زَیّل کے معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر اس طرح الگ کردینا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممیز ہوسکے یعنی میدان محشر میں پہلے تو ہم مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو کہیں گے کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو پھر عبادت کرنے والوں کو الگ اور معبودوں کو الگ ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کریں گے تاکہ ایک دوسرے کو روبرو ہو کر سوال و جواب کرسکیں۔- [٤٢] ان میں وہ سب اشیاء شامل ہیں جن کی دنیا میں پوجا کی جاتی رہی ہے اس میں شجر و حجر بھی شامل ہیں۔ مویشی بھی، جیسے گائے بیل، فرشتے بھی، انبیاء بھی جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) اور بزرگان دین اور مشائخ اور پیران طریقت بھی۔ دیوی دیوتا اور ان کے مجسمے بھی۔ غرض جس جس چیز کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت کی جاتی رہی ہے سب کو وہاں اکٹھا کیا جائے گا۔- [٤٣] اہل قبور پکارنے والوں کی پکار نہیں سنتے :۔ معبودوں میں کچھ ایسی اشیاء ہیں جو بےجان ہیں جیسے پتھر کے بت اور کچھ بےزبان جیسے سورج، چاند ستارے، سانپ اور بیل وغیرہ ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ قوت گویائی عطا کر دے گا اور وہ اپنے عبادت گزاروں کے سامنے ان کی عبادت کا انکار کردیں گے کیونکہ ان میں نہ جان ہوتی ہے نہ عقل۔ وہ کیا جانیں کہ عبادت کیا ہے اور شرک کیا ؟ لہذا وہ مکمل لاعلمی ظاہر کرنے میں فی الواقع حق بجانب ہوں گے رہے وہ معبود جو ذوی العقول سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً فرشتے، انبیاء اور اولیاء جن کی غیر موجودگی میں ان کی عبادت کی جاتی رہی تھی ان کے انکار سے سماع موتیٰ کا ایک اہم مسئلہ حل ہوجاتا ہے جو اکثر مقامات پر شرک کی بنیاد بنا ہوا ہے ؟ قبر پرستی کا رواج محض اس غلط عقیدہ کی وجہ سے پڑگیا ہے کہ مردے سنتے ہیں اس آیت اور بعض دوسری آیات میں واضح طور پر اس کی تردید کی گئی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ
وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا : اس آیت میں بھی کفار کی ایک رسوائی بیان کی گئی ہے کہ جس دن ہم شروع سے آخر تک کے تمام جن و انس، مسلم و کافر اور نیک و بد کو اکٹھا کریں گے (دیکھیے کہف : ٤٧۔ مریم : ٩٣، ٩٤) اس دن شرک کرنے والوں اور جنھیں وہ شریک بناتے رہے ان سب کو بھی اکٹھا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی عظمت و رفعت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے سے کیا ہے کہ ” ہم “ جمع کریں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے واحد، احد ہونے میں کیا شک ہے، پورا قرآن ہی یہ سمجھانے کے لیے نازل ہوا کہ وہ ذات پاک وحدہ لا شریک لہ ہے۔ - ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا۔۔ : پھر ہم شرک کرنے والوں سے کہیں گے کہ تم اور جنھیں تم نے شریک بنایا تھا اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تاکہ تمہارے لیے تمہارے شرک اور شرکاء کی حقیقت واضح ہوجائے۔ - فَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان علیحدگی کرنے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ مسلم و کافر الگ الگ کردیے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٥٩ ] ” اور الگ ہوجاؤ آج اے مجرمو “ اور دیکھیے سورة روم (١٤ تا ١٦، ٤٣) اور ایک مطلب یہ ہے کہ شرک کرنے والوں کو اور ان کے قرار دیے گئے شرکاء کو اپنی اپنی جگہ ٹھہرنے کا حکم دے کر ان کی گفتگو کروائی جائے گی۔ مشرک ان سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہاری عبادت کرتے رہے، مشکل کے وقت پکارتے رہے، اپنے نفع نقصان کا مالک سمجھتے رہے، قیامت کے دن تمہاری پناہ میں آ کر عذاب سے بچانے کی درخواست کرتے رہے۔ - وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ : وہ شرکاء کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے، معلوم نہیں کس کی عبادت کرتے رہے ہو ؟ دنیا میں جن لوگوں کی پرستش کی گئی ان میں سے کچھ وہ تھے جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے، جیسے فرعون، ابلیس وغیرہ اور کچھ وہ تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے، بلکہ اللہ کا شریک کسی کو بھی بنانے سے منع کرتے تھے، جیسے انبیاء و صالحین۔ اب جب اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا، تو وہ سب لوگ جن کی عبادت اور پرستش کی گئی اپنے پرستش کرنے والوں سے صاف لاتعلق ہوجائیں گے، جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے وہ بھی، جیسا کہ سورة بقرہ (١٦٥ تا ١٦٧) میں مذکور ہے اور وہ بھی جو غیر اللہ کی پرستش سے منع کرتے تھے، جیسا کہ مسیح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء و صلحاء۔ ان سب کی اپنی عبادت کرنے والوں سے اور پوجنے پکارنے والوں سے صاف بری اور لاتعلق ہونے کی کئی وجہیں ہوں گی، جن میں سے پہلی وجہ تو یہ ہوگی کہ یہ مشرک تو اللہ کے سوا کسی اور کو بھی عالم الغیب، ان کے حالات سے واقف اور ان کی فریاد سننے والا سمجھتے رہے اور یہ سمجھ کر دن رات یا علی یا حسن یا حسین یا دستگیر یا داتا یا شکر گنج وغیرہ پکارتے رہے، جب کہ ان حضرات کو کچھ خبر ہی نہ تھی کہ کوئی ہمیں پکار رہا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۗءً وَّكَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ ) [ الأحقاف : ٥، ٦ ] ” اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔ “- دوسری وجہ یہ کہ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے، جب کہ قرآن اترا ہی یہ بتانے کے لیے ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، مثلاً دیکھیے سورة یونس ( ١٠٦، ١٠٧) ، زمر (٣٨) ، مومنون (٨٦ تا ٨٩) ، جن (٢١) اور بہت سی دیگر آیات۔ اس لیے تمام شرکاء کہیں گے کہ ہمارا اختیار ہی کچھ نہ تھا، معلوم نہیں تم کسے پکارتے تھے، بہرحال ہمیں تو نہیں پکارتے تھے۔ تیسری وجہ یہ کہ مشرک لوگ حقیقت میں صرف اپنے وہم و گمان کے بنائے ہوئے مشکل کشاؤں کی پرستش کرتے رہے، جب کہ وہ سب لوگ جن کو یہ پکارتے رہے، ایک بھی نہ اللہ کا شریک تھا نہ کسی اختیار کا مالک۔ اب اپنے گمان کی پوجا کرکے ان کے نام لگانے پر ان کو غصہ آئے گا۔ دیکھیے سورة یونس (٦٦) چوتھی وجہ یہ ہوگی کہ ان ظالموں کے شرک کی وجہ سے ان انبیاء اور صالحین کی قیامت کے دن اللہ کے دربار میں پیشی پڑجائے گی اور ان سے باز پرس ہوگی اور وہ اپنی صفائی اور لاعلمی کا عذر پیش کریں گے، تو ان کے شرک کی وجہ سے، سوال کی وجہ سے جو ان کے دل پر گزرے گی اور پیشی پڑنے پر جو فکر مندی ہوگی ہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ اس کی وجہ سے وہ ان سے کس قدر بےزار اور ان کے کتنے زبردست دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورة مائدہ (١١٦ تا ١١٨) رہے وہ بادشاہ اور پیر اور شیطان جو اپنی پرستش کروانا چاہتے تھے اور ان کو شرک پر لگانے والے تھے، وہ خود اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے، وہ ان کے قابو کہاں آئیں گے، حتیٰ کہ شیطان بھی کہے گا کہ میں نے تم پر کوئی فوج بھیجی تھی ؟ محض تمہیں دعوت دی تھی، تم نہ مانتے، اب نہ میں کسی طرح تمہاری مدد کرسکتا ہوں نہ تم میری۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٢١، ٢٢) ۔- اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ شرک صرف پتھر کے بتوں یا قبروں کو پکارنے ہی کا نام نہیں بلکہ ان شخصیتوں کو پکارنا ہے جن کے وہ بت ہیں یا قبریں ہیں، ورنہ بت بنانے کی ضرورت کیا تھی، کسی بھی پتھر کو پوج لیتے، بت اور قبر کی نیاز اور سجدے کا صاف مطلب ان شخصیتوں کی پرستش ہے جن کے وہ بت یا قبریں ہیں۔ دیکھیے سورة نوح کی آیت (٢٣) کی تفسیر۔
وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ ٠ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ ٢٨- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- ( زيّلنا)- ، قيل فيه إعلال بالقلب، مجرّده زال يزول، وأصله زيولنا .. فلمّا اجتمعت الیاء والواو وکانت الأولی منهما ساکنة قلبت الواو ياء وأدغمت مع الیاء الثانية وزنه فيعلنا .. وقیل إن مجرّدة زال يزيل، يقال زلت الشیء عن مکانه أزيله، وعلی ذلک فلیس فيه إعلال، وزنه فعّل بالتضعیف للتکثير لا للتعدية، وهذا هو الأظهر .- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔
(٢٨) اور جس روز ہم ان کافروں اور ان کے تمام معبودوں کو جمع کریں گے اور ان لوگوں سے جنہوں نے بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا تھا کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود اپنی جگہ پر ٹھہرو، پھر ہم ان کے اور ان کے معبودوں کے درمیان پھوٹ ڈال دیں گے۔- تب کافر کہیں گے کہ انہوں نے ہمیں اس کا حکم دیا تھا کہ آپ کو چھوڑ کر ان کی ہم عبادت کریں اور ان کے معبود ان کی تردید کرکے کہیں گے کہ کیا تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، کفار ان کے جواب میں کہیں گے بیشک تم نے ہمیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا ،
آیت ٢٨ (وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَآؤُکُمْ ) - یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لات ‘ منات ‘ عزیٰ وغیرہ کی بات نہیں ہو رہی جن کے بارے میں کسی کو پتا نہیں کہ ان کی اصل کیا تھی ‘ بلکہ یہ اولیاء اللہ ‘ نیک اور برگزیدہ بندوں کی بات ہو رہی ہے جن کے ناموں پر مورتیاں اور بت بنا کر ان کی پوجا کی گئی ہوگی۔ جیسے قوم نوح ( علیہ السلام) نے ودّ ‘ سواع اور یغوث وغیرہ اولیاء اللہ کی پوجا کے لیے ان کے بت بنا رکھے تھے ( اس بارے میں تفصیل سورة نوح میں آئے گی) ۔ ہمارے ہاں صرف یہ فرق ہے کہ بت نہیں بنائے جاتے ‘ قبریں پوجی جاتی ہیں۔ - اس سلسلے میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے خطاب کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ کے آخری رکوع میں دیکھ آئے ہیں۔ اس لیے یہاں یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ایسے بلند مرتبہ لوگوں کو اس طرح کا حکم کیونکر دیا جائے گا کہ ٹھہرے رہو اپنی جگہ پر تم بھی اور تمہارے شریک بھی بہر حال اللہ تعالیٰ کی شان بہت بلند ہے ‘ جبکہ ایک بندہ تو بندہ ہی ہے ‘ چاہے جتنی بھی ترقی کرلے : اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلَ ۔ وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی - (فَزَیَّلْنَا بَیْنَہُمْ وَقَالَ شُرَکَآؤُہُمْ مَّا کُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ )- وہ نیک لوگ جنہیں اللہ کا شریک بنایا گیا وہ اس شرک سے بری ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے تو اپنی زندگیاں اللہ کی اطاعت میں گزاری تھیں۔ جیسے البقرۃ : ١٣٤ میں بہت واضح انداز میں فرمایا گیا ہے : (تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْج لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج) ” وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی ‘ ان کے لیے ہے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لیے ہے جو تم نے کمایا “۔ اگر کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی کو پکارتا ہے یا کسی مزار پر جا کر مشرکانہ حرکتیں کرتا ہے تو اس کا وبال صاحب مزار پر قطعاً نہیں ہوگا۔ ان پر تو الٹا ظلم ہو رہا ہے کہ انہیں اللہ کے ساتھ شرک میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ چناچہ اللہ کے وہ نیک بندے اللہ کے ہاں ان شرک کرنے والوں کے خلاف استغاثہ کریں گے ‘ کہ وہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتے تھے اور ان کے ناموں کی دہائیاں دیتے تھے۔ وہ ان شرک کرنے والوں سے کہیں گے :
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :36 متن میں فَزَیَّلْنَا بَیْنَھُمْ کے الفاظ ہیں ۔ اس کا مفہوم بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ ہم ان کا باہمی ربط و تعلق توڑ دیں گے تا کہ کسی تعلق کی بنا پر وہ ایک دوسرے کا لحاظ نہ کریں ۔ لیکن یہ معنی عربی محاورے کے مطابق نہیں ہیں ۔ محاورہ عرب کی رو سے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان تمیز پیدا کر دیں گے ، یا ان کو ایک دوسرے سے ممیز کر دیں گے ۔ اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے ہم نے یہ طرز بیان اختیار کیا ہے کہ” ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے“ یعنی مشرکین اور ان کے معبود آمنے سامنے کھڑے ہوں گے اور دونوں گروہوں کی امتیازی حیثیت ایک دوسرے پر واضح ہوگی ، مشرکین جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جن کو ہم دنیا میں معبود بنائے ہوئے تھے ، اور ان کے معبود جان لیں گے کہ یہ ہیں وہ جنہوں نے ہمیں اپنا معبود بنا رکھا تھا ۔
16: جن بتوں کو انہوں نے خدا مان رکھا تھا وہ توبے جان تھے، اس لئے انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، اس لئے جب اللہ تعالیٰ ان کو زبان عطا فرمائیں گے تو شروع میں تو وہ صاف انکار کردیں گے کہ یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، پھر جب بعد میں انہیں پتہ چلے گا کہ واقعی ان کی عبادت کرتے تھے تو وہ کہیں گے کہ اگر کرتے بھی تھے تو ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا۔