Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ مشرکین کے عذاب الٰہی مانگنے پر کہا جا رہا ہے کہ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ کہ میں کسی دوسرے کو نقصان یا نفع پہنچا سکوں، ہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مشیت کے مطابق ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اس وقت تک مہلت دیتا ہے۔ لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ایک گھڑی پیچھے ہوسکتے ہیں نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ تنبیہ : یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب افضل الخلائق سید الرسل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں، تو آپ کے بعد انسانوں میں اور کون سی ہستی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجت برآری اور مشکل کشائی پر قادر ہو ؟ اسی طرح خود اللہ کے پیغمبر سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا " یا رسول اللہ مدد " اور اغثنی یارسول اللہ " وغیرہ الفاظ سے استغاثہ واستعانت کرنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی اس آیت اور اس قسم کی دیگر واضح تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ شرک کے ذیل میں آتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ : یعنی یہ تعیین میرے اختیار میں نہیں، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ہر امت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقرر ہے، جب وہ آجائے گا پھر ایک لمحے کا آگا پیچھا نہیں ہوگا۔ - قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ۔۔ : یعنی تمہاری موت کا وقت یا عذاب آنے کا وقت سب اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے، جب چاہے گا تم پر عذاب بھیجے گا اور جب تک نہیں چاہے گا نہیں بھیجے گا۔ رہا تمہارا مجھ سے اصرار تو میں تمہیں کیا بتاؤں، میں تو خود اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے، میرے اختیار میں ہوتا تو تم پر کبھی کا عذاب آچکا ہوتا۔ دیکھیے سورة انعام (٥٧، ٥٨) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کو سخت تنبیہ ہے جو مصیبتوں اور مشکل کی گھڑیوں میں، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدد طلب کرتے ہیں، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی چیزیں چاہتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ یہ مقام صرف رب العالمین کا ہے جس نے تمام انبیاء، صالحین اور مخلوقات کو پیدا فرمایا، وہی انھیں روزی اور زندگی بخشتا ہے اور جب چاہتا ہے اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے، پھر کسی نبی یا فرشتے یا کسی نیک سے نیک بندے سے کسی ایسی چیز کی درخواست کیونکر کی جاسکتی ہے جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہیں ؟ اس آیت میں نصیحت کا خاص پہلو یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو تمام بنی آدم کے سردار اور تمام انبیاء سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے کسی نقصان یا نفع کا مالک نہ ہونے کی صراحت فرما دی ہے تو کوئی ولی یا امام یا پیر اپنے یا کسی دوسرے کے نفع نقصان کا مالک کیونکر ہوسکتا ہے ؟ سخت تعجب کا مقام ہے کہ پھر بھی کچھ لوگ، جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں، مردوں کی قبروں پر جھکتے اور ان سے ایسی ایسی مرادیں طلب کرتے ہیں جنھیں پورا کرنے کی قدرت اللہ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ یہ صریحاً شرک اور کلمہ ” لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ “ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور اس سے بڑھ کر افسوس ان کے علماء و مشائخ پر ہے جو انھیں اس کام سے منع نہیں کرتے۔ یہ وہی جاہلیت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عربوں میں پائی جاتی تھی، بلکہ اس کا معاملہ اس جاہلیت سے بھی زیادہ سخت ہے، کیونکہ عرب مشرکین نفع نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھتے تھے اور بتوں کو صرف اپنا سفارشی خیال کرتے تھے، مگر یہ لوگ تو قبروں والوں کو نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو علیحدہ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اس امت میں کتنے ہی لوگ ہیں جنھیں شیطان مردود نے اس ذریعے سے کفر کی راہ پر ڈال دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہوئے اس پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ (اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا) [ الکہف : ١٠٤ ] ” وہ بڑا نیک کام کر رہے ہیں۔ “ [ فَإنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت فرمائے۔ آمین (مختصر از شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ لِكُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ۝ ٠ ۭ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۝ ٤٩- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، وذلک لقوله : لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر 16]- ( م ل ک ) الملک - ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ جسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر 16] آج کسی کی بادشاہت ہے ۔ خدا کی کو اکیلا ادر غالب ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- لا یستاخرون - ۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ وہ دیر نہیں کرسکتے۔ وہ تاخیر نہیں کرسکتے۔ استساخر یستاخر استئخار ( استفعال) اخر مادہ۔ لا یستقدمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ استقدام ( استفعال) مصدر وہ اول نہیں ہوسکتے۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وہ تقدم ( تاخیر کی ضد ) نہیں کرسکتے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٩) سو آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کے حاصل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اختیار نفع حاصل کرنے اور ضرر کے دور کرنے کا اللہ کو منظور ہے۔- ہر ایک دین والوں کے لیے ایک وقت مقررہ اور مہلت ہے سو جب ان کی ہلاکت کا وہ وقت آپہنچتا ہے تو اس وقت ایک گھڑی بھی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ط) - جیسے ہر امت کے لیے ایک رسول ( علیہ السلام) ہے ‘ اسی طرح ہر امت کے لیے اس کی اجل (مہلت کی مدت) بھی مقرر کردی گئی ہے۔ اللہ کی مشیت اور حکمت کے مطابق ان کے لیے مقرر کردہ وقت بہر حال پورا ہو کر رہتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :57 یعنی میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ فیصلہ میں چکاؤں گا اور نہ ماننے والوں کو میں عذاب دوں گا ۔ اس لیے مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ فیصلہ چکائے جانے کی دھمکی کب پوری ہوگی ۔ دھمکی تو اللہ نے دی ہے ، وہی فیصلہ چکائے گا اور اسی کے اختیار میں ہے کہ فیصلہ کب کرے اور کس صورت میں اس کو تمہارے سامنے لائے ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :58 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی جلد باز نہیں ہے ۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت رسول کی دعوت کسی شخص یا گروہ کو پہنچی اسی وقت جو ایمان لے آیا بس وہ تو رحمت کا مستحق قرار پایا اور جس کسی نے اس کو ماننے سے انکار کیا یا ماننے میں تامل کیا اس پر فورا عذاب کا فیصلہ نافذ کر دیا گیا ۔ اللہ کا قاعدہ یہ ہے کہ اپنا پیغام پہنچانے کے بعد وہ ہر فرد کو اس کی انفرادی حیثیت کے مطابق ، اور ہر گروہ اور قوم کو اس کی اجتماعی حیثیت کے مطابق ، سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی وقت دیتا ہے ۔ یہ مہلت کا زمانہ بسا اوقات صدیوں تک دراز ہوتا ہے اور اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی مہلت ملنی چاہیے ۔ پھر جب وہ مہلت ، جو سراسر انصاف کے ساتھ اس کے لیے رکھی گئی تھی ، پوری ہو جاتی ہے اور وہ شخص یا گروہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہیں آتا ، تب اللہ تعالی اس پر اپنا فیصلہ نافذ کرتا ہے ۔ یہ فیصلے کا وقت اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت سے نہ ایک گھڑی پہلے آسکتا ہے اور نہ وقت آجانے کے بعد ایک لمحہ کے لیے ٹل سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani