Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 لیکن عذاب آنے کے بعد ماننے کا کیا فائدہ ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی ان کا عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ اس لیے ہے کہ انھیں ہرگز اس کا یقین نہیں ہے اور ان کا یہ تقاضا محض جھٹلانے اور مذاق اڑانے کی نیت سے تھا اور انھیں یقین اسی وقت آئے گا جب فی الواقع ان پر عذاب آپڑے گا لیکن اس وقت یقین آنا یا اللہ کی آیات پر ایمان لانا بےسود ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۔۔ : یعنی کیا جوں ہی وہ عذاب آگیا تو فوراً ایمان لے آؤ گے ؟ ہاں، بیشک اس وقت ایمان لے آؤ گے مگر عذاب آنے پر ایمان کب قبول ہوگا۔ دیکھیے سورة مومن (٨٤، ٨٥) ، یونس (٩٠، ٩١) اور نساء (١٨) اس لیے تمہارا پہلے ایمان لانے کے بجائے پہلے عذاب کی جلدی مچانا بےکار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ ۭ اٰۗلْــٰٔنَ : یعنی کیا تم ایمان اس وقت لاؤ گے جب تم پر عذاب واقع ہوجائے گا خواہ موت کے وقت یا اس سے پہلے ہی، مگر اس وقت تمہارے ایمان کے جواب میں یہ کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ کیا اب ایمان لائے ہو، جب کہ ایمان کا وقت گزر چکا، جیسے غرق ہونے کے وقت فرعون نے جب کہا (آیت) اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ، جواب میں کہا جائے گا اٰۗلْــٰٔنَ ، اور اس کا یہ ایمان قبول نہیں کیا گیا، کیونکہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ موت میں گرفتار نہ ہوجائے یعنی غرغرہ موت کے وقت کا ایمان اور توبہ اللہ کے نزدیک معتبر نہیں، اسی طرح دنیا میں وقوع عذاب سے پہلے پہلے توبہ قبول ہوسکتی ہے، جب عذاب آپڑے پھر توبہ قبول نہیں ہوتی، آخر سورت میں قوم یونس (علیہ السلام) کا جو واقعہ آرہا ہے کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، وہ اسی ضابطے کے ما تحت ہے کہ انہوں نے عذاب کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر سچے دل سے الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی اس لئے عذاب ہٹا لیا گیا، اگر عذاب ان پر واقع ہوجاتا پھر توبہ قبول نہ ہوتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ۝ ٠ ۭ اٰۗلْــٰٔنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝ ٥١- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١) کہ اب تو جھٹلا رہے ہو اور جس وقت تم پر وہ عذاب آئے گا، تب تصدیق کرو گے، اس پر بھی وہ ہاں کہیں تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ نزول عذاب کے وقت تم سے کہا جائے گا ہاں اب عذاب کے خوف سے ایمان لاتے ہو حالانکہ پہلے سے تم بطور مذاق اور تکذیب کے اس کی جلدی مچایا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖط ا آ لْءٰنَ وَقَدْکُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ )- عذاب جب واقعتا ظاہر ہوجائے گا تو اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani