54۔ 1 یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کے لئے آمادہ ہوگا۔ لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔
[٦٩] فدیہ میں سارے جہان کی مال ودولت :۔ یعنی آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا نہ قرابت اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں مال و دولت کا ذکر بفرض تسلیم ہے یعنی اگر کسی مجرم کے پاس آخرت کو دنیا بھر کے خزانے اور مال و دولت موجود ہوں تو وہ یہ سب کچھ دے دلا کر عذاب سے اپنی جان چھڑا لے مگر یہ بات وہاں ناممکن ہوگی چناچہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات (یعنی توحید) پر قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب الکفار)- [٧٠] ندامت کو اس لیے چھپائیں گے کہ انہوں نے غلط راستہ لاعلمی یا جہالت کی بنا پر نہیں بلکہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر اختیار کیا تھا لیکن اس ندامت کو چھپانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ : یعنی جس عذاب کا وہ ساری عمر مذاق اڑاتے رہے جب وہ ان کی توقع کے بالکل خلاف یکایک سامنے آجائے گا تو ان کی عجیب کیفیت ہوگی، ایک طرف وہ سخت شرمندہ ہوں گے اور ان کے ضمیر انھیں کوس رہے ہوں گے، لیکن دوسری طرف وہ اپنی شرمندگی کو اپنے ساتھیوں اور ماننے والوں سے چھپانا بھی چاہیں گے کہ کہیں وہ ملامت نہ کریں، اس لیے دل ہی دل میں شرمندہ ہوں گے اور بظاہر مطمئن بننے کی کوشش کریں گے۔ قاموس میں لکھا ہے کہ ” اَسَرَّہُ “ اضداد میں سے ہے، اس کا معنی چھپانا بھی ہے اور ظاہر کرنا بھی۔ دوسرا معنی یہ بنے گا کہ وہ عذاب دیکھیں گے تو ندامت کا اظہار کریں گے۔ - وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ : یعنی یہ عذاب ان کے اعمال ہی کا نتیجہ ہوگا، اس لیے وہ عین انصاف ہوگا اور ان پر کسی طرح ظلم نہیں ہوگا۔
وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْاَرْضِ لَافْـــتَدَتْ بِہٖ ٠ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ٠ۚ وَقُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٥٤- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- ندم - النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ- [ المائدة 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما .- ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔
(٥٤) اور اگر ہر ایک مشرک کے پاس اتنا مال ہو کہ اس سے ساری زمین بھر جائے تب بھی اس سارے مال کو دے کر عذاب الہی سے اپنی جان بچانے پر راضی ہوجائے، اور جب یہ رؤسا عذاب خداوندی دیکھیں گے تو غربا سے پشیمانی کو پوشیدہ رکھیں گے اور ان رؤسا اور غربا کے درمیان فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا نہ ان کی نیکیوں میں سے کسی قسم کی کچھ کمی کی جائے گا اور نہ ہی ان کے گناہوں میں کچھ زیادتی اور اضافہ ہوگا۔
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :59 جس چیز کو عمر بھر جھٹلاتے رہے ، جسے جھوٹ سمجھ کر ساری زندگی غلط کاموں میں کھپا گئے اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کو طرح طرح کے الزام دیتے رہے ، وہی چیز جب ان کی توقعات کے بالکل خلاف اچانک سامنے آکھڑی ہوگی تو ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی ، ان کا ضمیر انہیں خود بتا دے گا کہ جب حقیقت یہ تھی تو جو کچھ وہ دنیا میں کر کے آئے ہیں اس کا انجام اب کیا ہونا ہے ۔ خود کردہ را علاجے نیست ۔ زبانیں بند ہوں گی اور ندامت و حسرت سے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے ہوں گے ۔ جس شخص نے قیاس و گمان کو سودے پر اپنی ساری پونجی لگا دی ہو اور کسی خیر خواہ کی بات مان کر نہ دی ہو ، وہ دیوالہ نکلنے کے بعد خود اپنے سوا اور کس کی شکایت کر سکتا ہے ۔