Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسان کا نفسیاتی تجزیہ: مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے ہانپتے اور ہنہاتے ہوئے دوڑتے ہیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ قسم کھاتا ہے پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا چھاپہ مارنا اور دشمنان رب کو تہہ و بالا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کی کسی بستی پر آپ جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کرکام لگا کر سنتے اگر اذان کی آواز آ گئی تو آپ رک جاتے نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ بزن بول دیں پھر ان گھوڑوں کا گردوغباراڑانا اور ان سب کا دشمنوں کے درمیان گھس جانا ان سب چیزوں کی قسم کھا کر پھر مضمون شروع ہوتا ہے ۔ حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ والعادیات سے مراد اونٹ ہیں حضرت علی بھی یہی فرماتے ہیں حضرت ابن عباس کا قول کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں جب حضرت علی کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ خطیم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو بوقت جہاد دشمنوں پر دھاوا بولتے ہیں پھر رات کے وقت یہ گھڑ سوار مجاہد اپنے کیمپ میں آ کر کھانے پکانے کے لیے آگ جلاتے ہیں وہ یہ پوچھ کر حضرت علی کے پاس گیا آپ اس وقت زمزم کا پانی لوگوں کو پلا رہے تھے اس نے آپ سے بھی یہی سوال کیا آپ نے فرمایا مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی تم نے پوچھا ہے؟ کہا ہاں حضرت ابن عباس سے پوچھا ہے تو انہوں نے فرمایا مجاہدین کے گھوڑے ہیں جو اللہ کی راہ میں دھاوا بولیں حضرت علی نے فرمایا جانا ذرا انہیں میرے پاس بلانا جب وہ آ گئے تو حضرت علی نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں اور تم لوگوں کو فتوے دے رہے ہو اللہ کی قسم پہلا غزوہ اسلام میں بدر کا ہوا اس لڑائی میں ہمارے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے ایک شخص حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کا تو عادیات ضبحا یہ کیسے ہو سکتے ہیں اس سے مراد تو عرفات سے مزدلفہ کی طرف جانے والے اور پھر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے والے ہیں حضرت عبدالہل فرماتے ہیں یہ سن کر میں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کر لیا اور حضرت علی نے جو فرمایا تھا وہی کہنے لگا مزدلفہ میں پہنچ کر حاجی بھی اپنی ہنڈیا روٹی کے لیے آگ سلگاتے ہیں ، غرض حضرت علی کا فرمان یہ ہوا کہ اس سے مراد اون ٹہیں اور یہی قول ایک جماعت کا ہے جن میں ابراہیم عبید بن عمیر وغیرہ ہیں اور حضرت ابن عباس سے گھوڑے مروی ہیں مجاہد ، عکرمہ ، عطاء قتادہ اور ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں بلکہ حضرت ابن عباس اور حضرت عطا سے مروی ہے کہ ضبح یعنی ہانپنا کسی جانور کے لیے نہیں ہوتا سوائے گھوڑے اور کتے کے ابن عباس فرماتے ہیں ان کے منہ سے ہانپتے ہوئے جو آواز اح اح کی نکلتی ہے یہی ضبح ہے اور دوسرے جملے کے ایک تو معنی یہ کیے گئے ہیں کہ ان گھوڑوں کی ٹاپوں کا پتھر سے ٹکرا کر آگ پیدا کرنا اور دوسرے معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ ان کے سواروں کا لڑائی کی آگ کو بھڑکانا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لڑائی میں مکرو دھوکہ کرنا اور یہ بھی مروی ہے کہ راتوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچ کر آگ روشن کرنا اور مزدلفہ میں حاجیوں کا بعد از مغرب پہنچ کر آگ جلانا امام ابن جریر فرماتے ہیں میرے نزدیک سب سے زیادہ ٹھیک قول یہی ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سموں کا پتھر سے رگڑ کھا کر آگ پیدا کرنا پھر صبح کے وقت مجاہدین کا دشمنوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا اور جن صاحبان نے اس سے مراد اونٹ لیے ہیں وہ فرماتے ہیں اس سے مراد مزدلفہ سے منیٰ کی طرف صبح کو جانا ہے پھر یہ سب کہتے ہیں کہ پھر ان کا جس مکان میں یہ اترے ہیں خواہ جہاد میں ہوں خواہ حج میں غبار اڑانا پھر ان مجاہدین کا کفار کی فوجوں میں مردانہ گھس جانا اور چیرتے پھاڑتے مارتے پچھاڑتے ان کے بیچ لشکر میں پہنچ جانا اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ سب جمع ہو کر اس جگہ درمیان میں آ جاتے ہیں تو اس صورت میں جمعا حال موکد ہونے کی وجہ سے منصوب ہو گا ابو بکر بزار میں اس جگہ ایک غریب حدیث ہے جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا تھا ایک مہینہ گذر گیا لیکن اس کی کوئی خبر نہ آئی اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس لشکر کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے گھوڑے ہانپتے ہوئے تیز چال سے گئے ان کے سموں کی ٹکر سے چنگاڑیاں اڑ رہی تھیں انہوں نے صبح ہی صبح دشمنوں پر پوری یلغار کے ساتھ حملہ کر دیا ان کی ٹاپوں سے گرد اڑ رہی تھی پھر غالب آ کر سب جمع ہو کر بیٹھ گئے ان قسموں کے بعد اب وہ مضمون بیان ہو رہا ہے جس پر قسمیں کھائیں گئی تھیں کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا قدردان نہیں اگر کوئی دکھ درد کسی وقت آ گیا ہے تو وہ تو بخوبی یاد رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ہزارہا نعمتیں جو ہیں سب کو بھلائے ہوئے ہے ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ کنود وہ ہے جو تنہا کھائے غلاموں کو مارے اور آسان سلوک نہ کرے اس کی اسناد ضعیف ہے پھر فرمایا اللہ اس پر شاہد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود اس بات پر اپنا گواہ آپ ہے اس کی ناشکری اس کے افعال و اقوال سے صاف ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے شاہدین علی انفسھم بالکفر یعنی مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی نہیں ہو سکتی جبکہ یہ اپنے فکر کے آپ گواہ ہیں پھر فرمایا یہ مال کی چاہت میں بڑا سخت ہے یعنی اسے مال کی بیحد محبت ہے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی محبت میں پھنس کر ہماری راہ میں دینے سے جی چراتا اور بخل کرتا ہے پھر پروردگار عالم اسے دنیا سے بےرغبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ایک وقت وہ آ رہا ہے کہ جب تمام مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور جو کچھ باتیں چھپی لگی ہوئی تھیں سب ظاہر ہو جائی گی سن لو ان کا رب ان کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور ہر ایک عمل کا بدلہ پورا پورا دینے والا ہے ایک ذرے کے برابر ظلم وہ روا نہیں رکھتا اور نہ رکھے ۔ سورہ عادیات کی تفسیر اللہ کے فضل و احسان سے ختم ہوئی ، فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 عادیات، عادیۃ کی جمع ہے۔ یہ عدو سے ہے جیسے غزو ہے غازیات کی طرح اس کے واؤ کو بھی یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضبح کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئے جہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] عَادِیَاتٌ کا لغوی مفہوم :۔ عَادِیَاتٌ: عادیۃ کی جمع ہے جو عادی کا مونث ہے اور عادی بمعنی وہ جماعت جو قتل و قتال کے لیے تیار ہوا اور تَعَادَالْقَوْمُ بمعنی لوگوں نے دوڑ میں مقابلہ کیا اور عَدَاالْفَرْسِ بمعنی گھوڑے نے دوڑ لگائی اور عادِیَاتٌ سے مراد وہ جنگ پر جانے والے (گھوڑے) ہیں جو مقابلہ کی دوڑ میں حصہ لیتے رہے ہوں۔ واضح رہے کہ عادیات کے معنی میں گھوڑوں کا مفہوم شامل نہیں ہے۔ بلکہ ضَبْحًا کا لفظ عادیات کو گھوڑوں سے مخصوص کردیتا ہے۔ کیونکہ ضبح صرف اس آواز کو کہتے ہیں جو سرپٹ دوڑنے کی وجہ سے گھوڑوں کے منہ سے نکلتی ہے۔ یعنی گھوڑوں کا ہانپنا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(والعدیت ضبحاً :” العدیت “ ” عدا یعدوا عدوا “ (ن) (دوڑنا) سے اسم فاعل ہے، دوڑنے والے۔ ” صبح “ اس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے جوف سے نکلتی ہے، جو نہ سانس کی آواز ہوتی ہے اور ہنہنانے کی، اس لئے اس کا معنی ” ہانپ کر “ کرنا محل نظر ہے۔ آیت میں اگرچہ گھوڑوں کا لفظ نہیں، مگر لغت عرب میں ” ضبح “ کا لفظ گھوڑے کیلئے آتا ہے یا کتے کے لئے، کیونکہ یہ مخصوص آواز انھی دو جانوروں سے نکلتی ہے۔ اس جگہ کتے مراد ہو ہی نہیں سکتے، اس لئے گھوڑے ہی مراد ہیں۔ یہاں تیز دوڑنے والے گھوڑوں کو بطور شاہد پیش کیا گیا ہے، وہ گھوڑے مسلمانوں کے ہوں یا کافروں کے، انہیں غازیوں کے ساتھ مخصوص بھی نہیں کیا گیا، کیونکہ مقصد گھوڑوں کی فضیلت بیان کرنا نہیں بلکہ انہیں آئندہ آنے والے دعروے کی دلیل کے طور پر پیش کرنا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں پھر (پتھر پر) ٹاپ مار کر آگے جھاڑتے ہیں پھر صبح کے وقت تاخت تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبارا ڑاتے ہیں پھر اس وقت (دشمنوں کی) جماعت میں جا گھستے ہیں (مراد اس سے لڑائی کے گھوڑے ہیں۔ جہاد ہو یا غیر جہاد، عرب چونکہ حرب وضرب اور جنگ کے عادی تھے جس کے لئے گھوڑے پالتے تھے ان کی مناسبت سے ان جنگی گھوڑوں کی قسم کھائی گئی آگے جواب قسم ہے کہ) بیشک (کافر) آدمی اپنے پروردگار کا بڑا ناشکر ہے اور اس کی خود بھی اس کی خبر ہے (کبھی ابتداء ہی اور کبھی کچھ غور کے بعد اپنی ناشکری کا احساس کرلیتا ہے) اور وہ مال کی محبت میں بڑا مظبوط ہے (یہی اس کی ناشکری کا سبب ہے، آگے حط مال اور ناشکری پر وعید ہے یعنی) کیا اس کو وہ وقت معلوم نہیں جب زندہ کئے جاویں گے جتنے مردے قبروں میں ہیں اور طاہر ہوجائے گا جو کچھ دلوں میں ہے بیشک ان کا پروردگار ان کے حال سے اس روز پورا آگاہ ہے (اور مناسب جزا دے گا۔ حاصل یہ ہے کہ انسان کو اگر اس وقت کی پوری خبر ہوتی اور آخرت کا حال مستحضر ہوتا تو اپنی ناشکری اور حب مال سے باز آجاتا) - معارف ومسائل - سورة عادیت حضرت ابن مسعود اور جابر اور حس بصری، عکرمہ، عطاء رحمہم اللہ کے نزدیک مکی اور ابن عباس، انس، امام مالک، قتاعدہ کے نزدیک مدنی سورت ہے (قرطبی) - اس سورت میں حق تعالیٰ نے جنگی گھوڑوں کے کچھ خاص حالات وصفات کا ذکر فرمایا اور ان کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکر ہے۔ یہ بات تو قرآن میں باربار معلوم ہوچکی ہے کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے مختلف چیزوں کی قسم کھا کر خاص واقعات اور احکام بیان فرماتے ہیں یہ حق تعالیٰ کی خصوصیت ہے، انسان کے لئے کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں ہے اور قسم کھانے کا مقصد عام قسموں کی طرح اپنی بات کو محقق اور یقینی بتلانا ہے اور یہ بات بھی پہلے آچکی ہے کہ قرآن کریم جس چیز کی قسم کھا کر کوئی مضمون بیان فرماتا ہے تو اس چیز کو اس مضمون کے ثبوت میں دخل ہوتا ہے اور یہ چیز گویا اس مضمون کی شہادت دیتی ہے۔ یہاں جنگی گھوڑوں کی سخت خدمات کا ذکر گویا اس کی شہادت میں لایا گیا ہے کہ انسان بڑا ناشکر ہے۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ گھوڑوں کے اور خصوصاً جنگی گھوڑوں کے حالات پر نظر ڈالئے کہ وہ میدان جنگ میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کیسی کیسی سخت خدمات انسان کے حکم و اشارہ کے تابع انجام دیتے ہیں حالانکہ انسان ان گھوڑوں کو پیدا نہیں کیا، انکو جو گھاس دانہ انسان دیتا ہے وہ بھی اس کا پیدا کیا ہوا نہیں، اس کا کام صرف اتنا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے رزق کو ان تک پہنچانے کا ایک واسطہ بنتا ہے اب گھوڑے کو دیکھئے کہ وہ انسان کے اتنے سے احسان کو کیسا پہچانتا اور مانتا ہے کہ اس کے ادنیٰ اشارہ پر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے اور سخت سے سخت مشقت برداشت کرتا ہے، اسکے بالمقابل انسان کو دیکھو جس کو ایک حقیر قطرہ سے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور اس کو مختلف کاموں کی قوت بخشی، عقل وشعوردیا، ان کے کھانے پینے کی ہر چیز پیدا فرمائی اور اس کی تمام ضروریات کو کس قدر آسان کر کے اس تک پہنچادیا کہ عقل حیران رہ جاتی ہے مگر وہ ان تمام اکمل واعلیٰ احسانات کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا اب الفاظ آیت کی تشریح دیکھئے عادیات، عدو سے مشتق ہے جس کے معنی دوڑنے کے ہیں۔ ضبحاً ، ضبح وہ خاص آواز ہے جو گھوڑے کے دوڑنے کے وقت اس کے سینے سے نکلتی ہے جس کا ترجمہ ہانپتا کیا گیا ہے۔ موریات، ایراء سے مشتق ہے جس کے معنی آگ نکالنے کے ہیں جیسے چقماق کو مار کر یا دیا سلائی کو رگڑ کر نکالی جاتی ہے۔ قدحاً ، قدح کے معنے ٹاپ مارنے کے ہیں پتھریلی زمین پر جب گھوڑا تیزی سے دوڑے خصوصاً جبکہ اس کے پاؤں میں آہنی نعل بھی ہو ٹکراؤ سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں۔ مغیرات، اغارہ سے مشتق ہے جس کے معنے حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کے ہیں۔ صبحاً صبح کے وقت کی تحضیص بیان عادت کے طور پر ہے کیونکہ عرب لوگ اظہار شجاعت کے لئے رات کی اندھیری میں چھاپہ مارنا معیوب سمجھتے تھے حملہ صبح ہونے کے بعد کیا کرتے تھے اثرن، اثارت سے دوڑتے ہیں کہ ان کے سموں سے غبار اڑ کر چھا جاتا ہے خصوصاً صبح کے وقت میں غبار اڑنا زیادہ سرعت اور تیزی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ وقت عادةً غبار اڑنے کا نہیں، کسی سخت دوڑ ہی سے اس وقت غبار اٹھ سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا۝ ١ ۙ- عادیات - العادیات : جمع العادية مؤنّث العادي، اسم فاعل من عدا بمعنی رکض وزنه فاعل، وفيه إعلال بالقلب، أصله العادو، تحرّكت الواو بعد کسر قلبت ياء - جمع ہے عادیۃ کی۔ اس کا مادہ عدد ہے جس سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث عادوۃ ہے واو ما قبل مکسور کو یاء سے بدل دیا عادیۃ ہوا۔ جس کی جمع عادیات ہوئی جیسے غزو کی جمع غازیات ( جمع مؤنث غائب کا صیغہ) ( اعراب القرآن)- ضبح - مصدر الثلاثيّ ضبحت الخیل تضبح باب فتح أي أسمعت صوتا ليس بصهيل ولا حمحمة، وزنه فعل بفتح فسکون - ضبح - قال تعالی: وَالْعادِياتِ ضَبْحاً [ العادیات 1] ، قيل : الضَّبْحُ : صوتُ أنفاس الفرس تشبيها بالضِّبَاحِ ، وهو صوت الثّعلب، وقیل : هو الخفیف العدو، وقد يقال ذلک للعدو، وقیل : الضَّبْحُ کا لضّبع، وهو مدّ الضّبع في العدو، وقیل : أصله إحراق العود، شبّه عدوه به کتشبيهه بالنار في كثرة حركتها - ( ض ب ح ) الضبح کے معنی سرپٹ دوڑ کے وقت گھوڑے کے ہانپنے کے ہیں ) چناچہ آیت کریمہ : وَالْعادِياتِ ضَبْحاً [ العادیات 1] ان سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپ اٹھتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضباح کے معنی گھوڑوں کے ہانپنے کی آواز کے ہیں ۔ کیونکہ وہ ضباح یعنی لومڑ کی آواز سے یک گونہ مشابہت رکھتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کی معنی دوڑنے کی آواز کے ہیں اور یہ لفظ سرپٹ دوڑنے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور بقول بعض ضبح اور ضبع دونوں لفظ ہم معنی ہیں اور ان کے معنی گھوڑے کا اپنے بازؤوں کو پوری طرح پھیلا کر دوڑنا کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے ک اس کے اصل معنی لکڑی کو جلانا کے ہیں پھر تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے دوڑنے پر بھی بولاجاتا ہے جیسا کہ سرعت رفتاری میں گھوڑے کو آگ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 2) رسول اکرم صلی اللہ نے بنی کنانہ کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا آپ کے پاس اس کی خبر آنے میں تاخیر ہوئی جس سے آپ پریشان ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم کو ان کی حالت سے بطور قسم کے آگاہ فرمایا کہ قسم ہے ان غازیوں کے گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں پھر پتھر پر ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں جیسا کہ پتھر کی آگ یہی اس سورة کا شان نزول ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی یہی مروی ہے۔- کہ ابی حباب کی آگ کی طرح اس سے بھی فائدہ نہیں ۃ وتا یہ عرب میں ایک بہت بخیل آدمی تھا جب لشکر میں ہوتا تو کھانے پکانے کے لیے آگ نہیں جلاتا تھا جب سب لشکر والے سوجاتے تب یہ آگ جلاتا اور پھر اگر کوئی درمیان میں اٹھ جاتا تو یہ آگ بجھا دیا کرتا تھا۔- شان نزول : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا (الخ)- بزاز ابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت ابنع باس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑے سوار ایک لشکر روانہ کیا ایک مہینہ تک اس کی کچھ خبر نہیں آئی تب یہ آیت نازل ہوئی وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العدیات حاشیہ نمبر : 1 آیت کے الفاظ میں یہ تصریح نہیں ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، بلکہ صرف وَالْعٰدِيٰتِ ( قسم ہے دوڑنے والوں کی ) فرمایا گیا ہے ۔ اسی لیے مفسرین کے درمیان اس باب میں اختلاف ہوا ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد کیا ہے ۔ صحابہ و تابعین کا ایک گروہ اس طرح گیا ہے کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں ، اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد اونٹ ہیں ۔ لیکن چونکہ دوڑتے ہوئے وہ خاص قسم کی آواز جسے ضبح کہتے ہیں ، گھوڑوں ہی کی شدت تنفس سے نکلتی ہے ، اور بعد کی آیات بھی جن میں چنگاریاں جھاڑنے اور صبح سویرے کسی بستی پر چھاپہ مارنے اور وہاں گرد اڑانے کا ذکر آیا ہے ، گھوڑوں ہی پر راست آتی ہیں ، اس لیے اکثر محققین نے اس سے مراد گھوڑے ہی لیے ہیں ۔ ابن جریر کہتے ہیں دونوں اقال میں سے یہ قول ہی قابل ترجیح ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ اونٹ ضبح نہیں کرتا ، گھوڑا ہی ضبح کیا کرتا ہے ، اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ان دوڑنے والوں کی قسم جو دوڑتے ہوئے ضبح کرتے ہیں ۔ امام رازی کہتے ہیں کہ ان آیات کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مراد گھوڑے ہیں ، کیونکہ ضبح کی آواز گھوڑے کے سوا کسی سے نہیں نکلتی ، اور آگ جھاڑنے کا فعل بھی پتھروں پر سموں کی ٹاپ پڑنے کے سوا کسی اور طرح کے دوڑنے سے نہیں ہوتا ، اور اسی طرح صبح سویرے چھاپہ مارنا بھی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت گھوڑوں ہی کے ذریعہ سے سہل ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani