Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

حصل، میز وبین یعنی سینوں کی باتوں کو ظاہر اور کھول دیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس کی تشریح سورة الطارق کی آیت ( يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ ۝ ۙ ) 86 ۔ الطارق :9) کے تحت حاشیہ نمبر ٧ میں گزر چکی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وحصل ما فی الصدور : دوسرے اعمال تو پہلے ہی ظاہر ہوچکے تھے، مگر دل کی نیت اور ارادے کے متعلق خیال ہوسکتا تھا کہ اسے کون جانتا ہے، تو اس وقت وہ بھی ظاہر کردیئے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(یوم ثبلی السرآئر) (الطارق : ٩)” جس دن پوشیدہ راز ظاہر کئے جائیں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُوْرِ۝ ١٠ ۙ- حصل - التحصیل : إخراج اللبّ من القشور، كإخراج الذهب من حجر المعدن، والبرّ من التّبن . قال اللہ تعالی: وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، أي : أظهر ما فيها وجمع، كإظهار اللبّ من القشر وجمعه، أو كإظهار الحاصل من الحساب، وقیل للحثالة : الحصیل، وحَصِلَ الفرس : إذا اشتکی بطنه عن أكله ، وحوصلة الطیر : ما يحصل فيه الغذاء .- ( ح ص ل ) التحصیل ( تفعیل ) کے معنی چھلکے سے گو دہ اور مغز نکالنے کے ہیں مثلا معدن کے پتھروں سے سونا نکالنا بھوسے گندم کے دانوں کو الگ الگ کرنا ۔ پس آیت کریمہ : ۔ وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] کے معنی یہ ہیں کہ جو بھید سینوں میں ہیں وی اس طرح نکال کر جمع کردیئے جائیں گے ۔ جس طرح کہ چھلکے سے مغز الگ کرلیا جاتا ہے ۔ یا جیسے حساب کا حاصل ظاہر کیا جاتا ہے اور حثالۃ ( یعنی جھان ) وغیرہ کو تحصیل کہا جاتا ہے ۔ حصل الفرس گھوڑے کا حثالہ وغیرہ کھانے کی وجہ سے پیٹ کے درد میں مبتلا ہونا اور پرند کے پوئے یا سنگمانے کو حوصۃ الطیر کہا جانا ہے ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العدیات حاشیہ نمبر : 8 یعنی دلوں میں جو ارادے اور نیتیں ، جو اغراض و مقاصد ، جو خیالات و افکار ، اور ظاہری افعال کے پیچھے جو باطنی محرکات ( ) چھپے ہوئے ہیں وہ سب کھول کر رکھ دیے جائیں گے اور ان کی جانچ پڑتال کر کے اچھائی کو الگ اور برائی کو الگ چھانٹ دیا جائے گا ۔ بالفاظ دیگر فیصلہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا کہ انسان نے عملا کس غرض سے کیے ۔ اس بات پر اگر انسان غور کرے تو وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اصل اور مکمل انصاف خدا کی عدالت کے سوا اور کہیں نہیں ہوسکتا ۔ دنیا کے لا دینی قوانین بھی اصولی حیثیت سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے محض ظاہری فعل کی بنا پر اسے سزا نہ دی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس نے کس نیت سے وہ فعل کیا ہے ۔ لیکن دنیا کی کسی عدالت کے پاس بھی وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ نیت کی ٹھیک ٹھیک تحقیق کرسکے ۔ یہ صرف اور صرف خدا ہی کرسکتا ہے کہ انسان کے ہر ظاہری فعل کے پیچھے جو باطنی محرکات کارفرما رہے ہیں ان کی بھی جانچ پڑتال کرے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس جزا یا سزا کا مستحق ہے ۔ پھر آیت کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ محض اللہ کے اس علم کی بنا پر نہیں ہوگا جو وہ دلوں کے ارادوں اور نیتوں کے بارے میں پہلے ہی سے رکھتا ہے ، بلکہ قیامت کے روز ان رازوں کو کھول کر علانیہ سامنے رکھ دیا جائے گا اور کھلی عدالت میں جانچ پڑتال کر کے یہ دکھا دیا جائے گا کہ ان میں خیر کیا تھی اور شر کیا تھا ۔ اسی لیے وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُوْرِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ تحصیل کے معنی کسی چیز کو نکال باہر لانے کے بھی ہیں ، مثلا چھلکا اتار کر مغز نکالنا ، اور مختلف قسم کی چیزوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ لہذا دلوں میں چھپے ہوئے اسرار کی تحصیل میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں ۔ ان کو کھول کر ظاہر کردینا بھی اور ان کو چھانٹ کر برائی اور بھلائی کو الگ کردینا بھی ۔ یہی مضمون سورہ طارق میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی ( آیت 9 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یعنی مُردوں کو قبروں سے نکال دیا جائے گا، اور لوگوں کے سینوں میں چھپے راز کُھل جائیں گے۔