عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی۔ قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دو فریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔
[٤] یعنی زمین میں پہاڑوں کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ پھر وہ زمین بوس ہوں گے۔ اس دن گرد و غبار بن کر اڑتے پھریں گے۔ پہاڑوں کے بھی چونکہ مختلف رنگ ہوتے ہیں کوئی لال، کوئی کہیں سے سفید، کوئی کالا اور اسی طرح اون کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس لیے جب پہاڑ ہوا میں اڑیں گے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے دھنکی ہوئی اور رنگی ہوئی اون کے گالے اڑ رہے ہیں۔
وتکون الجبال کا لھعھن المنفوش :’ الجھن “ اون یا رنگین اون۔” المنفوش “ ڈھن کی ہوئی۔ قیامت کے دن پہاڑ دھنک کر اون یا روئی کے گالوں کی طرح کردیئے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(ویسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفاً ) (طہ : ١٠٥)” اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، تو کہہ دے کہ میرا رب انہیں خوب اچھی طرح دھنک کر رکھ دے گا۔ “ چونکہ پہاڑ سرخ ، سیاہ ، سفید اور بیشمار رنگوں والے ہیں، اسلئے جب وہ دھنکے جائیں تو رنگی اور دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔ قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے مختلف احوال کے لئے دیکھیے سورة نبا (٢٠) کی تفسیر۔
وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ٥ ۭ - جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- عهن - العِهْنُ : الصّوف المصبوغ . قال تعالی: كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] ، و تخصیص العِهْنِ لما فيه من اللّون کما ذکر في قوله : فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] ، ورمی بالکلام علی عَوَاهِنِهِ أي : أورده من غير فکر ورويّة، وذلک کقولهم : أورد کلامه غير مفسّر .- ( ع ھ ن ) العھن کے معنی رنگین ( اون کے ہیں قرآن پاک میں ہے : كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح ۔ یہاں صررف رنگت کے اعتبار سے پہاڑٖوں کو رنگدار اون کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ : فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا ۔ میں بیان ہوچکا ہے ۔ رمیٰ بلکلام علی عواھنہ بےسوچے سمجھے بات کرنا فکرو غور کئے بغیر بات کرنا جیسا کہ کہاجاتا ہے اورد کلامہ غیر مفسر کہ اس نے اپنی بات کی وضاحت نہیں کی ۔- نفش - النَّفْشُ نَشْرُ الصُّوفِ. قال تعالی: كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] ونَفْشُ الغَنَمِ : انْتِشَارُهَا، والنَّفَشُ بالفتح : الغَنَمُ المُنْتَشِرَةُ. قال تعالی: إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء 78] والإِبِلُ النَّوَافِشُ : المُتَرَدِّدَةُ لَيْلًا فِي المَرْعَى بِلَا رَاعٍ.- ( ن ف ش ) النفش ( ن ) کے معنی اون دھنکنے اور پھیلانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ [ القارعة 5] جیسے دھنکی ہوئی ہوئی رنگ برنگ کی اون ۔ نفس الغنم رات کے وقت بکریوں کا بغیر چرا ہے کے ( چر نے کے لئے منتشر ہونا ۔ النفس ( بفتح لفا اسم وہ بکریاں جو ارت کو بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہوگئی ہوں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ [ الأنبیاء 78] جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئیں الابل النوا فش رات کو بغیر چر واہا ہے کہ چرنے والے اونٹ ۔
آیت ٥ وَتَـکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ ۔ ” اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند ہوجائیں گے۔ “- العِھْن : رنگ دار اون کو کہتے ہیں اور مَنْفُوْش کے معنی ہیں دھنی ہوئی۔ یعنی پہاڑ اپنی جگہ پر قائم نہیں رہیں گے بلکہ ریزہ ریزہ ہو کر رنگ دار اون کی طرح ہوا میں اُڑ رہے ہوں گے۔
سورة القارعہ حاشیہ نمبر : 2 یہاں تک قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے ۔ یعنی جب وہ حادثہ عظیم برپا ہوگا جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اس وقت لوگ گھبراہٹ کی حالت میں اس طرح بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ و منتشر ہوتے ہیں ، اور پہاڑ رنگ برنگ کے ڈھنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگیں گے ۔ رنگ برنگ کے اون سے پہاڑوں کو تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔