4۔ 1 فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔
[٣] یہ کیفیت نفخہ صور اول کے وقت ہوگی۔ یعنی اس دن لوگ اس قدر بدحواس اور گھبراہٹ کا شکار ہوجائیں گے کہ نہایت بدنظمی کے ساتھ ایک دوسرے کے اوپر گر رہے ہوں گے۔ جیسے پروانے اپنی کثرت، ضعف اور بدنظمی کی وجہ سے شمع تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے پر گرے پڑتے ہیں۔ ان کا ہدف شمع ہوتی ہے جو گرمی کی وجہ سے انہیں بھون ڈالتی ہے۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
(یوم یکون الناس کالفراش المبثوث :” الفراش “ اسم جنس ہے، مفرد کے لئے ” فراشہ “ آتا ہ، پروانے۔ یعنی جس طرح پروانے بیشمار تعداد میں ایک دوسرے کے گرداڑتے ، گھومتے اور آپس میں ٹکراتے ہوئے آگ کی طرف تیزی سے جا رہے ہوتے ہیں اسی طرح سب لوگ ایس ہی پریشانی اور تیزی کے ساتھ میدان محشر میں بلانے والے کی طرف جائیں گے، جیسا کہ فرمایا :(خشعاً ابصارھم یخرجون من الاجاث کانھم جراد منتشر، مطعین الی الذاع) (القمر : ٨، ٨)” ان کی نظریں جھکی ہوں گی، وہ قبروں سے نکلیں گے جیسے وہ پھلی ہوئی ٹڈیاں ہوں۔ پکارنے والے کی طرف گردن اٹھا کر دوڑنے والے ہوں گے۔ “ اور فرمایا :” مھطعین مقنعی رؤسھم لایرتد الیھم طرفھم و افدتھم ھوآئ) (ابراہیم : ٣٣)” اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ “ اور فرمایا :(یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ) (طہ : ١٠٨)” اس دن وہ پکارنے والے کا پیچھا کریں گے، جس کے لئے کوئی کجی نہ ہوگی۔ “ اور وہاں پہنچ کر بھی انہیں قرار نہیں ہوگا، بلکہ اسی طرح بےقرار و بےتاب بھگاتے پھریں گے، فرمایا :(یوم یقمر المرء من اخیہ…لکل امری منھم یومئذ شان یغنیہ) (عبس : ٣٣ تا ٣٨)” جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا…اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بےپروا بنا دے گی۔ “
يَوْمَ يَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ ٤ ۙ- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - فرش - الفَرْشُ : بسط الثّياب، ويقال لِلْمَفْرُوشِ : فَرْشٌ وفِرَاشٌ. قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة 22] ، أي : ذلّلها ولم يجعلها ناتئة لا يمكن الاستقرار عليها، والفِرَاشُ جمعه : فُرُشٌ. قال : وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة 34] ، فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن 54] . والفَرْشُ : ما يُفْرَشُ من الأنعام، أي : يركب، قال تعالی: حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وكنّي بِالْفِرَاشِ عن کلّ واحد من الزّوجین، فقال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «الولد للفراش» وفلان کريم المَفَارِشِ أي : النّساء . وأَفْرَشَ الرّجل صاحبه، أي : اغتابه وأساء القول فيه، وأَفْرَشَ عنه : أقلع، والفَرَاشُ : طير معروف، قال : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] ، وبه شبّه فَرَاشَةُ القفل، والْفَرَاشَةُ : الماء القلیل في الإناء .- ( ف ر ش ) الفرش ( ن ض ) کے اصل معنی کپڑے کو بچھانے کے ہیں لیکن بطور اسم کے ہر اس چیز کو جو بچھائی جائے فرش وفراش کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِراشاً [ البقرة 22] جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا ۔۔۔۔۔ بنایا یعنی قابل رہائش بنایا اور اسے ابھرا ہوا نہیں بنایا جس پر سکونت ناممکن ہو اور الفراش کی جمع فرس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ [ الواقعة 34] اور اونچے اونچے فرشتوں میں ۔ فُرُشٍ بَطائِنُها مِنْ إِسْتَبْرَقٍ [ الرحمن 54] ایسے بچھو نوں پر جن کے استر طلس کے ہیں ۔۔۔۔ اور فرش سے مراد وہ جانور بھی ہوتے ہیں جو بار برداری کے قبال نہ ہوں جیسے فرمایا : ۔ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] چوپایوں میں سے بڑی عمر کے جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور چھوئی عمر جو بار برادری کا کام نہیں دیتے اور زمین میں لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے ) بھی ۔ اور کنایہ کے طور پر فراش کا لفظ میاں بیوی میں سے ہر ایک پر بولا جاتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا الولد للفراش کہ بچہ خاوند کا ہے ۔ اور محاورہ ہے ۔ فلان کریمہ المفارش یعنی اس کی بیگمات اعلیٰ مرتبہ گی ہیں ۔ افرش الرجل صاحبہ اس نے اپنے ساتھی کی غیبت اور بد گوئی کی ۔ افرش عنہ کسی چیز سے رک جانا ( الفرشہ پروانہ تتلی وغیرہ اس کی جمع الفراش آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] جیسے بکھرے ہوئے پتنگے ۔ اور تشبیہ کے طور پر تالے کے کنڈے کو بھی فراشۃ القفل کہا جاتا ہے نیز فراشۃ کے معنی بر تن میں تھوڑا سا پانی کے بھی آتے ہیں ۔- بث - أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ، وقوله عزّ وجل : وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] إشارة إلى إيجاده تعالیٰ ما لم يكن موجودا وإظهاره إياه . وقوله عزّ وجلّ : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] أي : المهيّج بعد رکونه وخفائه .- وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل .- ( ب ث ث) البث - البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة 164] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة 4] میں المبثوث سے مراد وہ پر وانے ہیں جو مخفی اور پر سکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو ۔ اور آیت نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے جیسا کہ توذعنی الفکر کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا ۔