Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ حصول کی خاطر محنت کرتے کرتے تمہیں موت آگئی اور تم قبروں میں جا پہنچے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] انہیں چیزوں کے حصول میں انسان اپنی پوری زندگی کھپا دیتا ہے اور ان چیزوں سے اہم تر چیزوں سے اس کی توجہ ہٹی رہتی ہے اور وہ اہم تر چیزیں یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد، اخلاقی حدود وقیود کی پابندی، حقداروں کے حقوق کی ادائیگی اور اپنی عاقبت کی فکر۔ ایسی باتوں سے غافل رہ کر وہ مرغوبات نفس کے حصول میں ہی پڑا رہتا ہے تاآنکہ اسے موت آجاتی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ دو قبیلے اپنے اپنے جتھے کی کثرت تعداد پر فخر کر رہے تھے۔ جب گننے پر ایک قبیلہ کے آدمی دوسرے سے کم نکلے تو شکست خوردہ قبیلہ کہنے لگا کہ ہمارے اتنے آدمی فلاں لڑائی میں مارے جاچکے ہیں۔ بیشک چل کر قبریں شمار کرلو۔ وہاں پتہ لگے گا کہ ہماری جمعیت تم سے کتنی زیادہ ہے اور ہم میں کیسے کیسے نامور گزر چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ قبریں شمار کرنے لگے۔ ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے یہ سورت نازل ہوئی۔ اس روایت کی صحت کے متعلق تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم یہ ایک پہلو سے اس مضمون کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے :- عبداللہ بن شخیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور وہ یہ سورت پڑھ رہے تھے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ تیرا مال صرف وہی ہے جو تو نے صدقہ کردیا اور جاری کیا، یا کھالیا اور فنا کردیا یا پہن لیا اور پرانا کردیا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حتی زرتم المقابر :” زرتم “” زار یزور زیارۃ “ (ن) (ملنے کے لئے جانا) سے ماضی معلوم ہے۔ ” المقابر “” مقبرۃ “ کی جمع ہے جو ” قبر یقبر قبراً “ (ن) (دفن کرنا) سے اسم ظرف ہے، دفن کی جگہیں، قبرستان۔ ’ زرتم التکابر “ (قبرستان جا دیکھے) کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری موت آگئی، یعنی موت آنے تک یہ غفلت طاری رہی، بلکہ جیسے جیسے موت قریب آتی گئی غفلت کا یہ نشہ بڑھتا گیا۔ رسول اللہ نے فرمایا :(یکبر ابن آدم و یکبر معہ اثنان حب المال و طول العمر) (بخاری، الرفاق، باب من یلغ ستین سنۃ…:(٦٣٢١)” آدمی بڑا ہوتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں بڑی ہوتی جاتی ہیں، مال کی محبت اور لمبی عمر کی محبت۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حتی زرتم المقابر، یہاں زیارت مقابر سے مراد مر کر قبر میں پہنچنا ہے جیسا کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حتی زرتم المقابر کی تفسیر میں فرمایا حتی یاتیکم الموت (ابن کثیر بروایت ابن ابی حاتم) اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تم لوگوں کو مال و دولت کی بہتات یا مال و اولاد اور قبیلہ و نسب پر تفاخر غفلت میں ڈالے رہتی ہے اپنے انجام اور آخرت کے حساب کی کوئی فکر نہیں کرتے یہاں تک کہ اسی حال میں تمہیں موت آجاتی ہے اور وہاں عذاب میں پکڑے جاتے ہو یہ خطاب بظاہر عام انسانوں کو ہے جو مال و اولاد کی محبت یا دوسروں پر اپنی برتری اور تفاخر میں ایسے مست رہتے ہیں کہ اپنے انجام کو سوچنے کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ حضرت عبداللہ ابن شخیرہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچا تو آپ الہاکم التکاثر پڑھ رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ - آدمی کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ اس میں تیرا حصہ تو اتنا ہی ہے جس کو تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا صدقہ کر کے اپنے آگے بھیج دیا اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے تو اس کو لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔- امام بخاری نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا - اگر آدم زادے کے لئے ایک وادی (دامن کوہ) سونے سے بھری ہوئی موجود ہو تو (وہ اس پر قناعت نہیں کرے گا بلکہ) چاہیگا کہ ایسی دو وادیاں ہوجاویں اور اس کے منہ کو تو (قبر کی) مٹی کے سوا کوئی چیز بھر نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے اس شخص کی جو اس کی طرف رجوع ہو۔ - حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ ہم حدیث کے الفاظ مذکورہ کو قرآن سمجھا کرتے تھے یہاں تک کہ سورة الہاکم التکاثر نازل ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الہاکم التکاثر پڑھ کر مذکورہ الفاظ اس کی تفسیر و تشریح کے طور پر پڑھے تھے اس سے بعض حصابہ کو شبہ ہوگیا کہ یہ بھی قرآن ہی کے الفاظ ہیں بعد میں جب پوری سورة الہاکم التکاثر سامنے آئی تو اس میں یہ الفاظ نہیں تھے اس سے حقیقت واضح ہوگئی کہ یہ الفاظ تفسیر کے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۝ ٢ ۭ- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- ( زرتم) ،- فيه إعلال بالحذف لمناسبة البناء علی السکون، وضمّت الزاي للدلالة علی أصل الألف الواوي وزنه فلتم .- قبر - القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ- [ فاطر 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات .- ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ ” یہاں تک کہ تم قبروں کو پہنچ جاتے ہو۔ “- یعنی انسان اپنی ساری عمر اسی تگ و دو میں کھپا دیتا ہے اور مرتے دم تک یہ فکر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ انسان کی حرص و ہوس کے پیمانے کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے (١) ۔ سورة الحدید کی آیت ٢٠ میں انسانی زندگی کے جن مراحل کا ذکر ہوا ہے ان میں آخری مرحلہ تکاثر فی الاموال والاولاد کا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آخری عمر میں انسان کی یہ حرص مزید بڑھ جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 2 یعنی تم اپنی ساری عمر اسی کوشش میں کھپا دیتے ہو اور مرتے دم تک یہ فکر تمہارا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani