Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یہ سوال ان نعمتوں کے بارے میں ہوگا، جو اللہ نے دنیا میں عطا کی ہونگی جیسے آنکھ، کان، دل، دماغ، امن اور صحت، مال و دولت اور اولاد وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سوال صرف کافروں سے ہوگا بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک سے ہوگا۔ بعض سوال مستلزم عذاب نہیں۔ جنہوں نے ان نعمتوں کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کیا ہوگا وہ عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جنہوں نے کفران نعمت کا ارتکاب کیا ہوگا وہ دھر لیے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦] انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو لاتعداد ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا کہ (وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 18؀) 16 ۔ النحل :18) (١٤: ٣٤، ١٦: ١٨) یعنی تم پر اللہ کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر تم انہیں شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کرسکتے۔ تاہم ان نعمتوں کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو خداداد ہیں مثلاً جوانی اور صحت جو اکیلے ہی ہزار نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ایسی نعمتوں کے متعلق یہ سوال ہوگا کہ ان کو تم نے کس قسم کی کوششوں میں صرف کیا تھا۔ اور دوسری وہ نعمتیں ہیں جن میں انسان کے اپنے کسب کو بھی دخل ہے۔ جیسے مال و دولت اور ہر قسم کی جائداد۔ ایسی نعمتوں کے متعلق دو طرح کے سوال ہونگے۔ ایک یہ کہ ان چیزوں کو کن اور کیسے ذرائع سے حاصل کیا اور دوسرا یہ کہ ان کو خرچ کون سے کاموں میں کیا۔ یعنی ان کا مصرف جائز تھا یا ناجائز ؟ اس کی مزید تفصیل درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سی نعمت کا ہم سے سوال ہوگا (ہماری خوراک) یہی دو کالی چیزیں (کھجور اور پانی) ہے دشمن سر پر ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں (پھر باز پرس کس چیز کی ہوگی ؟ ) آپ نے فرمایا : تاہم یہ ضرور ہوگا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) - ٢۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تروتازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب جواز استتباعہ غیرہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ثم نتسلن یومئذ عن النعیم : یعنی صحت و عافیت، کھانیپ ینے اور دوسری تمام نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا کہ ان کا کہاں تک شکر ادا کیا ؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی لذت اور معمولی سے معمولی عافیت ایسین ہیں جس کے بارے میں سوال نہ ہو۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) عنہمابھوک کی وجہ سے گھر سے نکلے اور ایک انصاری کے گھر آئے، اس نے مہمانی میں کھجوریں اور بکری کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے گوشت اور کمجوریں کھائیں اور اوپر سے شیریں پانی پیا۔ جب خوب سیر ہوچکے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(والذی نفسی بیدہ التسالن عن ھذا النعیم یوم القیامۃ) (مسلم، الاشربۃ، باب جواز استباعہ غیرہ …: ٢٠٣٨)” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سے قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں (بھی) ) سوال ہوگا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ۝ ٨ ۧ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ۔ ” پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔ “- اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایک نعمت کے بارے میں تم سے جواب طلبی ہوگی کہ دنیا میں تم نے اس کی کون کون سی نعمتوں سے استفادہ کیا اور ان کے حقوق کہاں تک ادا کیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التکاثر حاشیہ نمبر : 4 اس فقرے میں پھر کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے بعد جواب طلبی کی جائے گی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پھر یہ خبر بھی ہم تمہیں دیے دیتے ہیں کہ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں یہ سوال کیا جائے گا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سوال عدالت الہی میں حساب لینے کے وقت ہوگا ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منقول ہے کہ اللہ تعالی نے جو نعمتیں بندوں کو دی ہیں ان کے بارے میں جواب دہی مومن و کافر سب ہی کو کرنی ہوگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور شکر گزار بن کر رہے وہ اس محاسبہ میں کامیاب رہیں گے ، اور جن لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا حق اد نہیں کیا اور اپنے قول یا عمل سے یا دونوں سے ان کی ناشکری کی وہ اس میں ناکام ہوں گے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کو ترو تازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا ۔ اس پر حضور نے فرمایا یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ( مسند احمد ، نسائی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، عبد بن حمید ، بیہقی فی الشعب ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے کہا کہ چلو ابو الہیثم بن التیہان انصاری کے ہاں چلیں ۔ چنانچہ ان کو لے کر آپ ابن التیہان کے نخلستان میں تشریف لے گئے ۔ انہوں نے لاکر کھجوروں کا ایک خوشہ رکھ دیا ۔ حضور نے فرمایا تم خود کیوں نہ کھجوریں توڑ لائے؟ انہوں نے عرض کیا ، میں چاہتا تھا کہ آپ حضرات خود چھانٹ چھانٹ کر کھجوریں تناول فرمائیں ۔ چنانچہ انہوں نے کھجوریں کھائیں اور ٹھنڈا پانی پیا ۔ فارغ ہونے کے بعد حضور نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں تمہیں قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہوگی ، یہ ٹھنڈا سایہ ، یہ ٹھنڈی کھجوریں ، یہ ٹھنڈا پانی ( اس قصے کو مختلف طریقوں سے ملسم ، ابن ماجہ ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر اور ابو یعلی وغیرہم نے حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے جن میں سے بعض میں ان انصاری بزرگ کا نام لیا گیا ہے اور بعض میں صرف انصار میں سے ایک شخص کہا گیا ہے ۔ اس قصے کو مختلف طریقوں سے متعدد تفصیلات کے ساتھ ابن ابی حاتم نے حضرت عمر سے ، اور امام احمد نے ابو عسیب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے نقل کیا ہے ۔ ابن حبان اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قریب قریب اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں پیش آیا تھا ) ۔ ان احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سوال صرف کفار ہی سے نہیں ، مومنین صالحین سے بھی ہوگا ۔ رہیں خدا کی وہ نعمتیں جو اس نے ا نسان کو عطا کی ہیں ، تو وہ لا محدود ہیں ، ان کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ بہت سی نعمتیں تو ایسی ہیں کہ انسان کو ان کی خبر بھی نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کا پورا شمار نہیں کرسکتے ( ابراہیم ، 34 ) ان نعمتوں میں سے بے حدو حساب نعمتیں تو وہ ہیں جو اللہ تعالی نے براہ راست انسان کو عطا کی ہیں ، اور بکثرت نعمتیں وہ ہیں جو انسان کو اس کے اپنے کسب کے ذریعہ سے دی جاتی ہیں ۔ انسان کے کسب سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے متعلق اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی کہ اس نے ان کو کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں خرچ کیا ۔ اللہ تعالی کی براہ راست عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں اسے حساب دینا ہوگا کہ ان کو اس نے کس طرح استعمال کیا ۔ اور مجموعی طور پر تمام نعمتوں کے متعلق اس کو بتانا پڑے گا کہ آیا اس نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور ان پر دل ، زبان اور عمل سے اس کا شکر ادا کیا تھا ؟ یا یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب کچھ اسے اتفاقا مل گیا ہے؟ یا یہ خیال کیا تھا کہ بہت سے خدا ان کے عطا کرنے والے ہیں؟ یا یہ عقیدہ رکھا تھا کہ یہ ہیں تو خدا ہی کی نعمتیں مگر ان کے عطا کرنے میں بہت سی دوسری ہستیوں کا بھی دخل ہے اور اس بنا پر انہیں معبود ٹھہرا لیا تھا اور انہی کے شکریے ادا کیے تھے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی دُنیا میں جو نعمتیں میسر تھیں، اُن پر اﷲ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کیا؟ اور اُس کی کس طرح فرماں برداری کی۔