مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات: عصر سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے ، حضرت زید بن اسلم نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو اعمال میں نیکیاں ہوں حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی حرام کاموں سے رکنے کی اکی دوسرے کو تاکید کرتے ہوں قسمت کے لکھے پر مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں ۔ سورہ والعصر کی تفسیر بحمدللہ ختم ہوئی ۔
1۔ 1 زمانے سے مراد، شب و روز کی یہ گردش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے، رات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے اور دن طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی دن لمبا، رات چھوٹی ہوجاتی ہے یہی مرور ایام، زمانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگیر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے رب نے اس کی قسم کھائی ہے۔ یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے لیکن انسانوں کے لیے اللہ کی قسم کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھان جائز نہیں ہے۔
[١] عصر کے دو معنی :۔ عصر کا لفظ بنیادی طور پر دو معنوں میں آتا ہے (١) عصر کا وقت جو انتہائی مصروفیات کا وقت ہوتا ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے بطور خاص اس وقت کی نماز کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ٢٣٨۔ ) 2 ۔ البقرة :238) اور احادیث میں یہ صراحت مذکور ہے۔ کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کی عصر کی نماز ضائع ہوگئی۔ وہ سمجھ لے کہ اس کا گھر بار اور مال لٹ گیا۔ (ترمذی، ابو اب الصلوۃ۔ باب ماجاء فی السہو عن وقت صلوۃ العصر) اور عصر کا دوسرا معنی زمانہ اور اس سے وہی زمانہ یا عرصہ مراد لیا جاسکتا ہے۔ جو بنی نوع انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کا وقت ہے۔ بنی نوع انسان کی پیدائش سے پہلے کا نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عصر کو بنی نوع انسان پر بطور شاہد بیان فرماتے ہیں اور جب انسان کا وجود ہی نہ تھا تو شہادت کیسی ؟
(١) والعصر، ان الانسان لفی خسر…: قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو قسموں کے بعد مذکور ہوتا ہے۔ اس سورت کا مفہوم سمجھنے کے لئے خسارے کا مفہوم ذہن میں لانا ضروری ہے۔ خسارہ یا نفع کسی نہ کسی تجاتر اور بیع میں ہوتا ہے جس میں آدمی اپنا راس المال (سرمایہ) لگاتا ہے، اگر راس المال فروخت ہوجائے اور راس المال اور محنت سے بڑھ کر آمدنی ہوجائے تو یہ نفع ہے، ورنہ خسارہ۔ اس سورت میں زمانے کی قسم کھا کر یہ حقیقت مدلل کی گئی ہے کہ چار صفات والے لوگوں کو چھوڑ کر ہر انسان ہی خسارے میں ہے، کیونکہ انسان کے پاس رسا المال صرف اور صرف زمانے کا کچھ حصہ یعنی اس کی عمر ہے، جیسا کہ فرمایا :(او لم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر و جآء کم النذیر) (فاطًر : ٣٨)” اور یہ سرمایہ ایسا ہے جو بہت تیزی سے خود بخود ختم ہو رہا ہے، اگر ختم ہونے سے پہلے پہلے اس سے قیمتی چیز، یعنی وہ چ اورں صفات حاصل کرلیں تو نفع ہے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ جس طرح برف بیچنے والا اس کے پگھلنے سے قیمتی چیز، یعنی وہ چ اورں صفات حاصل کرلیں تو نفع ہے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ جس طرح برف بیچنے والا اس کے پگھلنے سے پہلے پہلے اسے فروخت کرلے اور اس کی اچھی قیمت حاصل کرلے تو نفع ہے، ورنہ برف اس کا انتظار نہیں کرے گی بلکہ کچھ دیر کے بعد خود بوخود تحلیل ہو جائیگی، پھر اس کے خسارے میں کیا شک ہے ؟- (٢) ان الانسان لفی خسر : حقیقت یہ ہے کہ انسان کا خسارے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ خسارہ اس المال ضائع کرنے کا نام ہے اور انسان کا راس المال عمر ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آدیم اپنی عمر ضائع نہ کر رہا ہ، کیونکہ آدمی پر جو گھڑی گزرتی ہے اگر اللہ کی نافرمانی میں گزیر تو خسارے میں کوئی شک ہی نہیں، اگر مباح اور جائز کاموں میں گزری پھر بھی خسارہ ہے، کیونکہ اس گھڑی سے آدمی آخرت کے لئے کچھ حاصل نہ کرسکا اور اگر اطاعت اور نیکی میں گزری تو یہی نیکی اس سے بہتر طریقے پر یا اس سے بہتر کوئی اور نیکی بھی کرسکتا تھا، کیونکہ نیکی کے درجات کی کوئی انتہا نہیں اور اللہ کے جلال و قہر کے مرتاب کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اب جس قدر کسی شخص کو ان درجات کا علم ہوگا، ان پر عمل کرے گا اور دوسروں کو ان کی تعلیم دے گا اور خود صبر اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرے گا، تو اسی قدر خسارہ کم ہوتا جائے گا، ورنہ اعلیٰ درجے کو چھوڑ کر ادنیٰ درجے پر اکتفا تو ایک قسم کا خسارہ ہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کسی نہ کسی قسم کے خسارے سے ضرورت دو چار رہتا ہے۔ (خلاصہ از رازی)- (٣) الا الذین امنوا و عملوا الصلحت : بعض لوگوں نے اس سورت سے ثابت کیا ہے کہ اعمال ایمان سے لاگہیں، اس میں داخل نہیں ہیں، وہ نہ ہوں تب بھی ایمان کامل ہے، کیونکہ دونوں کو عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں، بلکہ ایمان دل، زبان اور ارکان تینوں کے اعمال کا نام ہے۔ اگر عطف کی وجہ سے یہ دونوں الگ الگ ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ حق کی وصیت عمل صالح میں شامل نہیں، بلکہ عمل صالح سے الگ کوئی چیز ہے۔ اسی طرح صبر کی وصیت حق کی وصیتل اور عمل صالح دونوں سے الگ کوئی چیز ہے، جب کہ یہ تینوں باتیں ہی درست نہیں۔ حق یہ ہے کہ ایمان کے بعد عمل صالح کو الگ اس لئے ذکر کیا کہ ایمان کے اس جز کو کوئی شخص معمولی سمجھ کر اس سے بےاعتنائی نہ کر بیٹھنے اور عمل صالح میں سے حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کو الگ اس لئے ذکر فرمایا کہ کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک عمل صالح کر کے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں اب خسارے سے محفوظ ہوں۔ نہیں، بلکہ اسے یہ علم و عمل اور اس پر صبر دوسروں کو بھی سکھانا ہوگا۔- (٤) وتواصوا بالحق : خسارے سے بچنے کے لئے عمل سے خلای ایمان کافی نہیں اور نہ صرف خود عمل کرلینا کافی ہے، بلکہ ایک دور سے کو حق بات کی تاکید کرنا بھی ضروری ہے۔ حق سے مراد وہ ہدایت ہے جو وحی ک صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، جس میں قرآن وحدیث دونوںں شامل ہیں۔ پھر ان تنیوں چیزوں یعنی حق پر ایمان لانے، اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں بیشمار مصائب و تکالیف پیش آسکتی ہیں، ان پر خود صبر کرنا ہوگا اور تمام مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کیرں۔ یہاں ” تواصوا “ (ایک دوسرے کو وصیت کریں) فرمایا ہے،” اوصوا “ (وصیت کریں) نہیں فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سب مسلمان ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ چند آدمیوں کے ادا کرنے سے یہ فرض ادا نہیں ہوتا۔- (٥) وتواصوا بالصبر : صبر کا معنی باندھنا اور روکنا ہے۔ یہ تین قسم کا ہے :(١) حق پر صبر اور اور اس کی مسلسل پابندی، مثلاً توحید، اتباع سنت اور نماز روزہ پر پابندی رہنا۔ (٢) برائی سے صبر، مثلاً شرک، زنا، قتل ناحق اور جھوٹ وغیرہ سے صرب۔ (٣) مصیبت پر صبر اور ہر قسم کے جزع فزع سے پرہیز۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے زمانہ کی (جس میں رناج و خسران واقع ہوتا ہے) کہ انسان (اپنی عمر ضائع کرنے کی وجہ سے) بڑے خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے (جو اپنے نفس کا کمال ہے) اور ایک دوسرے کو حق (پر قائم رہنے کی فرمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو (عمال کی) پابندی کی فرمائش کرتے رہے (جو دو رسوں کی تکمیل ہے تو جو لوگ یہ کمال حاصلک ریں اور دو رسوں کی بھی تکمیل کریں یہ لوگ البتہ خسارے میں نہیں بلکہ نفع میں ہیں) - معارف و مسائل - سورة عصر کی خاص فضیلت :۔ حضرت عبید اللہ ابن حصن فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے دو شخص ایسے تھے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورة والعصر نہ پڑھ لے (رواہ البطرانی) اور امام شافعی نے فرمایا کہ اگر لوگ صرف اسی سورت میں تدبر کرلیتے تو یہی ان کے لئے کافی تھی (ابن کثیر) - سورة عصر قرآن کریم کی بہت مختصر سی سورت ہے لیکن ایسی جامع ہے کہ بقول حضرت امام شافعی اگر لوگ اسی سورت کو غور و تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لء کافی ہوجائے۔ اس صورت میں حق تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نوع انسان بڑے خسارے میں ہے اور اس خسارے سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جو چار چیزوں کے پابند ہوں۔ ایمان، عمل صالح، دوسروں کو حق کی نصیحت و وصیت اور صبر کی وصیت، دنیا و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے جن میں پہلے دو جز اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں اور دوسرے دو جز دوسرے مسلمانوں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔- یہاں پہلی بات یہ غور طلب ہے کہ اس مضمون کے ساتھ زمانے کو کیا مناسبت ہے جس کی قسم کھائی گی کیونکہ قسم اور جواب قسم میں باہم مناسبت ضرور ہوتی ہے۔ عام حضرات مفسرین نے فرمایا کہ انسان کے تمام حالات اس کا نشو و نما اس کی حرکات سکنات، اعمال، اخلاق سب زمانے کے اندر ہوتے ہیں۔ جن اعمال کی ہدایت اس سورت میں دی گئی ہے وہ بھی اسی زمان کے لیل و نہار میں ہوں گے اس کی مناسبت سے زمانہ کی قسم اختیار کی گئی۔- زمانے کو نوع انسانی کے خسارے میں کیا دخل ہے :۔ اور توضیح اس کی یہ ہے کہ انسان کی عمر کا زمانہ اس کے سال اور مہینے اور دن رات بلکہ گھنٹے اور منٹ اگر غور کیا جائے تو یہی اس کا سرمایہ ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا و آخرت کے منافع عظیمیمہ عجیبیہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور عمر کے اوقات اگر غلط اور برے کاموں میں لگا دیئے تو یہی اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتے ہیں، بعض علماء نے فرمایا ہے۔- حیا تک انفاس تعد فکلما مضی نفس منھا انتقصت بہ جزائ - یعنی تیری زندگی چند گنے ہوئے سانسوں کا نام ہغے۔ جب ان میں سے ایک سانس گزر جاتا ہے تو تیری عمر کا ایک جز کم ہوجاتا ہے حق تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی عمر کے اوقات عزیز کا بےبہا سرمایہ دے کر ایک تجارت پر لگا یا ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لے اور اس سرمایہ کو خلاص نفع بخش کاموں میں لگائے تو اس کے منافع کی کوئی حد نہیں رہتی اور اگر اس کے خلاف کسی مضرت رساں کام میں لگا دیا تو نفع کی تو کیا امید ہوتی یہ راس المال بھی ضائع ہوجاتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ نفع اور راس المال ہاتھ سے جاتا رہا۔ بلکہ اس پر سینکڑوں جرائم کی سا عائد ہوجاتی ہے اور کسی نے اس سرمایہ کو نہ کسی نفع بخش کام میں لگایا نہ مضرت رساں میں تو کم از کم یہ خسارہ تو لازمی ہی ہے کہ اس کا نفع اور راس المال دونوں ضائع ہوگئے اور یہ کوئی شاعرانہ تمثیل ہی نہیں بلکہ ایک حدیث مرفوع سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔- یعنی ہر شخص جب صبح اٹھتا ہے تو اپنی جان کا سرمایہ تجارت پر لگاتا ہے پھر کوئی تو اپنے اس سرمایہ کو خسارہ سے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر ڈالتا ہے۔- خود قرآن کریم نے بھی ایمان و عمل صالح کو انسان کی تجارت کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ھل ادتکم علی تجارة تجیکم من عذاب الیم اور جب زمانہ عمر انسان کا سرمایہ ہوا اور انسان اس کا تاجر تو عام حالات میں اس تاجر کا خسارہ میں ہونا اس لئے واضح ہے کہ اس مسکین کا سرمایہ کوئی منجمد چیز نہیں جس کو کچھ دن بیکار بھی رکھا تو اگلے وقت میں کام آسکے بلکہ یہ سیال سرمایہ ہے جو ہر منٹ ہر سیکنڈ بہ رہا ہے اس کی تجارت کرنے والا بڑا ہوشیار مستعد آدمی چاہئے جو بہتی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرے۔ اسی لئے ایک بزرگ کا قول ہے کہ وہ برف بیچنے والے کی دکان پر گئے تو فرمایا کہ اس کی تجارت کو دیکھ کر سورة والعصر کی تفسیر سمجھ میں آگئی کہ یہ ذرا بھی غفلت سے کام لے تو اس کا سرمایہ پانی بن کر ضائع ہوجائے گا اس لئے اس ارشاد قرآنی میں زمانے کی قسم کھا کر انسان کو اس پر متوجہ کیا ہے کہ خسارے سے بچنے کے لئے جو چار اجزاء سے مرکب نسخہ بتلایا گیا ہے اس کے میں ذرا غفلت نہ برتے۔ عمر کے ایک ایک منٹ کی قدر پہچان اور ان چار کاموں میں اس کو مشغول کر دے۔- زمانہ کی قسم کی ایک مناسبت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ ایک حیثیت سے اس معاملہ کے شاہد کے قائم مقام ہوتی ہے اور زمانہ ایسی چیز ہے کہ اگر اس کی تاریخ اور اس میں قوموں کے عروج و نزول کے بھلے برے واقعات پر نظر کرے گا تو ضرور اس یقین پر پہنچ جائے گا کہ صرف یہ چار کام ہیں جن میں انسان کی فلاح و کامیابی منحصر ہے جس نے ان کو چھوڑا وہ خسارہ میں پڑا دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔- آگے ان چاروں اجزاء کی تشریح یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح جو خود انسان کی ذات سے متعلق ہیں ان کا معاملہ واضح ہے کسی تشریح کا محتاج نہیں البتہ آخری دو جز یعنی تواضی بالحق اور تواصی بالصبر یہ قابل غور ہیں کہ ان سے کیا مراد ہے۔ لفظ تواصی وصیت سے مشتق ہے کسی شخص کو تاکید کے ساتھ مؤ ثر انداز میں نصیحت کرنے اور نیک کام کی ہدیات کرنے کا نام وصیت ہے اسی وجہ سے مرنے والا جو اپنے عبد کے لئے کچھ ہدایات دیتا ہے اس کو بھی وصیت کہا جاتا ہے۔- یہ دو جز درحقیت اسی وصیت کے دو باب ہیں۔ ایک حق کی وصیت دوسرے صبر کی وصیت، اب ان دونوں لفظوں کے معنی میں کئی احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حق سے مراد عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کا مجموعہ ہو اور صبر کے معنے تمام گناہوں اور برے کاموں سے بچنا ہو تو پہلے لفظ کا حاصل المر بالمعروف ہوگیا یعنی نیک کاموں کا حکم کرنا اور دوسرے کا حاصل نہی عن المنکر ہوگیا یعنی برے کاموں سے روکنا، اس مجمعہ کا حاصل پھر وہی ایمان اور عمل صالح جس کو خود اختیار کیا ہے اس کی تاکید و نصیحت دوسروں کو کرنا ہوگیا اور ایک احتمال یہ ہے کہ حق سے مراد اعتقادات حقہ لئے جائیں اور صبر کے مفہوم میں تمام اعمال صالح ہیک پابندی بھی ہو اور برے کاموں سے بچنا بھی کیونکہ لفظ صبر کے حقیقی معنے اپنے نفس کو روکنے اور پابند بنانے کے ہیں۔ اس پابندی میں اعمال صالحہ بھی آگئے اور گناہوں سے اجتناب بھی۔- اور حافظ ابن تیمیمہ نے اپنے کسیر سالے میں فرمایا کہ انسان کو ایمان اور عمل صالح سے روکنے والی عادة دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک شبہات یعنی اس کو ایمان و عمل صالح میں کچھ نظری اور فکری شبہات پیدا ہوجاویں۔ جن کے سبب قعائد ہی مختلف ہوجائیں اور عقائد کے مختلف ہونے سے عمل صالح کا خلل پذیر ہونا خود ظاہر ہے۔ دوسرے شہوات یعنی خواہشات نفسانی جو انسان کو بعض اوقات نیک عمل سے روک دیتی ہیں اور بعض اوقات برے اعمال میں مبتلا کردیتی ہیں اگرچہ وہ نظری اور اعتقادی طور پر نیکی پر عمل اور برائی سے بچنے کو ضروری سمجھتا ہو مگر نفسانی خواہشات اس کے خلاف ہوں اور وہ ان خواہشات سے مغلوب ہو کر سیدھا راستہ چھوڑ بیٹھے تو آیت مذکور میں وصیت حق سے مراد یہ ہے کہ شبہات کو دور کرے اور وصیت صبر سے مراد یہ کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر اچھے اعمال اختیار کرنے کی ہدایت کرے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وصیت بالحق سے مراد دوسرے مسلمانوں کی علمی اصلاح ہے اور وصیت بالصبر سے مراد عملی اصلاح۔- نجات کے لئے صرف اپنے عمل کی اصلاح کافی نہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کی فکر بھی ضروری ہے :۔ اس سورت نے مسلمانوں کو ایک بڑی ہدایت یہ دی کہ ان کا صرف اپنے عمل کو قرآن و سنت کے تابع کرلینا جتنا اہم اور ضروری اتنا ہی اہم یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ایمان اور عمل صالح کی طرف بلانے کی مقدور بھر کوشش کرے ورنہ صرف اپنا عمل نجات کے لئے کافی نہ ہوگا، خصوصاً اپنے اہل و عیال اور احباب و متعلقین کے اعمال سیسہ سے غفلت برتنا اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی نجات کا راستہ بند کرنا ہے اگرچہ خود وہ کیسے ہی اعمال صالحہ کا پابند ہو، اسی لئے قرآن و حدیث میں ہر مسلمان پر اپنی اپنی مقدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں عام مسلمان بلکہ بہت سے خواص تک غفلت میں مبتلا ہیں، خود عمل کرنے کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں، اولاد و عیال کچھ بھی کرتے رہیں اس کی فکر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت کی ہدایت پر عمل کی تفویق نصیب فرما دیں۔
وَالْعَصْرِ ١ ۙ- عصر - العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا - ( ع ص ر ) العصر - ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔
(1 ۔ 2) زمانہ کی سختیوں اور تکالیف کی یا یہ کہ نماز عصر کی قسم ہے کافر اپنے عمل کے برباد ہونے اور جنت نہ ملنے سے بڑے خسارے اور عذاب میں ہے، یا یہ کہ بڑھاپے اور موت کے بعد نقصان عمل کی وجہ سے۔
آیت ١ وَالْعَصْرِ ۔ ” زمانے کی قسم ہے۔ “- یعنی اس حقیقت پر زمانہ گواہ ہے یا پوری تاریخ انسانی شاہد ہے کہ :
1: یعنی زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں۔ اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دُنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اِختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب اِنسان کا منتظر ہے۔