Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ جواب قسم ہے۔ انسان کا خسارہ اور ہلاکت واضح ہے کہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے، اس کے شب و روز سخت محنت کرتے ہوئے گزرتے ہیں، پھر جب موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو موت کے بعد آرام اور راحت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جہنم کا ایندھن بنتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] اس آیت کے مختلف مفہوم :۔ خُسْرٍ بمعنی راس المال میں کمی واقع ہونا۔ کسی سودے میں نفع کی بجائے الٹا نقصان ہوجانا، ٹوٹا، گھاٹا اور اس کی ضد رِبْحٌ ہے بمعنی کسی سودے میں نفع ہوجانا۔ اب اگر زمانہ سے مراد گزرا ہوا زمانہ لیا جائے تو اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ گزرے ہوئے زمانہ کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان انفرادی طور پر بھی اور بحیثیت مجموعی بھی ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہا مگر اس گھاٹے سے صرف وہ لوگ بچ سکے ہیں جن میں وہ چار صفات پائی جائیں جو آگے مذکور ہیں اور اگر عصر سے مراد گزرنے والا زمانہ لیا جائے جو بڑی تیزی سے گزرتا جارہا ہے تو اس سے مراد ہر انسان کی مدت عمر ہوگی جو اسے اس دنیا میں بطور امتحان عمل کے لیے دی گئی ہے اور بڑی تیزی سے گزر رہی ہے۔ یہ مدت بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو شخص اس مدت سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہا وہ اعمال سرانجام نہیں دے رہا جو آگے مذکور ہیں۔ وہ سراسر گھاٹے میں جارہا ہے اور اس کا سرمایہ حیات دم بہ دم لٹ رہا ہے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے اس سورة العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو یہ صدا لگا رہا تھا۔ اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ دم بدم پگھل کر ضائع ہوتا جارہا ہے اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ سورت اپنے مضامین کے لحاظ سے اتنی جامع ہے کہ انسانی ہدایت کے لیے صرف یہی ایک سورت بھی کافی تھی اور طبرانی کی ایک روایت کے مطابق جب صحابہ کرام (رض) ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے تو یہ سورت ایک دوسرے کو پڑھ کر سناتے پھر سلام کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں خسارہ سے مراد اخروی نقصان ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان چار صفات کے حامل انسان دنیا میں خسارہ میں ہی رہتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بھی ایسے لوگ خسارہ کے بجائے فائدہ میں رہ سکتے ہیں لیکن یہ بات یقینی نہیں۔ ممکن ہے انہیں دنیا میں خسارہ ہی رہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ آخرت میں بہرحال یہی لوگ خسارہ سے محفوظ رہیں گے اور اخروی نجات ان کے لیے یقینی ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ۝ ٢ ۙ- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ۔ ” یقینا انسان خسارے میں ہے۔ “- اگلی آیت میں اس نقصان اور خسارے سے بچائو کے لیے چارشرائط بتائی گئی ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی ایک یا دو یا تین شرائط پوری کردینے سے مذکورہ خسارے سے بچنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ کامیابی کے لیے بہرحال چاروں شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani