3۔ 1 ہاں اس خسارے سے وہ لوگ محفوط ہیں جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں، کیونکہ ان کی زندگی چاہے جیسی بھی گزری ہو، موت کے بعد وہ بہر حال ابدی نعمتوں اور جنت کی پر آسائش زندگی سے بہرہ ور ہوں گے۔ آگے اہل ایمان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے۔ 3۔ 2 یعنی اللہ کی شریعت کی پابندی اور محرمات و معاصی سے اجتناب کی تلقین۔ 3۔ 3 یعنی مصائب و آلام پر صبر، احکام و فرائض شریعت پر عمل کرنے میں صبر، معاصی سے اجتناب پر صبر، لذات و خواہشات کی قربانی پر صبر، صبر بھی اگرچہ تواصی بالحق میں شامل ہے، تاہم اسے خصوصیت سے الگ ذکر کیا گیا، جس سے اس کا شرف و فضل اور خصال حق میں اس کا ممتاز ہونا واضح ہے۔
[٣] مومنوں کی چار لازمی صفات :۔ اس آیت میں وہ چار صفات مذکور ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے انسان اخروی خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پہلی صفت ایمان بالغیب ہے۔ جس کے چھ اجزاء ہیں اور وہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٣ کے تحت تفصیل سے ذکر کیے جاچکے ہیں۔- دوسری صفت اعمال صالحہ کی بجاآوری ہے۔ اعمال صالحہ کا لفظ اس قدر وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ خیر اور بھلائی کا کوئی کام اس سے باہر نہیں رہتا۔ البتہ اس کی دو اہم شرائط ہیں۔ ایک ایمان بالغیب جس کا پہلے ذکر ہوچکا۔ ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کا کوئی تصور ہی نہیں اور دوسری یہ کہ وہ کام شریعت کی ہدایات کے مطابق سرانجام دیا جائے۔- تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے رہتے ہیں۔ حق کی ضد باطل ہے۔ حق کا لفظ عموماً دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (١) سچ اور سچائی۔ حقیقت، درست یعنی ہر وہ بات یا چیز جو تجربہ اور مشاہدہ کے بعد درست ثابت ہو۔ اور (٢) وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ اللہ کا حق ہو یا بندوں کا حق ہو یا خود اس کے اپنے نفس کا حق ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود ہی راستباز رہنے یا حقوق ادا کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے اور حق پر قائم رہنے اور حقوق ادا کرنے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام اجتماعی زندگی کو خاص اہمیت دیتا ہے اور ان لوگوں کے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں باطل یا برائی سر اٹھانے لگتی ہے تو سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور حق کو غالب کرنے اور رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر تو اصوبالحق کا مفہوم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی ہے جس کی اہمیت کتاب و سنت میں بیشمار مقامات پر مذکور ہے۔- چوتھی صفت یہ ہے کہ اسلام یا حق کو غالب کرنے یا رکھنے کے راستہ میں جتنی مشکلات حائل ہوتی ہیں یا مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو وہ صرف خود ہی صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں صبر کا ایک مفہوم احکام شریعت پر ثابت قدمی سے پابند رہنا بھی ہے۔ ایسی باتوں کے لیے بھی وہ ایک دوسرے کو تلقین کرتے رہتے ہیں۔- جس معاشرہ میں اور اس کے افراد میں یہ چاروں صفات پائی جائیں ان کے متعلق یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخرت میں وہ خسارہ سے محفوظ رہیں گے۔
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ٠ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ٣ ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ، ووَصَّى: أنشأ فضله، وتَوَاصَى القومُ : إذا أَوْصَى بعضُهم إلى بعض . قال تعالی: وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] .- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں
البتہ جو حضرات ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو توحید یا یہ کہ قرآن کریم پر بھارتے رہے اور فرائض کی ادائیگی اور ترک معاصی اور مصائب پر صبر کی ترغیب دیتے رہے سو یہ حضرات نفع میں ہیں۔
آیت ٣ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔ “- ان شرائط میں پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان لائے۔ اس میں ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت سمیت تمام ایمانیات شامل ہیں۔ یعنی انسان اس کائنات کے مخفی اور غیبی حقائق کو سمجھے ‘ ان کا شعور حاصل کرے اور ان کی تصدیق کرے۔ ایمان لانے کے بعد دوسری شرط اس ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر انسان اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے عمل اور کردار سے ثابت ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بندہ ہے اور اس کی نافرمانی سے ڈرتا ہے۔ غرض وہ ہر اس عمل کو اپنے شب و روز کے معمول کا حصہ بنانے پر کمربستہ ہوجائے جس کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے اور ہر اس فعل سے اجتناب کرنے کی فکر میں رہے جس سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع کیا ہے۔ - تیسری شرط ” تواصی بالحق “ کی ہے ۔ یعنی جس حق کو انسان نے خود قبول کیا ہے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا ہے اس حق کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن جائے۔ اس کے بعد چوتھی اور آخری شرط ” تواصی بالصبر “ کی ہے اور یہ ” تواصی بالحق “ کا لازمی اور منطقی نتیجہ بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو بندہ ” تواصی بالحق “ کا َعلم اٹھائے گا اسے شیطانی قوتوں کی مخالفت مول لے کر آزمائش و ابتلا کی مشکل گھاٹیوں سے بھی گزرنا ہوگا اور اس راستے پر چلتے ہوئے نہ صرف اسے خود صبر و استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا بلکہ اسے اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کو بھی اس کی تلقین و نصیحت کرنا ہوگی۔ اسی لیے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جب امر بالمعروف کی نصیحت کی تو ساتھ ہی صبر کی تلقین بھی کی تھی : یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَط (لقمٰن : ١٧) ” اے میرے بچے نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو بھی تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو “- بہرحال راہ حق کے مسافروں کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ راستہ آزمائش و ابتلا کے خارزاروں سے ہو کر گزرتا ہے : وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ۔ (البقرۃ) ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو۔ “ - ؎ یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے - لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا - اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین
سورة العصر حاشیہ نمبر : 1 اس سورۃ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے ، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں ۔ ( 1 ) ایمان ( 2 ) عمل صالح ( 3 ) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا ( 4 ) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ۔ اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہوجائے ۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے اس سے پہلے بارہا ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے ، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے ۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں ۔ زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے ۔ ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے ، اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جاکر حال کو ماضی بنا رہی ہے ۔ یہاں چونکہ مطلقا زمانے کی قسم کھائی گئی ہے ، اس لیے دونوں طرح کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے ۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے ۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا ۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے ۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے ، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں ۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے ، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں ، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں کام کرنے کے لیے دی گئی ہے ، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے ۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخس پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے وَالْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ کا مطلب ۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے ۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے ، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے ۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کہی گئی ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہوکر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں ۔ نفع میں صرف وہ ولگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہوکر دنیا میں کام کریں ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو ، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو ، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے ۔ انسان کا لفظ اگرچہ واح ہے ، لیکن بعد کے فقرے میں اس سے ان لوگوں کو مستثنی کیا گیا ہے جو چار صفات سے متصف ہوں ، اس لیے لا محالہ یہ مانا پڑے گا کہ یہاں لفظ انسان اسم جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق افراد ، گروہوں ، اقوام ، اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے ۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خالی ہو وہ خسارے میں ہے ، ہر حالت میں ثابت ہوگا ، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو ، یا کوئی قوم ، یا دنیا بھر کے انسان ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کے لیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے ، یا ایک پوری قوم ، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں ۔ زہر کی مہلک خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے ، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے ، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے ، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہوگیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے ۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے ۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخس ان سے خالی ہو ، یا کسی قوم نے ، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر ، بد عملی ، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیا ہے ۔ اب یہ دیکھیے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ لغت کے اعتبار سے خسارہ نفع کی ضد ہے ، اور تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت میں بھی ہوتا ہے جب کسی ایک سودے میں گھاٹا آئے اور اس حالت میں بھی جب سارا کاروبار گھاٹے میں جارہا ہو ، اور اس حالت میں بھی جب اپنا سارا سرمایہ کھو کر آدمی دیوالیہ ہوجائے ۔ قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے ، اور جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر حاوی ہے ، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی ناکامی و نامرادی پر حاوی ہے ۔ فلاح اور خسران دونوں کے قرآنی تصور کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر کرچکے ہیں اس لیے ان کے اعادے کی حاجت نہیں ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الاعراف حاشیہ9 ۔ الانفال حاشیہ 30 ۔ یونس حاشیہ 23 ۔ بنی اسرائیل حاشیہ 102 ۔ جلد سوم ، الحج حاشیہ 17 ۔ المومنون حواشی ، 1 ۔ 2 ۔ 11 ۔ 50 ۔ جلد چہارم ، لقمان حاشیہ 4 ۔ الزمر حاشیہ 34 ) اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کہ نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی ، اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے ، لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ دراصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے ، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل خسارہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے ۔ اس حقیقیت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہم نے اس کی تشریح کردی ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، النحل حاشیہ 99 ۔ جلد سوم ، مریم حاشیہ 53 ۔ طہ حاشیہ 105 ۔ جلد ششم ، اللیل ، حواشی 3 ۔ 5 ) پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے ، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے ۔ اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورۃ کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے ۔ ان میں پہلی صفت ایمان ہے ۔ یہ لفظ اگرچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرار ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ ( مثلا النساء ، آیت 137 ۔ المائدہ ، آیت 54 ۔ الانفال ، آیت 20 ۔ 27 ۔ التوبہ آیت 38 ۔ الصف آیت 2 میں ) لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے ، اور عربی زبان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں ۔ لغت میں امن لہ کے معنی ہیں صدقہ واعتمد علیہ ( اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا ) اور امن بہ کے معنی ہیں ایقن بہ ( اس پر یقین کیا ) قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے ، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے ۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا ( الحجرات ۔ 15 ) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا ( حم السجدہ ۔ فصلت ۔ آیت 30 ) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ( الانفال 2 ) جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں ۔ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ( البقرہ ، 165 ) اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں ۔ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ( النساء ، 65 ) پس نہیں ( اے نبی ) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔ ان میں بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرار ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ( النساء ، آیت 136 ) اے لوگ جو ایمان لائے ہو ، ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ۔ اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے ، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے ۔ اس سے مراد اولا اللہ کو ماننا ہے ۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے ، خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ، وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ، بندگی اور اطاعت بجا لائے ۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے ، بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے ۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے ۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے ۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ، اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے ۔ ثانیا رسول کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالی کا مامور کیا ہوا ھادی اور رہنما ہے ، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، برحق ہے ، اور واجب التسلیم ہے ۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ، انبیاء اور کتب الہیہ پر ، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے ، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں ۔ ثالثا آخرت کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے ، بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا ہے ، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں ، خدا کو حساب دینا ہے ، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء ، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے ۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے ۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو ، اس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا ۔ ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ صالحات ( نیک کاموں ) پر عمل کرنا ہے ۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کو کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی ۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو ، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے ۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سورہ میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے ۔ کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر کسی عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے ۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے ۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے ۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو ، کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہوکر رہ گیا ۔ اسی بنا پر قرآن پاک میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں ، اور یہی بات اس سورہ میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے ۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا ۔ مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہیں ۔ اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں ، اور وہ یہ ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے ۔ دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے ، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں ۔ حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات ، خواہ وہ عقیدہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے ۔ دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو ، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق ۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں ، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں ، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیحت کرے ۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے ۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہوکر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں ۔ یہی بات ہے جو سورہ مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا ( آیات ، 78 ۔ 79 ) پھر اسی بات کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں تو ان پر عذاب نازل کردیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے ( آیات ، 163 تا 166 ) اور اسی بات کو سورہ انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ( آیت 25 ) اسی لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ( آل عمران ۔ 104 ) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے ( آل عمران 110 ) حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں ۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، اور اس راہ میں جن تکالیف سے ، جن مشقتوں سے ، جن مصائب سے اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں ۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد ششم ، الدھر ، حاشیہ 16 ۔ البلد حاشیہ 14 )