7۔ 1 یعنی اس کی حرارت دل تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ دنیا کی آگ کے اندر بھی یہ خاصیت ہے کہ وہ دل تک پہنچ جائے لیکن وہ پہنچتی نہیں کیوں انسا کی موت اس سے پہلے ہی ہوجاتی ہے لیکن جہنم کی آگ دلوں تک پہنچے گی لیکن موت نہ آئے گی۔ باوجود آرزو کے۔
[٦] فوأد کا لغوی مفہوم :۔ أفْئِدَۃَ : فوأد کی جمع ہے جو فأد سے مشتق ہے اور فَأدَ اللَحْمَ بمعنی گوشت کو بھوننا اور لَحْمٌ فَئِیْدٌیعنی بھونا ہوا گوشت، ابن الفارس کے نزدیک یہ لفظ گرمی اور شدید حرارت پر دلالت کرتا ہے۔ اور فُوَادُ سے مراد دل کا وہ حصہ ہے جو انسان کے جذبات، جذبات کی شدت اور تاثیر سے تعلق رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ دل کے اس حصے پر پہنچے گی جو جذبات کا مرکز ہے۔ جس میں زر پرستی کا جذبہ ہے اور جو دوسرے لوگوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنے اور اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھنے کے جذبات سے معمور ہے۔ یہ آگ اس کے جذبات کو اور دل کے اس حصے کو بھون کر رکھ دے گی۔
التی تطلع علی الافدۃ :” تطلع “ ” اطلع یطلع اطلاعاًٰ “ (افتعال) جھانکنا۔” الافدۃ “” فواد “ کی جمع ہے، دل۔ ” جو دلوں پر جھانت کی ہے “ یعنی وہ صاحب شعور ہے، دلوں میں جو کفر و نفاق اور بخل و کمینگی ہے یا ایمان اور سخاتو و کرم ہے سب دیکھ لیتی ہے اور جلاتی اسیک و ہے جو جلانے کے قابل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آگ بھی اگرچہ ہر چیز کو جلا ڈالتی ہے، مگر یہ آگ دل تک پہنچنے سے پہلے ہی آدمی کی موت واقع ہوجاتی ہے، جبکہ جہنم کی آگ جسم کو جلاتے ہوئے دل تک پہنچ جائے گی مگر آدمی مرے گا نہیں۔ دلوں تک آگ اس لئے پہنچے گی کہ دل ہی گندے عقائد، خبیث نیتوں اور کفر و نفاق کا مرکز ہے۔
تطلع علی الافدة یعنی یہ جہنم کی آگ دلوں تک پہنچ جائے گی۔ یوں تو ہر آگ کا خاصہ یہی ہے کہ جو چیز اس میں پڑے اس کے سبھی اجزاء کو جلا دیتی ہے انسان اس میں ڈالا جائے گا تو اس کے سارے اعضاء کے ساتھ دل بھی جل جائے گا، یہاں جہنم کی آگ کی یہ خصوصیت اس لئے ذکر کی گئی کہ دنیا کی آگ جب انسان کے بدن کو لگتی ہے تو اس کے دل تک پہنچنے سے پہلے ہی موت واقع ہوجاتی ہے بخلاف جہنم کے کہ اس میں موت تو آتی نہیں تو دل تک آگ کا پہنچنا بحالت حیات ہوتا ہے اور دل کے جلنے کی اذیت اپنی زندگی میں انسان محسوس کرتا ہے۔
الَّتِيْ تَطَّلِعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَۃِ ٧ ۭ- طَلَعَ- طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- فأد - الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ.- ( ف ء د ) الفواد - کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔- إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔
سورة الھمزۃ حاشیہ نمبر : 7 اصل الفاظ ہیں تَـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ ۔ تطلع اطلاع سے ہے جس کے ایک معنی چڑھنے اور اوپر پہنچ جانے کے ہیں ، اور دوسرے معنی با خبر ہونے اور اطلاع پانے کے ۔ افئدۃ فواد کی جمع ہے جس کے معنی دل کے ہیں ، لیکن یہ لفظ اس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے ، بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور و ادراک اور جذبات و خواہشات اور عقائد و افکار ، اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے ۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے برے خیالات ، فاسد عقائد ، ناپاک خواہشات و جذبات ، خبیث نیتوں اور ارادوں کا مرکز ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہوگی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر اس کے جرم کی نوعیت معلوم کرے گی اور ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق عذاب دے گی ۔