Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ابرہہ اور اس کا حشر: اللہ رب العزت نے قریش پر جو اپنی خاص نعمت انعام فرمائی تھی اس کا ذکر کر رہا ہے کہ جس لشکر نے ہاتھیوں کو ساتھ لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کہ وہ کعبے کے وجود کو مٹائیں ان کا نام ونشان مٹا دیا ۔ ان کی تمام فریب کاریاں ان کی تمام قوتیں سلب کرلیں برباد و غارت کردیا یہ لوگ مذہباً نصرانی تھے لیکن دین مسیح کو مسخ کردیا تھا قریباًبت پرست ہو گئے تھے انہیں اس طرح نامراد کرنا یہ گویا پیش خیمہ تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا اور اطلاع تھی آپ کی آمد آمد کی حضور علیہ السلام اسی سال تولد ہوئے اکثر تاریخ داں حضرات کا یہی قول ہے تو گویا رب العالم فرما رہا ہے کہ اے قریشیو حبشہ کے اس لشکر پر تمھیں فتح تمھاری بھلائی کی وجہ سے نہیں دی گئی تھی بلکہ اس میں ہمارے گھر کا بچاؤ تھا جسے ہم شرف بزرگی عظمت و عزت میں اپنے آخر الزمان پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سے بڑھانے والے تھے ۔ غرض اصحاب فیل کا مختصر واقعہ تو یہ ہے جو بیان ہوا اور مطول واقعہ اصحاب الاخدود کے بیان میں گذر چکا ہے کہ قبیلہ حمیر کا آخری بادشاہ ذونواس جو مشرک تھا جس نے اپنے زمانے کے مسلمانوں کو کھائیوں میں قتل کیا تھا جو سچے نصرانی تھے اور تعداد میں تقریباً بیس ہزار تھے سارے کے سارے شہید کر دئیے گئے تھے صرف دوس ذو ثعلبان ایک بچ گیا تھا جو ملک شام جا پہنچا اور قیصر روم سے فریاد رسی چاہی ۔ یہ بادشاہ نصرانی مذہب پر تھا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ اس کے ساتھ اپنی پوری فوج کردو اس لیے کہ یہاں سے دشمن کا ملک قریب تھا ۔ اس بادشاہ نے ارباط اور ابو یکسوم ابرہہ بن صباح کو امیر لشکر بنا کر بہت بڑا لشکر دے کر دونوں کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا یہ لشکر یمن پہنچا اور یمن کو اور یمنیوں کو تاخت و تاراج کردیا ۔ ذونواس بھاگ کھڑا ہوا اور دریا میں ڈوب کر مر گیا اور ان لوگوں کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور سارے یمن پر شاہ حبشہ کا قبضہ ہو گیا اور یہ دونوں سردار یہاں رہنے سہنے لگے لیکن کچھ تھوڑی مدت کے بعد ان میں ناچاقی ہو گئی آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں نے آمنے سامنے صفیں باندھ لیں اور لڑنے کے لیے نکل آئے عام حملہ ہونے سے بیشتر ان دونوں سرداروں نے آپس میں کہا کہ فوجوں کو لڑانے اور لوگوں کو قتل کرانے کی کیا ضرورت ، آؤ ہم تم دونوں میدان میں نکلیں اور ایک دوسرے سے لڑ کر فیصلہ کرلیں جو زندہ بچ جائے ملک و فوج اس کی ۔ چنانچہ یہ بات طے ہو گئی اور دونوں میدان میں نکل آئے ارباط نے ابرہہ پر حملہ کیا اور تلوار کے ایک ہی وار سے چہرہ خونا خون کردیا ناک ہونٹ اور منہ کٹ گیا ، ابرہہ کے غلام عتودہ نے اس موقعہ پر اریاط پر ایک بے پناہ حملہ کیا اور اسے قتل کردیا ابرہہ زخمی ہو کر میدان سے زندہ واپس گیا ۔ علاج معالجہ سے زخم اچھے ہو گئے اور یمن کا یہ مستقل بادشاہ بن بیٹھا ۔ نجاشی حبشہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور ایک خط ابرہہ کو لکھا اسے بڑی لعنت ملامت کی اور کہا کہ قسم اللہ کی میں تیرے شہروں کو پامال کردوں گا ۔ اور تیری چوٹی کاٹ لاؤں گا ، ابرہہ نے اس کا جواب نہایت عاجزی سے لکھا اور قاصد کو بہت سارے ہدئیے دئیے اور ایک تھیلی میں یمن کی مٹی بھر دی اور اپنی پیشانی کے بال کاٹ کر اس میں رکھ دئیے ۔ اور اپنے خط میں اپنے قصوروں کی معافی طلب کی اور لکھا کہ یہ یمن کی مٹی حاضر ہے اور چوٹی کے بال بھی ، آپ اپنی قسم پوری کیجئے اور ناراضی معاف فرمائیے اس سے شاہ حبشہ خوش ہو گیا اور یہاں کی سرداری اسی کے نام کردی ، اب ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں یہاں یمن میں آپ کے لیے ایک ایسا گرجا تعمیر کررہاں ہو کہ اب تک دنیا میں ایسا نہ بنا ہو اور اس گرجا گھر کا بنانا شروع کیا بڑے اہتمام اور کروفر سے بہت اونچا بہت مضبوط بے حد خوبصورت اور منقش و مزین گرجا بنایا ۔ اس قدر بلند تھا کہ چوٹی تک نظر ڈالنے والے کی ٹوپی گر پڑتی تھی اسی لیے عرب اسے قلیس کہتے یعنی ٹوپی پھینک دینے والا ۔ اب ابرہہ اشرم کو یہ سوجھی کہ لوگ بجائے کعبۃ اللہ کے حج کے اس کا حج کریں ، اپنی ساری مملکت میں اس کی منادی کرادی عدنانیہ اور قحطانیہ عرب کو یہ بہت برا لگا ادھرسے قریش بھی بھڑک اٹھے تھوڑے دن میں کوئی شخص رات کے وقت اس کے اندر گھس گیا اور وہاں پاخانہ کرکے چلا آیا چوکیدار نے جب یہ دیکھا تو بادشاہ کو خبر پہنچائی اور کہا کہ یہ کام قریشیوں کا ہے چونکہ آپ نے ان کا کعبہ روک دیا ہے لہٰذا انہوں نے جوش اور غضب میں آکر یہ حرکت کی ہے ابرہہ نے اسی وقت قسم کھالی کہ میں مکہ پہنچوں گا اور بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا اور ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ چند ملے جلے نوجوان قریشیوں نے اس گرجا میں آ ۤگ لگا دی تھی اور اس وقت ہوا بھی بہت تیز تھی سارا گرجا جل گیا اور منہ کے بل زمین پر گر گیا اس پر ابرہہ نے بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر مکہ پر چڑھائی کی تاکہ کوئی روک نہ سکے اور اپنے ساتھ ایک بڑا اونچا اور موٹا ہاتھی لیا جسے محمود کہا جاتا تھا ۔ اس جیسا ہاتھی اور کوئی نہ تھا شاہ حبشہ نے یہ ہاتھی اس کے پاس اسی غرض سے بھیجا تھا آٹھ یا بارہ ہاتھی اور بھی ساتھ تھے یہ کعبے کے ڈھانے کی نیت سے چلا یہ سوچ کر کہ کعبہ کی دیواروں میں مضبوط زنجیریں ڈال دوں گا اور ہاتھیوں کی گردنوں میں ان زنجیروں کو باندھ دوں گا ہاتھی ایک ہی جھٹکے میں چاروں دیواریں بیت اللہ کی جڑ سے گرا دیں گے ، جب اہل عرب کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو ان پر بڑا بھاری اثر ہوا انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ضرور اس سے مقابلہ کریں گے اور اسے اس کی اس بدکرداری سے روکیں گے ایک یمنی شریف سردار جو وہاں کے بادشاہوں کی اولاد میں سے تھا جسے ذونفر کہا جاتا تھا یہ کھڑا ہوگیا اپنی قوم کو اور کل آس پاس کے عرب کو جمع کیا اور اس بدنیت بادشاہ سے مقابلہ کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا عربوں کو شکست ہوئی اور ذو نفر اس خبیث کے ہاتھ میں قید ہو گیا اس نے اسے بھی ساتھ لیا اور مکہ شریف کی طرف بڑھا خثم قبیلے کی زمین پر جب یہ پہنچا تو یہاں نفیل بن حبیب خثعمی نے اپنے لشکر وں سے اس کا مقابلہ کیا لیکن ابرہہ نے انہیں بھی مغلوب کر لیا اور نفیل بھی قید ہو گیا پہلے تو اس ظالم نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن پھر قتل نہ کیا اور قید کرکے ساتھ لے لیا تاکہ راستہ بنائے ، جب طائف کے قریب پہنچا تو قبیلہ ثقیف نے اس سے صلح کرلی کہ ایسا نہ ہو ان کے بت خانوں کو جس میں لات نامی بت تھا یہ توڑ دے اس نے بھی ان کی بڑی آؤ بھگت کی انہوں نے ابو رغال کو اس کے ساتھ کردیا کہ یہ تمھیں وہاں کا راستہ بتائے گا ۔ ابرہہ جب مکے کے بالکل قریب معمس کے پہنچا تو اس نے یہاں پڑاؤ کیا اس کے لشکر نے آس پاس مکہ والوں کے جو جانور اونٹ وغیرہ چر چگ رہے تھے سب کو اپنے قبضہ میں کیا ان جانوروں میں دوسو اونٹ تو صرف عبدالمطلب کے تھے اسود بن مقصود جو اس کے لشکر کے ہر اول کا سردار تھا اس نے ابرہہ کے حکم سے ان جانوروں کو لوٹا تھا ، جس پر عرب شاعروں نے اس کی ہجو میں اشعار تصنیف کئے ہوئے ہیں جو سیرۃ ا بن اسحاق میں موجود ہیں ، اب ابرہہ نے اپنا قاصد حناطہ حمیری مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ مکہ کے سب سے بڑے سردار کو میرے پاس لاؤ اور یہ بھی اعلان کر دو کہ میں مکہ والوں سے لڑنے نہیں آیا میرا ارادہ صرف بیت اللہ کو گرانے کاہے ہاں اگر مکہ والے اس کے بچانے کے درپے ہوئے تو لامحالہ مجھے ان سے لڑائی کرنی پڑے گی ، حناطہ جب مکہ میں آیا اور لوگوں سے ملا جلا تو معلوم ہوا کہ یہاں کا بڑا سردار عبدالمطلب بن ہاشم ہے ، یہ عبدالمطلب سے ملا اور شاہی پیغام پہنچایا جس کے جواب میں عبدالمطلب نے کہا واللہ نہ ہمارا ارادہ اس سے لڑنے کا ہے نہ ہم میں اتنی طاقت ہے یہ اللہ کا حرمت والا گھر ہے اس کے خلیل حضرت ابراہیم کی زندہ یادگار ہے اللہ اگر چاہے گا تو اپنے گھر کی آپ حفاظت کرے گا ، ورنہ ہم میں تو ہمت و قوت نہیں ۔ حناطہ نے کہا اچھا تو آپ میرے ساتھ بادشاہ کے پاس چلے چلئے عبدالمطلب ساتھ ہوئے ، بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو ہیبت میں آگیا عبدالمطلب گورے چٹے سڈول اور مضبوط قوی والے حسین و جمیل انسان تھے ، دیکھتے ہی ابرہہ تخت سے نیچے اتر آیا اور فرش پر عبدالمطلب کے ساتھ بیٹھ گیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھ کہ کیا چاہتا ہے ؟عبدالمطلب نے کہا میرے دو سو اونٹ جو بادشاہ نے لے لئے ہیں انہیں واپس کردیا جائے بادشاہ نے کہا ان سے کہہ دے کہ پہلی نظر میں تیرا رعب مجھ پر پڑا تھا اور میرے دل میں تیری وقعت بیٹھ گئی تھی لیکن پہلے ہی کلام میں تو نے سب کچھ کھو دی اپنے دوسو اونٹ کی تو تجھے فکر ہے اور اپنے اور اپنی قوم کے دین کی تجھے فکر نہیں میں تو تم لوگوں کا عبادت خانہ توڑنے اور اسے خاک میں ملانے کے لیے آیا ہوں ۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ سن بادشاہ اونٹ تو میرے ہیں اس لیے انہیں بچانے کی کوشش میں میں ہوں اور خانہ کعبہ اللہ کا ہے وہ خود اسے بچالے گا اس پر یہ سرکش کہنے لگا کہ اللہ بھی آج اسے میرے ہاتھ سے نہیں بچا سکتا ، عبدالمطلب نے کہا بہتر ہے وہ جانے اور تو جان ، یہ بھی مروی ہے کہ مکہ نے تمام حجاز کا تہائی مال ابرہہ کو دینا چاہا کہ وہ اپنے اس بد ارادہ سے باز آئے لیکن اس نے قبول نہ کیا خیر عبدالمطلب تو اپنے اونٹ لے کر چل دئیے اور آکر قریش کو حکم دیا کہ مکہ بالکل خالی کردو پہاڑوں میں چلے جاؤ ، اب عبدالمطلب اپنے ساتھ قریش کے چیدہ چیدہ لوگوں کو لے کر بیت اللہ میں آیا اور بیت اللہ کے دروازہ کا کنڈا تھام کر رو رو کر اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کیں کہ باری تعالیٰ ابرہہ اور اس کے خونخوار لشکر سے اپنے پاک اور ذی عزت گھر کو بچا لے عبدالمطلب نے اس وقت یہ دعائیہ اشعار پڑھے ۔ لا ھم ان المرایم نع رحلہ فامنع رحالک لا یغلبن صلیبھم ومحالھم ابدا محالک یعنی ہم بے فکر ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر والا اپنے گھر کا بچاؤ آپ کرتا ہے اے اللہ تو بھی اپنے گھر کو اپنے دشمنوں سے بچا یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان کی صلیب اور ان کی ڈولیں تیری ڈولوں پر غالب آجائیں ۔ اب عبدالمطلب نے بیت اللہ کے دروازے کا کنڈا ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو لے کر آس پاس کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گیا یہ بھی مذکور ہے کہ جاتے ہوئے قربانی کے سو اونٹ بیت اللہ کے ارد گرد نشان لگا کر چھوڑ دئیے تھے اس نیت سے کہ اگر یہ بددین آئے اور انہوں نے اللہ کے نام کی قربانی کے ان جانوروں کو چھیڑا تو عذاب الٰہی ان پر اترے گا ، دوسری صبح ابرہہ کے لشکر میں مکہ جانے کی تیاریاں ہونے لگیں اپنا خاص ہاتھی جس کا نام محمود تھا اسے تیار کیا لشکر میں کمر بندی ہو چکی تھی اور مکہ شریف کی طرف منہ اٹھا کرچلنے کی تیاری کی اس وقت نفیل بن حبیب جو اس سے راستے میں لڑا تھا اور اب بطور قیدی کے اس کے ساتھ تھا وہ آگے بڑھا اور شاہی ہاتھی کا کان پکڑ لیا اور کہا محمود بیٹھ جا اور جہاں سے آیا ہے وہیں خیریت کے ساتھ چلا جاتواللہ تعالیٰ کے محترم شہر میں ہے یہ کہہ کر کان چھوڑ دیا اور بھاگ کر قریب کی پہاڑی میں جا چھپا ، محمود ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا ، اب ہزار جتن فیلبان کررہے ہیں لشکری بھی کوششیں کرتے کرتے تھک گئے لیکن ہاتھی اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں ، سر پر آنکس ماررہے ہیں ادھر ادھر سے بھالے اور برچھے ماررہے ہیں آنکھوں میں آنکس ڈال رہے ہیں غرض تمام جتن کر لئے لیکن ہاتھی جنبش بھی نہیں کرتا پھر بطور امتحان کے اس کا منہ یمن کی طرف کرکے چلانا چاہا تو جھٹ سے کھڑا ہو کر دوڑتا ہوا چل دیا شام کی طرف چلانا چاہاتو بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ گیا ، مشرق کی طرف لے جانا چاہا تو بھی بھاگا بھاگا گیا پھر مکہ شریف کی طرف منہ کرکے آگے بڑھانا چاہاوہیں بیٹھ گیا ، انہوں نے پھر اسے مارنا شروع کیا دیکھا کہ ایک گھٹا ٹوپ پرندوں کا جھرمٹ بادل کی طرح سمندر کے کنارے کی طرف سے امڈ ا چلا آرہا ہے ابھی پوری طرح دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ وہ جانور سر پر آگئے چاروں طرف سے سارے لشکر کو گھیر لیا اور ان میں ہر ایک کی چونچ میں ایک مسر یا ماش کے دانے برابر کنکری تھی ، اور دونوں پنجوں میں دو دو کنکریاں تھیں یہ ان پر پھینکنے لگے جس پر یہ کنکری آن پڑی وہ وہیں ہلاک ہو گیا ، اب تو اس لشکر میں بھاگڑ پڑ گئی ہر ایک نفیل نفیل کرنے لگا کیونکہ اسے ان لوگوں نے اپنا راہبر اور راستے بتانے والاسمجھ رکھا تھا نفیل تو ہاتھی کو کہہ کر پہاڑ پر چڑھ گیا اور دیگر اہل مکہ ان لوگوں کی یہ درگت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور نفیل وہیں کھڑا یہ اشعار پڑھ رہا تھا ۔ این المفر والا لہ الطالب والاشرم المغلوب لیس الغالب اب جائے پناہ کہاں ہے ؟جبکہ اللہ خود تاک میں لگ گیا ہے سنو اشرم بدبخت مغلوب ہو گیا اب یہ پنپنے کا نہیں اور بھی نفیل نے اس واقعہ کے متعلق بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کاش کہ تو اس وقت موجود ہوتا جبکہ ان ہاتھی والوں کی شامت آئی ہے اور وادی محصب میں ان پر عذاب کے سنگریزے برسے ہیں تو اس وقت تو اس اللہ کے لشکر یعنی پرندوں کو دیکھ کر قطعاً سجدے میں گر پڑتا ہم تو وہاں کھڑے حمد رب کی راگنیاں الاپ رہے تھے گو کلیجے ہمارے بھی اونچے ہو گئے تھے کہ کہیں کوئی کنکری ہمارا کام بھی تمام نہ کر دے نصرانی منہ موڑے بھاگ رہے تھے اور نفیل نفیل پکار رہے تھے ۔ گویا کہ نفیل پر ان کے باپ دادوں کا کوئی قرض تھا واقدی فرماتے ہیں یہ پرندے زرد رنگ کے تھے کبوتر سے کچھ چھوٹے تھے ان کے پاؤں سرخ تھے اور روایت میں ہے کہ جب محمود ہاتھی بیٹھ گیا اور پوری کوشش کے باوجود بھی نہ اٹھا تو انہوں نے دوسرے ہاتھی کو آگے کیا اس نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اس کی پیشانی پر کنکری پڑی اور بلبلا کر پیچھے ہٹا اور پھرا اور ہاتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے ادھر برابر کنکریاں آنے لگیں اکثر تو وہیں ڈھیر ہو گئے اور بعض جو ادھر ادھر بھاگ نکلے گا ان میں سے کوئی جانبر نہ ہوا بھاگتے بھاگتے ان کے اعضاء کٹ کر گر تے جاتے تھے اور بالآخر جان سے جاتے تھے ابرہہ بادشاہ بھی بھاگا لیکن ایک ایک عضو بدن جھڑنا شروع ہوا یہاں تک کہ خثعم کے شہروں میں سے صنعا میں جب وہ پہنچا تو بالکل گوشت کا لوتھڑا بنا ہوا تھا وہیں بلک بلک کر دم توڑا اور کتے کی موت مرا دل تک پھٹ گیا قریشیوں کو بڑ ا مال ہاتھ لگا ، عبدالمطلب نے تو سونے سے ایک کنواں پر کرلیا تھا ، زمین عرب میں آبلہ اور چیچک اسی سال پیدا ہوتے ہوئے دیکھے گئے اور اسی طرح سپند اور حنظل وغیرہ کے کڑوے درخت بھی اسی سال زمین عرب میں دیکھے گئے ہیں پس اللہ تعالیٰ بزبان رسول معصوم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی یہ نعمت یاد دلاتا ہے اور گویا فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم میرے گھر کی اسی طرح عزت و حرمت کرتے رہتے اور میرے رسول کو مانتے تو میں بھی اسی طرح تمھاری حفاظت کرتا اور تمھیں دشمنوں سے نجات دیتا ابابیل جمع کا صیغہ ہے اس کا واحد لغت عرب میں پایا نہیں گیا ، سجیل کے معنی ہیں بہت ہی سخت اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو فارسی لفظوں سے مرکب ہے یعنی سنگ اور گل سے یعنی مٹی اور پتھر غرض سجیل وہ ہے جس میں پتھر معہ مٹی کے ہو ، عصف جمع ہے عصفۃ کی کھیتی کے ان پتوں کو کہتے ہیں جو پک نہ گئے ہوں ۔ ابابیل کے معنی ہیں گروہ گروہ جھنڈ بہت سارے پے در پے جمع شدہ ادھر ادھر سے آنے والے بعض نحوی کہتے ہیں اس کا واحد ابیل ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان پر ندوں کی چونچ تھی پرندوں جیسی اور پنجے کتوں جیسے عکرمہ فرماتے ہیں یہ سبز رنگ کے پرند تھے جو سمندر سے نکلے تھے ان کے سر درندوں جیسے تھے اور اقوال بھی ہیں یہ پرند باقاعدہ ان لشکریوں کے سروں پر پرے باندھ کر کھڑے ہو گئے اور پھر چیخنے لگے پھر پتھر کیا جس کے سر میں لگا اس کے نیچے سے نکل گیا اور دو ٹکڑے ہو کر زمین پر گرا جس کے جس عضو پر گرا وہ عضو ساقط ہو گیا ساتھ ہی تیز آندھی آئی جس سے اور آس پاس کے کنکر بھی ان کی آنکھوں میں گھس گئے اور سب تہہ و بالا ہوگئے عصف کہتے ہیں چارے کو اور کٹی کھیتی کو اور گیہوں کے درخت کے پتوں کو اور ماکول سے مراد ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ عصف کہتے ہیں بھوسی کو جوا ناج کے دانوں کے اوپر ہوتی ہے ابن زید فرماتے ہیں مراد کھیتوں کے وہ پتے ہیں جنھیں جانور چرچکے ہوں مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو تہس نہس کردیا اور عام خاص کو ہلاک کر دیا اس کی ساری تدبیریں الٹ ہو گئیں کوئی بھلائی انہیں نصیب نہ ہوئی ایسا بھی کوئی ان پر صحیح سالم نہ رہا جو کہ ان کی خبر پہنچائے ، جو بھی بچا وہ زخمی ہو کر اور اس زخم سے پھر جاں بر نہ ہو سکا ، خود بادشاہ بھی گو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا تھا جوں توں صنعا میں پہنچالیکن وہاں جاتے ہی اس کا کلیجہ پھٹ گیا اور واقعہ بیان کر ہی چکا تھا کہ مر گیا ، اس کے بعد اسکا لڑکا یکسو یمن کا بادشاہ بنا پھر اس کے دوسرے بھائی مسروق بن ابرہہ کو سلطنت ملی اب سیب بن ذویزن حمیری کسریٰ کے دربار میں پہنچا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ وہ اہل حبشہ سے لڑے اور یمن ان سے خالی کرالے کسریٰ نے اس کے ساتھ ایک لشکر جرار کردیا اس لشکر نے اہل حبشہ کو شکست دی اور ابرہہ کے خاندان سے سلطنت نکل گئی اور پھر قبیلہ حمیر یہاں کا بادشاہ بن گیا عربوں نے اس پر بڑی خوشی منائی اور چاروں طرف سے مبارکبادیاں وصول ہوئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ابرہہ کے لشکر کے فیلبان اور چرکٹے کو میں نے مکہ شریف میں دیکھا دونوں اندھے ہو گئے تھے چل پھر نہیں سکتے تھے اور بھیک مانگا کرتے تھے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اساف اور نائلہ بتوں کے پاس یہ بیٹھے رہتے تھے جہاں مشرکین اپنی قربانیاں کرتے تھے اور لوگوں سے بھیک مانگتے پھرتے تھے اس فیلبان کا نام انیسا تھا ، بعض تاریخوں میں یہ بھی ہے کہ ابرہہ خواد اس چڑھائی میں نہ تھا بلکہ اس نے اپنے لشکر کو بہ ماتحتی شمس بن مقصود کے بھیجا تھا یہ لشکر بیس ہزار کا تھا اور یہ پرند ان کے اوپر رات کے وقت آئے تھے اور صبح تک ان سب کا ستیا ناس ہو چکا تھا لیکن یہ روایت بہت غریب ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ خود ابرہہ اشرم حبشی ہی اپنے ساتھ لشکر لے کر آیا تھایہ ممکن ہے کہ اس کے ہراول کے دستہ پر یہ شخص سردر ہو ، اس واقعہ کو بہت سے عرب شاعروں نے اپنے شعروں میں بھی بسط کے ساتھ بیان کیا ہے ، سورہ فتح کی تفسیر میں ہم اس واقعہ کو مفصل بیان کرآئے ہیں جس میں ہے کہ جب حدیبیہ والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ٹیلے پر چڑھے جہاں سے آپ قریشیوں پر جانیو الے تھے تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی لوگوں نے اسے ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ نہ اٹھی لوگ کہنے لگے قصواء تھک گئی آپ نے فرمایا یہ تھکی نہ اس میں اڑنے کی عادت ہے اسے اس اللہ نے روک لیاہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مکے والے جن شرائط پر مجھ سے صلح چاہیں گے میں سب مان لوں گا بشرطیکہ اللہ کی حرمتوں کی ہتک اس میں نہ ہو پھر آپ نے اسے ڈانٹا تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوگی ۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم کی اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ پر سے ہاتھیوں کو روک لیا اور اپنے نبی کو وہاں کا قبضہ دیا اور اپنے ایماندار بندوں کو ، سنو آج اس کی حرمت ویسی ہی لوٹ کر آگئی ہے جیسے کل تھی ، خبر دار ہر حاضر کو چاہیے کہ غیر حاضر کو پہنچا دے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سورہ فیل کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جو یمن سے خانہ کعبہ کی تخریب کے لئے آئے تھے، الم تعلم کیا تجھے معلوم نہیں ؟ استفہام تقریر کے لیے ہے، یعنی تو جانتا ہے یا وہ سب لوگ جانتے ہیں جو تیرے ہم عصر ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عرب میں یہ واقعہ گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مشہور ترین قول کے مطابق یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی تھی، اس لئے عربوں میں اس کی خبریں مشہور اور متواتر تھیں یہ واقع مختصر حسب ذیل ہے : واقعہ اصحاب الفیل : حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہتہ الاشرم گورنر تھا اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا (عبادت گھر) تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے عبادت اور حج عمرہ کے لئے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لئے سخت ناگوار تھی۔ چناچہ ان میں سے ایک شخص ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کردیا، جس کی اطلاع اس کو کردی گئی کہ کسی نے اس طرح گرجا کو ناپاک کردیا ہے، جس پر اس نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کرلیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ لشکر وادی محسر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیج دیئے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس فوجی کے بھی یہ کنکری لگتی وہ پگل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا۔ خود ابرہہ کا بھی صنعاء پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا۔ اسطرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، مکہ کے قریب پہنچ کر ابرہہ کے لشکر نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا کے، جو مکہ کے سردار تھے، اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جس پر عبدالمطلب نے آ کر ابرہہ سے کہا کہ تو میرے اونٹ واپس کر دے جو تیرے لشکریوں نے پکڑے ہیں۔ باقی رہا خانہ کعبہ کا مسئلہ جس کو ڈھانے کے لئے تو آیا ہے تو وہ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اللہ کا گھر ہے، وہی محافظ ہے، تو جانے اور بیت اللہ کا مالک اللہ جانے۔ (ایسر التفاسیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] یمن میں ابرہہ کا عالی شان گرجا تعمیر کرنا :۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے۔ تاہم اس کے مخاطب تمام اہل عرب ہیں۔ قرآن میں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ یہ لوگ کون تھے ؟ کہاں سے آئے تھے اور کس غرض سے آئے تھے۔ اس لیے کہ یہ واقعہ بالکل قریبی زمانہ میں پیش آیا تھا اور عرب کا بچہ بچہ اس کی تفصیلات سے واقف تھا اور بہت سے شعراء نے اس واقعہ کو اپنے اپنے قصائد اور منظوم کلام میں قلمبند کردیا تھا۔ واقعہ مختصراً یہ تھا کہ یمن میں اہل حبشہ کی عیسائی حکومت قائم تھی اور ابرہہ نامی ایک شخص حکومت حبشہ کا نائب السلطنت مقرر تھا۔ وہ بیت اللہ کے اثر و رسوخ اور عزت و عظمت سے بہت حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا یہ تھا کہ عرب بھر میں یمن کے دارالخلافہ صنعاء کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے جو مکہ کو حاصل ہے۔ اور قریش مکہ کعبہ کی وجہ سے جو سیاسی، تمدنی، تجارتی اور معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری حکومت کو حاصل ہونا چاہئیں۔ اسی غرض سے اس نے صنعاء میں ایک عالی شان کلیسا تعمیر کرایا۔- خ کعبہ پر حملہ کا ارادہ :۔ کلیسا کی عمارت کعبہ کے مقابلہ میں بڑی پر شکوہ اور عالی شان تھی۔ اس کے باوجود لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ بلکہ جب عرب قبائل کو اس کلیسا کی تعمیر کی غرض وغایت معلوم ہوئی تو کسی نے خفیہ طور پر اس کلیسا میں پاخانہ کردیا۔ اور ایک دوسری روایت کے مطابق کسی نے اسے آگ لگا دی۔ جس سے ابرہہ کو کعبہ پر چڑھائی کرنے اور اسے تباہ و برباد کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اور یہ ممکن ہے کہ اس نے خود ہی کعبہ پر چڑھائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پیدا کرنے کے لیے خود ہی اس کلیسا کو آگ لگوائی ہو یا اس کی بےحرمتی کروائی ہو۔ بہرحال ابرہہ نے کعبہ پر چڑھائی کے لیے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا۔ اس لشکر میں تیرہ ہاتھی بھی تھے اور وہ خود بھی ایک اعلیٰ درجہ کے محمود نامی ہاتھی پر سوار تھا۔ یہ لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا تو راستہ میں اکثر عرب قبائل مزاحم ہوئے لیکن ابرہہ کے اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں ان کی کیا حیثیت تھی۔ وہ شکست کھاتے اور گرفتار ہوتے گئے۔ بالآخر ابرہہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام محسر تک پہنچ گیا۔ اس نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبدالمطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم اور قریشیوں کے سردار تھے، کے دو سو اونٹ بھی اپنے قبضہ میں کرلیے۔ پھر اہل مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں صرف کعبے کو ڈھانے آیا ہوں۔ آپ لوگوں سے لڑنے نہیں آیا۔ لہذا اگر تم لوگ تعرض نہ کرو گے تو تمہارے جان و مال محفوظ رہیں گے اور میں اس سلسلہ میں گفت وشنید کے لیے تیار ہوں۔ - خ ابرہہ اور عبدالمطلب کا مکالمہ :۔ اس پیغام پر عبدالمطلب اس سے گفتگو کرنے کے لیے اس کے ہاں چلے گئے۔ قریش مکہ کو اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ وہ کسی طرح بھی ابرہہ کے لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے۔ لہذا عبدالمطلب نے روانگی سے قبل ہی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی حفاظت خود کریں اور اپنے اموال سمیت پہاڑوں میں چھپ جائیں۔ پھر ان لوگوں نے کعبہ میں جاکر خالصتاً اللہ تعالیٰ سے نہایت خلوص نیت کے ساتھ دعائیں کی تھیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت کرے۔ کیونکہ ہم میں اتنی سکت نہیں۔ اس وقت بھی کعبہ میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے مگر اس آڑے وقت میں وہ اپنے سب معبودوں کو بھول گئے اور اکیلے اللہ سے دعائیں کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیں۔ جب عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خود آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ؟ عبدالمطلب نے بڑی سادگی سے جواب دیا : اپنے اونٹوں کی واپسی اس جواب پر ابرہہ سخت حیران ہوا جیسے آپ کی قدر و منزلت اس کی نظروں سے گرگئی ہو، پھر کہنے لگا : میرا تو خیال تھا کہ آپ کعبہ کے متعلق کوئی بات کرینگے ؟ عبدالمطلب نے پھر سادگی سے جواب دیا کہ : اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لیے ان کا مطالبہ کردیا۔ کعبہ کا مالک میں نہیں۔ اس کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔ آپ جانیں اور وہ جانے۔ اس جواب پر وہ اور بھی حیران ہوا تاہم اس نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردیے۔ عبدالمطلب واپس چلے آئے اور آکر لوگوں کو پھر اپنی حفاظت کی تاکید کردی۔ اور ابرہہ نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کی تیاری شروع کردی۔ سب سے پہلا کام تو یہ ہوا کہ اس کے اپنے ہاتھی محمود نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کرنے سے انکار کردیا۔ اسے بہتیرے تیر لگائے گئے اور آنکس مارے گئے مگر وہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا تھا اور جب اس کا رخ کعبہ کے علاوہ کسی دوسری طرف کیا جاتا تو فوراً دوڑنے لگتا تھا۔ یہ لوگ اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ یا بالفاظ دیگر اپنے لشکر بھیج دیے۔- خ ابابیلوں کی کنکر باری :۔ ان پرندوں میں سے ہر ایک کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور دو کنکر دونوں پنچوں میں تھے۔ ان پرندوں نے وہی کنکر اس لشکر پر پھینک کر کنکروں کی بارش کردی۔ یہ کنکر ایسی تیزی سے لگتے تھے جیسے بندوق کی گولی لگتی ہو۔ جہاں کنکر لگتا زخم ڈال دیتا تھا اور کبھی آر پار بھی گزر جاتا تھا۔ چناچہ اس لشکر کے بیشتر افراد تو وہیں مرگئے۔ باقی جو بچے وہ واپس مڑے لیکن وہ راستہ میں مرگئے۔ ابرہہ خود بھی راستے میں ہی مرا تھا۔ اور اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے صرف ٥٠ دن پہلے محرم میں پیش آیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) الم ترکیف فعل ربک …:” الم تر “ کا لفظی معنی ہے ” کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ “ مگر مجاہد (رح) (جو ابن عباس (رض) عنہماکے شاگرد ہیں) نے اس کا معنی کیا ہے :” الم تعلم “ ” کیا تجھے معلوم نہیں ؟ “ (بخاری، التفسیر، باب سورة الفیل، قبل ح : ٣٩٦٣) جب قرآن اترا اس وقت یہ واقعہ اتنا معروف تھا گویا لوگوں کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔ بعض لوگوں نے اس لفظ سے یہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واقعہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور یہ کہ آپ عالم الغیب تھے۔ درحقیقت یہ کہنا کلام عرب اور اسلوب قرآن سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اولم یر الانسان انا خلقنہ من نطفۃ فاذا ھو خصیم مبین) (یٰسین : ٨٨)” اور کیا انسان نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑا لو ہے۔ “ اب کیا کسی انسان نے اپنے آپ کو نطفہ سے پیدا ہوتے ہوئے دیکھا ہے ؟ ؟ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ ” کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ “” الم تعلم “ (کیا تو نے نہیں جانا) کے بجائے ” الم تر “ (کیا تو نے نہیں دیکھا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اتنا یقینی واقعہ ہے کہ سمجھو تم نے اسے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ - (٢)” ہاتھی والوں “ سے مراد یمن کا ایک نصرانی حاکم ابرہہ اور اس کا لشکر ہے۔ ابرہہ نے ایک عظیم الشان گرجا بنا کر یہ چاہا کہ لوگ کعبہ کی طرح اس کی زیارت کے لئے آیا کریں۔ جب وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا تو وہ ایک بہت بڑا لشکر جس میں پہنچا جس کا نام بعد میں ودی محشر پڑا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے گروہ درگروہ پرندے نمودار ہوئے جن کے پنجوں اور چونچوں میں کنکر تھے، انہوں نے اس لشکر پر وہ کنکریاں پھینکیں جن سے ابرہہ اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا ۔ یہ سیرت اور تاریخ میں مذکور واقعے کا خلاصہ ہے۔ (دیکھیے سیرت ابن ہشام اور تفسیر ابن کثیر)- صحیح اسانید کیساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس واقعے کا مختصر ذکر موجود ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اللہ حبس عن مکۃ الفیل ، وسلط علیھا رسولہ و المومنین ، فانھا لاتجل لاحد کان قبلی، وانھا احلت لی ساعۃ من نھار، وانھا لن تجل لا خد یعدی ) (بخاری، اللقطۃ ، باب کیف تعرف لفطۃ اھل مکۃ ؟: ٢٣٣٣)” اللہ تعالیٰ نے مکہ یہ اتھیوں کو روک دیا اور اس پر اپنے رسول اور ایمان والوں کو غلبہ عطا فرما دیا، تو یہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا اور میرے لئے بھی دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال ہوا ہے۔ اب میرے بعد کسی کے لئے (اس میں لڑنا) حلال نہیں ہوگا۔ “ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ میں اترا جاتا تھا تو آپ کی اونٹنی بیٹھ گئی، لوگوں نے (اسے اٹھانے کے لئے) کہا :(جل جل) لیکن وہ بیٹھی رہی۔ لوگوں نے ہا :” قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماخلات القصواء ، وما ذلک لھا یخلق، ولکن حسبھا حابس الفیل) (بخاری، الشروط، باب الشروط فی الجھاد :(٢٨٣١، ٢٨٣٢)” قصواء اڑی نہیں اور نہ یہ اس کی عادت ہے، اسے تو ہاتھیوں کو روکنے والے نے روک دیا ہے۔ “ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھی والے جب مکہ پر حملے کے لئے آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا معاملہ کیا (اس استفہام وسوال سے مقصد اس واقعہ کی عظمت اور ہولناک ہونے پر تنبیہ کرنا ہے۔ آگے اس معاملہ کا بیان ہے) کیا ان کی تدبیر کو (جو کعبہ ویران کرنے کے لئے تھی) سرتاپا غلط نہیں کردیا (یہ استفہام وسوال تقریری ہے یعنی واقعہ کی صحت ثابت کرنے کے لئے) اور ان پر غول کے غول پرندے بھیجے جو ان لوگوں پر کنکر کی پتھریاں پھینکتے تھے سو اللہ تعالیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح (پامال) کردیا (حاصل یہ کہ احکام الہیہ کی بےحرمتی کرنے والوں کو ایسے عذاب و عقاب سے بےفکر نہ رہنا چاہئے ہوسکتا ہے کہ دنیا ہی میں عذاب آجائے جیسے اصحاب فیل پر آیا ورنہ آخرت کا عذاب تو یقینی ہی ہے) - معارف ومسائل - اس سورت میں اصحاب فیل کے واقعہ کا مختصر بیان ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو مسمار کرنے کے قصد سے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی، حق تعالیٰ نے معمولی پرندوں کے ذریعہ ان کی فوج کو عذاب آسمانی نازل فرما کر نیست و نابود کر کے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔- واقعہ فیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے سال میں ہوا :۔ یہ واقعہ اس سال میں پیش آیا جس سال میں حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی بعض روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور یہی مشہور قول ہے (ابن کثیر) حضرت محدثین نے اس واقعہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک قسم کا معجزہ قرار دیا ہے مگر چونکہ معجزات کا قانون یہ ہے کہ وہ نبی کے دعوائے نبوت کے ساتھ ان کی تصدیق کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں دعوائے نبوت سے پہلے بلکہ نبی کی ولادت سے بھی پہلے حق تعالیٰ بعض اوقات دنیا میں ایسے واقعات اور نشانیاں ظاہر فرماتے ہیں جو خرق عادت ہونے میں مثل معجزہ کے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی نشانیوں کو محدثین کی اصطلاح میں ارہاص کہا جاتا ہے جو تاسیس و تمہید کے منیک میں استعمال ہوتا ہے۔ رہص سنگ بنیاد کو کہتے ہیں (قاموس) انبیاء (علیہم السلام) کی دنیا میں تشریف آوری سے یا ان کے دعوائے نبوت سے پہلے بھی حق تعالیٰ کچھ ایسی نشانیاں ظاہر فرماتے ہیں جو معجزات کی قسم سے ہوتی ہیں اور ایسی نشانیاں چونکہ ان کی نبوت کے اثبات کا مقدمہ اور اس قسم کی تمہید و تاسیس ہوتی ہیں اس لئے ان کو ارہاص کہا جاتا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور ولادت سے پہلے بھی اس قسم کے ارہاصات متعدد قسم کے ہوئے ہیں۔ اصحاب فیل کو آسمانی عذاب کے ذریعہ بیت اللہ پر حملے سے روک دینا بھی انہی ارہاصات میں سے ہے۔- اصحاب فیل کا واقعہ :۔ امام حدیث و تاریخ ابن کثیر نے اس طرح نقل فرمایا ہے کہ یمن پر ملوک حمیر کا قبضہ تھا یہ لوگ مشرک تھے ان کا آخری بادشاہ ذونواس ہے جس نے اس زمانے کے اہل حق یعنی نصاریٰ پر شدید مظالم کئے، اسی نے ایک طویل عریض خندق کھدوا کر اس کو آگ سے بھرا اور جتنے نصرانی بت پرستی کے خلاف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے تھے سب کو اس آگ کی خندق میں ڈال کر جلا دیا جن کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی۔ یہی وہ خندق کا واقعہ ہے جس کا ذکر اصحاب الاخدود کے نام سے سورة بروج میں گزرا ہے۔ ان میں دو آدمی کسی طرح اس کی گرفت سے نکل بھاگے اور انہوں نے قیصر ملک شام سے جا کر فریاد کی کہ دونوں اس ملک حمیر نے نصاری پر ایسا ظلم کیا ہے آپ ان کا انتقام لیں۔ قیصر ملک شام نے بادشاہ حبشہ کو خط لکھا یہ بھی نصرانی تھا اور یمن سے قریب تھا کہ آپ اس ظالم سے ظلم کا انتقام لو، اس نے اپنا عظیم لشکر دو کمانڈر (امیر) ارباط اور ابرہہ کی قیادت میں یمن کے اس بادشاہ کے مقابلے پر بھیج دیا، لشکر اس کے ملک پر ٹوٹ پڑا اور پورے یمن کو قوم حمیر کے قبضہ سے آزاد کرایا۔ ملک حمیر ذوالنواس بھاگ نکلا اور دریا میں غرق ہو کر مر گیا۔ اس طرح ارباط و ابرہہ کے ذریعہ میں پر بادشاہ حبشہ کا قبضہ ہوگیا، پھر ارباط اور ابرہہ میں باہمی جنگ ہو کر ارباط مقتول ہوگیا ابرہہ غالب آ گیا اور یہی بادشاہ حبشہ نجاشی کی طرف سے ملک یمن کا حاکم (گورنر) مقر رہو گیا، اس نے یمن پر قبضہ کرنے کے بعد ارادہ کیا کہ یمن میں ایک ایسا شاندار کلیسا بنائے جس کی نظیر دنیا میں نہ ہو۔ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ یمن کے عرب لوگ جو حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں یہ لوگ اس کلیسا کی عظمت و شوکت سے مرعوب ہو کر کعبہ کے بجائے اسی کلیسا میں جانے لگیں گے، اس خیال پر اس نے بہت بڑا عالیشیان کلیسا اتنا اونچا تعمیر کیا کہ اس کی بلندی پر نیچے کھڑا ہوا آدمی نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور اس کو سونے چاندی اور جواہرات سے مرصع کیا اور پوری مملکت میں اعلان کرا دیا کہ اب یمن سے کوئی کعبہ کے حج کے لئے نہ جائے اس کلیسا میں عبادت کرے۔ عرب میں اگرچہ بت پرستی غالب آگئی تھی مگر دین ابراہیم اور کعبہ کی عظمت و محبت ان کے دلوں میں پیوست تھی اس لئے عدنان اور قحطان اور قریش کے قبائل میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے رات کے وقت کلیسا میں داخل ہو کر اس کو گندگی سے آلودہ کردیا اور بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے مسافر قبیلہ نے کلیسا کے قریب اپنی ضروریات کے لئے آگ جلائی اس کی آگ کلیسا میں لگ گئی اور اس کو سخت نقصان پہنچا۔- ابرہہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی اور بتلایا گیا کہ کسی قریشی نے یہ کام کیا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں ان کے کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رہوں گا، ابرہہ نے اس کی تیاری شروع کی اور اپنے بادشاہ نجاشی سے اجازت مانگی اس نے اپنا خاص ہاتھی کہ جس کا نام محمود تھا ابرہہ کے لئے بھیج دیا کہ وہ اس پر سوار ہو کر کعبہ پر حملہ کرے بعض روایات میں ہے کہ یہ سب سے بڑا عظیم الشان ہاتھی تھا جس کی نظیر نہیں پائی جاتی تھی اور اس کے ساتھ آٹھ ہاتھی دوسرے بھی اس لشکر کے لئے بادشاہ حبشہ نے بھیج دیئے تھے۔ ہاتھیوں کی یہ تعداد بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ بیت اللہ کعبہ کے ڈھانے میں ہاتھیوں سے کام لیا جائے۔ تجویز یہ تھی کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور طویل زنجیریں باندھ کر ان زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھیں اور ان کو ہنکا دیں تو سارا بیت اللہ (معاذ اللہ) فوراً ہی زمین پر آ گرے گا۔- عرب میں جب اس کے حملے کی خبر پھیلی تو سارا عرب مقابلہ کے لئے تیار ہوگیا۔ یمن کے عروب میں ایک شخص ذونفرنامی تھا اس نے عربوں کی قیادت اختیار کی اور عرب لوگ اس کے گرد جمع ہو کر مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اور ابرہہ کے خلاف جنگ کی مگر اللہ تعالیٰ کو تو یہ منظور تھا کہ ابرہہ کی شکست اور اس کی رسوائی نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آئے اس لئے یہ عرب میں کامیاب نہ ہوئے، ابرہہ نے ان کو شکست دے دی اور ذونفر کو قید کرلیا اور آگے روانہ ہوگیا اس کے بعد جب وہ قبیلہ خثعم کے مقام پر پہنچا تو اس قبیلہ کے سردار نفیل بن حبیب نے پورے قبیلہ کے ساتھ ابرہہ کا مقابلہ کیا مگر ابرہہ کے لشکر نے ان کو بھی شکست دے دی اور نفیل بن حبیب کو بھی قید کرلیا اور ارادہ ان کے قتل کا کیا مگر پھر یہ سمجھ کر ان کو زندہ رکھا ان سے ہم راستوں کا پتہ معلوم کرلیں گے، اس کے بعد جب یہ لشکر طائف کے قریب پہنچا تو طائف کے باشندے قبیلہ ثقیف پچھلے قبائل کی جنگ اور ابرہہ کی فتح کے واقعات سن چکے تھے انہوں نے اپنی خیر منانے کا فیصلہ کیا اور یہ کہ طائف میں جو ہم نے ایک عظیم الشان بت خانہ لات کے نام سے بنا رکھا ہے یہ اس کو نہ چھیڑے تو ہم اس کا مقابلہ نہ کریں، انہوں نے ابرہہ سے مل کر یہ بھی طے کرلیا کہ ہم تمہاری امداد اور رہنمائی کے لئے اپنا ایک سردار ابورغال تمہاے ر ساتھ بھیج دیتے ہیں، ابرہہ اس پر راضی ہو کر ابورغال کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام مغمس پر پہنچ گیا جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے، ابرہہ کے لشکر نے سب سے پہلے ان پر حملہ کر کے اونٹ گرفتار کر لئے جن میں دو سو اونٹ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جدا مجد عبدالمطلب رئیس قریش کے بھی تھے ابرہہ نے یہاں پہنچ کر اپنا ایک سفیر کو شہر مکہ میں بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جا کر اطلاع کر دے کہ ہم تم سے جنگ کے لئے نہیں آئے، ہمارا مقصد کعبہ کو ڈھانا ہے اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ چنانچہ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سب نے اس کو عدئ المطلب کا پتہ دیا کہ وہ سب سے بڑے سردار قریش کے ہیں چنانچہ اس نے عبدالمطلب سے گفتگو کی اور ابرہہ کا پیغام پہنچا دی۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق عبدالمطلب نے یہ جواب دیا کہ ہم بھی ابرہہ سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، نہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔ البتہ میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ یہ اللہ کا گھر اور اس کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا ہے وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اللہ سے جنگ کا ارادہ ہے تو جو چاہے کرے پھر دیکھ کہ اللہ تعالیٰ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ تو پھر آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ابرہہ سے ملاتا ہوں۔ ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجیہ آدمی ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اتر کر بیٹھ گیا اور عبدالطلب کو اپنی برابر بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کس غرض سے آئے ہیں، عبدالطلب نے کہا کہ میری ضرورت تو اتنی ہے کہ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر نے گرفتار کر لئے ہیں ان کو چھوڑ دیں۔ ابرہہ نے ترجمان کے ذریعہ عبدالملب سے کہا کہ جب میں نے آپ کو اول دیکھا تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت و عزت ہوئی مگر آپ کی گفتگو نے اس کو بالکل ختم کردیا کہ آپ مجھ سے صرف اپنے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ میں آپ کا کعبہ جو آپ کا دین ہے اس کو ڈھانے کے لئے آیا ہوں اس کے متعلق آپ نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں مجھے ان کی فکر ہوئی اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمہارا خدا اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچا سکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو اور بعض روایات میں ہے کہ عبدالمطلب کیساتھ اور بھی قریش کے چند سردار گئے تھے اور انہوں نے ابرہہ نے کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بیت اللہ پر دست اندازی نہ کریں اور لوٹ جائیں تو ہم پورے تہامہ کی ایک تہائی پیداوار آپ کو بطور خراج ادا کرتے رہیں گے مگر ابرہہ نے اس کے ماننے سے انکار کردیا۔ عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ نے واپس کردیئے وہ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے تو بیت اللہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر دعاء میں مشغول ہوئے اور قریش کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی سب نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ ابرہہ کے عظیم لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے بیت کی حفاظت کا انتظام فرما دیں، الحاج وزاری کے ساتھ دعا کرنے کے بعد عبدالمطلب مکہ مکرمہ کے کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر مختلف پہاڑوں پر پھیل گئے ان کو یہ یقین تھا کہ اس کے لشکر پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا، اسی یقین کی بنا پر انہوں نے ابرہہ سے خود اپنے اونٹوں کا مطالبہ کیا، بیت اللہ کے متعلق گفتگو کرنا اسلئے پسند نہ کیا کہ خود تو اس کے مقابلے کی طاقت نہ تھی اور دوسری طرف یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بےبسی پر رحم فرما کر دشمن کی قوت اور اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے صبح ہوئی تو ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی محمود نامی کو آگے چلنے کے لئے تیار کیا۔ نفیل بن حبیب جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا تھا اس وقت وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کا کان پکڑ کر کہنے لگے تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیونکہ تو اللہ کے بلد امین (محفوظ شہر) میں ہے یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا، ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانا چلانا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا، اس کو بڑے بڑے آہنی تبروں سے مارا گیا، اس کی بھی پروانہ کی، اس کی ناک میں آنکڑا لوہے کا ڈال دیا پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا، اس وقت ان لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا تو فوراً کھڑا ہوگیا پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرمہ کی طرف چلانے لگے تو پھر بیٹھ گیا۔- قدرت حق جل شانہ کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کی برابر تھیں ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، حبثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لئے آتے دکھائی دیتے اور فوراً ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکریں جو ہر ایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو ریوالور کی گولی بھی نہیں کرسکتی کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔ یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ کھڑے ہوئے، صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکری سے ہلاک ہوا اور لشکر کے سب آدمی اس موقع پر ہلاک نہیں ہوئے بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے ان سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مر مر کر گر گئے ابرہہ کو چونکہ سخت سزا دینا تھی یہ فوراً ہلاک نہیں ہوا مگر اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا اسی حال میں اس کو واپس یمن لایا گیا، دا الحکومت صنعا، پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بہ گیا اور مرگیا۔ ابرہہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان یہیں مکہ مکرمہ میں رہ گئے مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہج ہوگئے تھے۔ محمد بن اسحاق نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اندھے اور اپاہج تھے اور حضرت صدیقہ عائشہ کی بہن اسماء نے فرمایا کہ میں نے دونوں اپاہج اندھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اصحاب فیل کے اسی واقعہ کے متعلق اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا ہے۔- الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل یہاں المر تر فرمایا جس کے معنے ہیں کیا آپ نے نہیں دیکھا حالانکہ یہ واقعہ آپ کی ولادت باسعادت سے کچھ دن پہلے کا ہے، آپ کے دیکھنے کا یہاں بظاہر کوئی موقع نہیں تھا مگر جو واقعہ یقینی ایسا ہو کہ عام طور پر مشاہدہ کیا گیا ہو اس کے علم کو بھی لفظ رویت سے تعبیر کردیا جاتا ہے کہ گویا یہ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے اور ایک حد تک دیکھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ اوپر گزرا ہے کہ حضرت صدیقہ عائشہ اور اسماء (رض) نے ہاتھی بانوں کو اندھا اور اپاہج بھیک مانگتے دیکھا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۝ ١ ۭ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر - کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر :- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه .- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔- فيل - الفِيلُ معروف . جمعه فِيلَةٌ وفُيُولٌ. قال : أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحابِ الْفِيلِ- [ الفیل 1] ، ورجل فَيْلُ الرأي، وفَالُ الرأيِ ، فَوْزاً ، أي : مکان فوز، ثم فسّر فقال : حَدائِقَ وَأَعْناباً ... الآية [ النبأ 32] ، وقوله : وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ إلى قوله فَوْزاً عَظِيماًأي : يحرصون علی أغراض الدنیا، ويعدّون ما ينالونه من الغنیمة فوزا عظیما .- ( ف ی ل ) الفیل ہاتھی جمع فیلۃ وفیول قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحابِ الْفِيلِ [ الفیل 1] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ۔ کمزور رائے آدمی ۔ المفایلۃ ایک قسم کا کھیل جس میں بچے کوئی چیز مٹی میں چھپا دیتے ہیں پھر اس مٹی کو مٹھیاں بھر بھر تقسیم کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کس کے حصہ میں آتی ہے اور فائل سرین کے گڑھے یا گوشت کے نیچے ایک رگ کا نام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 5) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حبشہ ملک والوں نے جو بیت اللہ کے منہدم کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا۔- کہ ان کی تدبیر کو سرتاپا غلط کردیا اور ان پر بیشمار پرندے بھیجے جو ان لوگوں پر پتھر کی کنکریاں پھینکتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح نیست و نابود کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الفیل حاشیہ نمبر : 1 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر اصل مخاطب نہ صرف قریش بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے ۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر الم تر ( کیا تم نے نہیں دیکھا ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کرنا ہے ( مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں ۔ ابراہیم ، آیت 19 ۔ الحج 18 ۔ 65 ۔ النور 43 ۔ لقمان 29 ۔ 31 ۔ فاطر 27 ۔ الزمر 21 ) پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکہ اور اطراف مکہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ زمانہ نہیں ہوا تھا ، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا ۔ سورة الفیل حاشیہ نمبر : 2 یہاں اللہ تعالی نے کوئی تفصیل اس امر کی بیان نہیں کی کہ یہ ہاتھی والے کون تھے ، کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لیے آئے تھے ، کیونکہ یہ باتیں سب کو معلوم تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ ابرہہ کے لشکر کی طرف اشارہ ہے جو کعبے پر چڑھائی کرنے کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر آیا تھا۔ ابرہہ یمن کا حکمران تھا، اور اُس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کرکے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرادیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لئے مکہ مکرَّمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیتُ اللہ سمجھے۔ عرب کے لوگ اگرچہ بت پرست تھے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم وتبلیغ سے کعبے کی عظمت اُن کے دلوں میں پیوست تھی، اِس اعلان سے اُن میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور اُن میں سے کسی نے رات کے وقت اِس کلیسا میں جاکر گندگی پھیلادی، اور بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کے کچھ حصہ میں آگ بھی لگائی، ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کرکے مکہ مکرَّمہ کا رُخ کیا، راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اُس سے جنگ کی، لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرَّمہ کے قریب مَغْمَسْ نامی ایک جگہ تک پہنچ گیا، لیکن اگلی صبح اُس نے بیتُ اللہ کی طرف بڑھنا چاہا تو اُس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا، اور اُسی وقت سمندر کی طرف سے عجیب وغریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور پورے لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے جو اُنہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسائے، اُن کنکروں نے لشکر کے لوگوں پر وہ کام کیا جو بارودی گولی بھی نہیں کرسکتی، جس پر بھی یہ کنکری لگتی اس کے پورے جسم کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی، یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے، لشکر کے سپاہیوں میں کچھ وہیں ہلاک ہوگئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرے، اور ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا، اِسی حالت میں اُسے یمن لایا گیا اور وہاں اس کا سارا بدن بہہ بہہ کر ختم ہوگیا اور اُس کی موت سب سے زیادہ عبرتناک ہوئی۔ اُس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرَّمہ میں ر ہ گئے تھے جو اپاہج اور اندھے ہوگئے تھے۔ یہ واقعہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے کچھ ہی پہلے پیش آیا تھا، اور حضرت عائشہ اور ان کی بہن حضرت اسماء رضی اﷲ عنہما نے ان دونوں اندھے اپاہجوں کو دیکھا ہے۔ (تفصیلی واقعات کے لئے ملاحظہ ہو معارف القرآن)۔ اس سورت میں اس واقعے کا تذکرہ فرماکر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے، اس لئے جو لوگ آپ کی دُشمنی پر کمر باندھے ہوئے ہیں، آخر میں وہ بھی اصحاب الفیل کی طرح منہ کی کھائیں گے۔