امن و امان کی ضمانت: موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورہ فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکے جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف ، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے ۔ تو گویا یوں فرمایا جارہاہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے ( قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36 ) 13- الرعد:36 ) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا ناہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا ، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بے امنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢ ) 16- النحل:112 ) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قریشیو تمھیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمھیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ ۔ الحمد اللہ سورہ قريش کی تفسیر ختم ہوئی ۔
[١] ایلاف کے دو پہلو :۔ اِیْلاَفٌ کا مادہ الف ہے اور اس سے الفت مشہور و معروف لفظ ہے۔ الفت کا معنی ایسی محبت ہے جو خیالات میں ہم آہنگی کی وجہ سے ہو (مفردات) اور الف کے معنی کسی چیز کے منتشر اجزاء کو اکٹھا کرکے انہیں ترتیب کے ساتھ جوڑ دینا۔ کسی کتاب کی تالیف کا بھی یہی مفہوم ہے۔ گویا ایلاف کے مفہوم میں الفت، موانست اور قریش کے منتشر افراد کی اجتماعیت کے سب مفہوم پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایلاف کے دو مختلف پہلو ہیں۔ ایک کا پس منظر یہ ہے کہ قبیلہ قریش حجاز میں متفرق مقامات پر بکھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے قصی ّبن کلاب (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلیٰ ) کو یہ خیال آیا کہ اپنے قبیلہ کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ چناچہ اس نے اپنے سارے قبیلہ کو مکہ میں اکٹھا کردیا۔ اسی بنا پر قصی ّکو مُجَمّع کا لقب دیا گیا۔ اس طرح کعبہ کی تولیت اس قبیلہ کے ہاتھ آگئی۔ اور ایلاف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہاشم کے بیٹوں کو خیال آیا کہ اس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا چاہیے جو ان قافلوں کے ذریعے ہوتی تھی جو یمن سے شام و فلسطین تک جاتے تھے۔ یمن میں بلاد مشرق سے تجارت ہوتی تھی اور شام میں افریقہ و مصر سے۔ چناچہ ہاشم کے بیٹوں نے آس پاس کے علاقوں سے تجارتی روابط قائم کیے اور عملاً تجارت میں حصہ لینا شروع کیا۔ جس سے مکہ ایک بین الاقوامی منڈی بن گیا۔ قریش کے قافلے سال بھر میں دو تجارتی سفر کرتے تھے۔ گرمیوں میں وہ شام و فلسطین کی طرف جاتے تھے۔ کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت بہت ٹھنڈا تھا اور سردیوں میں ان کا قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا کیونکہ یہ علاقہ مکہ کی نسبت گرم تھا۔ سال میں ان دو تجارتی سفروں سے اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ سال کا باقی حصہ آرام سے گھر بیٹھ کر کھاتے تھے پھر بھی ان کے پاس بہت کچھ بچ جاتا تھا۔ اس طرح وہ آسودہ حال اور خاصے مالدار بن گئے۔ یہ دونوں موسموں کے تجارتی سفر ہی ان کی تمام تر دلچسپیوں کے مرکز و محور بن گئے تھے۔
(١) لایلف قریش…:” الف یالف الفا “ (س)” ہ “ کسی سے مانوس ہونا، اس سے محبت کرنا۔- ” الف یولف ایلافاً “ (افعال) کسی کو کسی چیز سے مانوس کردینا، اس کے دل میں اس کی محبت ڈلا دینا۔ ” قریش “ ” قرش “ کی تصغیر ہے۔” قرش یفرش فرشا “ (ض، ن) جمع کرنا، قریش مشہور قبیلہ ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے۔ یہ نام ان کے حرم میں جمع ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔ یہ لوگ مختلف جگہوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ قصی بن کلاب (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلیٰ ) کو خیال آیا کہ اپنے سارے قبیلے کو مکہ میں اکٹھا کرنا چاہیے، چناچہ انہوں نے سارے قبیلے کو مکہ میں جمع کردیا، اس لئے ان کا نام ” ممع “ پڑگیا، اس طرح کعبہ کی تولیت بھی ان کے ہاتھ آگئی۔ یا یہ نام سمندر کی ایک مچھلی کے نام پر رکھا گیا ہے جسے ” قریش “ کہتے ہیں۔ المنجد میں ہے کہ اس مچھلی کو ” کلب البحر “ ہا جاتا ہے، یہ سمندر کے جانوروں کو دانتوں سے اس طرح کاٹتی ہے جس طرح تلوار کاٹتی ہے، سمندر کے تمام جانور اس سے ڈرتے ہیں۔- ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قریش پر اپنے کئی احسانات ذکر فرمائے ہیں۔ قریش مکہ معظمہ میں رہتے تھے اور کبہ کے متولی تھے، یہ لوگ سال میں دو تجاتری سفر کرتے تھے، گریم کے موسم میں شام کی طرف، کیونکہ وہ سرد علاقہ ہے اور سردی کے موسم میں یمن کی طرف، کیونکہ وہ گرم علاقہ ہے۔ پہلا احسان تو یہ ہے کہ ان کے دل میں سفر کی محبت ڈلا دی، نہ انہیں سردی کے سفر میں مشقت محسوس ہوتی ہے نہ گریم میں اور سفر ہی دنیا میں وسیلہ ظفر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو سفر سے مانوس نہ کرتا تو وہ بھی اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے اور سفر سے جو مال و دولت، تجربہ و علم اور دنیا بھر کے لوگوں اور علاقوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، وہ کبھی حاصل نہ ہوتی۔ سفر سیم انوس ہونے کی یہی نعمت قریش کو آگے چل کر ہجرت کے سفر میں کام آئی، پھر کفار کے ساتھ لڑائی میں اور اس کے بعد روم و شام، عراق و فارس، ہند و سندھ، مصر و افریقہ بلکہ مشرق و مغرب کی فتوحات میں کام آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم قوم کے دنیا پر غالب آنے اور غالب رہنے کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ وہ سفر سے نہ گھبرائیں اور جب نکلنے کا موقع ہو زمین ہی سے نہ چمٹ جائیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اقوا مہی بری ، بحری اور فضائی سفروں کی اجارہ دار ہیں، مسلمان اکثر و بیشتر یہ سبق بھول چکے ہیں۔- دوسرا احسان یہ کہ اس وقت تمام عرب میں سخت بدامنی تھی، کسی کو خبر نہ تھی کہ کب اس پرح ملہ ہوجائے اور اسے قتل کردیا جائے، یا اٹھا لیا جائے یا مال لوٹ لیا جائے اور عورتیں اور بچے غلام بنا لئے جائیں۔ ایسے حالات میں صرف اہل مکہ ہی کو یہ امن حاصل تھا کہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتا تھا، جیسا کہ فرمایا :(اولم یروآنا جعلنا حرماً امناً و یتخظف الناس من حولھم) (العنکبو : ٦٨)” اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک امن والا حرم بنادیا ہے، جبکہ لوگ ان کے اردگرد سے اچک لئے جاتے ہیں۔ “ تیسرا احسان یہ کہ حرم کے باشندے ہونے کی وجہ سے تجارتی سفروں میں کوئی ان کا قافلہ لوٹتا، نہ ان سے وہ ٹیکس لئے جاتے جو ہر قبیلے اور ہر قوم اپنے علاقے سے گزرنے والوں سے لیتی تھی اور نہ انہیں کہیں جانے سے روکا جاتا تھا۔ چوتھا یہ کہ تمام دنیا کے لوگ حج و عمرہ کے لئے مکہ میں آتے اور دنیا بھر کا سامان تجارت یہاں پہنچتا۔ اس کے علاوہ ہر قسم کے پھل ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں یہاں پہنچتے، فرمایا :(اولم نمکن لھم حرماً امنا یحییٰ الیہ ثمرت کل شیء رزقا من لدنا) (القصص : ٥٨)” اور کیا ہم نے انہیں ایسے امن والے حرم میں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں، یہ ہماری طرف سے رزق ہے۔ “- ان تجارتی سفروں اور مکہ کی تجاتر کے مالک ہونے کی وجہ سے قریش نہایت مال دار تھے اور حرم کی برکت سے امن و امان سے بھی بہرہ ور تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام نعمتیں اللہ کے گھر کی برکت سے تھیں اور صرف اور صرف رب تعالیٰ کا عطیہ تھیں، پھر جب یہ تمام نعمتیں اس گھر کے مالک نے دی ہیں تو تم اس اکیلے کی عبادت کیوں نہیں کرتے اور کیوں دوسروں کو اس کا شریک بنا کر ان کے آگے سجدے کرتے، ان کے آستانوں پر نذریں دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہو ؟- (٢) لایلف قریش “ (قریش کے دل میں محبت ڈالنے کی وجہ سے) ترکیب کے اعتبار سے کیا ہونا چاہیے ؟ یہ جار مجرور کس کے متعلق ہے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ ” فلیعبدوا “ کے متعلق ہے ، یعنی اس وجہ سے انہیں اس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔ یہ نحو کے مشہور امام خلیل بن احمد کا قول ہے، مگر اس پر یہ اعترضا لازم آتا ہے کہ پھر ” فائ “ کیوں آئی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں شرط محذوف ہے، جس کے جواب میں فاء آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان دوسری بیشمار نعمتوں کی وجہ جواب یہ ہے کہ یہاں شرط محذوف ہے، جس کے جواب میں فاء ائٓی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان دوسری بیشمار نعمتوں کی وجہ سے یہ لوگ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تو اس گھر کا رب ہونے ہی کی وجہ سے اس کی عبادت کریں جس گھر کی برکت سے انہیں سردی و گرمی میں سفر کرنے، دائمی امن و امان اور وافر رزق کی نعمتیں میسر ہیں۔ (زمخشری)- کسی بھی جگہ میں امن اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ ہمیں بھی رزق کی فراخی اور امن جیسی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے، غیر اللہ کی عبادت اور شرک سے بچنا چاہیے اور شرک کے اڈوں کی تعمیر و ترقی کے بجائے توحید کے مراکز کی تعمیر و ترقی کرنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو رزق کی تنگی اور بدامنی و فساد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ کرنا پڑر ہا ہے۔
خلاصہ تفسیر - چونکہ خوگور ہوگئے ہیں یعنی جاڑے اور گرمی کے سفر کے خوگر ہوگئے ہیں تو (اس نعمت کے شکر میں) انکو چاہئے کہ اس خانہ کعبہ کے مالک کی عبادت کریں جس نے ان کو بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف سے ان کو امن دیا۔- معارف ومسائل - اس پر تو سب مفسرین کا اتفاق ہے کہ معنی اور مضمون کے اعتبار سے یہ سورت سورة فیل ہی سے متعلق ہے اور شاید اس وجہ سے بعض مصاحف میں ان دونوں کو ایک ہی سورت کر کے لکھا گیا تھا، دونوں کے درمیا نبسم اللہ نہیں لکھی تھی مگر حضرت عثمان غنی (رض)، نے جب اپنے زمانے میں تمام مصاحف قرآن کو جمع کر کے ایک نسخہ تیار فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں فرمایا اور تمام صحابہ کرام کا اس پر اجماع ہوا۔ اسی نسخہ قرآن کو جمہور کے نزدیک امام کہا جاتا ہے اس میں ان دونوں کو دو الگ الگ سورتیں ہی لکھا ہے۔ دونوں کے درمیان بسم اللہ لکھی گی ہے۔- لایلف قریش، حرف لام ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس کا مقضنی ہے کہ اس کا تعلق کسی سابق مضمون کے ساتھ ہو اسی لئے اس کے متعلق میں متعدد اقوال ہیں، پچھلی سورت کے ساتھ معنوی تعلق کی بنا پر بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہاں مخدوف جملہ انا اھلکنا اصحب الفیل ہے یعنی ہم نے اصحاب فیل کو اس لئے ہلاک کیا کہ قریش مکہ سردی گرمی کے دو سفروں کے عادی تھے، ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے سب کے دلوں میں ان کی عظمت پیدا ہوجائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مخدوف جملہ اعجبوا ہے یعنی تعجب کرو قریش کے معاملے سے کس طرح سردی گرمی کے سفر آزادانہ بےخطر ہو کر کرتے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس جملہ سے ہے جو آگے آیت میں آ رہا ہے یعنی فلیعبدوا مطلب یہ ہوا کہ قریش کو اس نعمت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا اور اس کی عبادت میں لگ جانا چاہئے اس صورت میں فلیعبدوا کے اوپر حرف فاء اس لئے ہے کہ پہلے جملے میں ایک معنی شرط کے پائے جاے ت ہیں بہرحال اس سورت میں میں ارشاد یہ ہے کہ قریش مکہ چونکہ دو سرفوں کے عادی تھے، ایک سردی میں یمن کی طرف دوسرا گرمی میں شام کی طرف اور انہی دو سفروں پر ان کی تجارت اور کاروبار کا مدار تھا اور اسی تجارت کی بنا پر وہ مالدار اور اغنیاء تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن اصحاب فیل کو عبرتناک سزا دے کر ان کی عظمت لوگوں کے قلوب میں بڑھا دی، یہ پورے ممالک میں جہاں بھی جائیں لوگ ان کی تعظیم تکریم کرتے ہیں۔- قریش کی افضلیت سارے عرب پر :۔ اس سورت میں اس کیطرف بھی اشارہ ہے کہ تمام قابئل عرب میں قریش اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو انتخاب کرلیا ہے (البغوی عن واثلہ بن اسقع) اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمام آدمی قریش کے تابع ہیں خیر و شر میں (راہ مسلم عن جابر، مظہری) اور پہلی حدیث میں جس خداوندی انتخاب کا ذکر ہے غالباً اس کی وجہ ان قبائل کے خاص ملکات اور استعداد دیں ہیں، کفر و شرک اور جہالت کے زمانہ میں بھی ان کے بعض اخلاق اور ملکات نہایت اعلیٰ تھے ان میں قبول حق کی استعداد بہت کامل تھی، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور اولیاء اللہ میں بیشتر لوگ قریش میں سے ہوئے ہیں (مظہری )
لِاِيْلٰفِ قُرَيْـــشٍ ١ ۙ- ألف - الأَلِفُ من حروف التهجي، والإِلْفُ : اجتماع مع التئام، يقال : أَلَّفْتُ بينهم، ومنه : الأُلْفَة ويقال للمألوف : إِلْفٌ وأَلِيفٌ. قال تعالی: إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [ آل عمران 103] ، وقال : لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] .- والمُؤَلَّف : ما جمع من أجزاء مختلفة، ورتّب ترتیبا قدّم فيه ما حقه أن يقدّم، وأخّر فيه ما حقّه أن يؤخّر . ولِإِيلافِ قُرَيْشٍ [ قریش 1] مصدر من آلف . والمؤلَّفة قلوبهم : هم الذین يتحری فيهم بتفقدهم أن يصيروا من جملة من وصفهم الله، لَوْ أَنْفَقْتَ ما فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً ما أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ [ الأنفال 63] ، وأو الف الطیر : ما ألفت الدار . والأَلْفُ : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- ( ا ل ف ) الالف ۔ حروف تہجی کا پہلا حرف ہے اور الالف ( ض ) کے معنی ہیں ہم آہنگی کے ساتھ جمع ہونا ۔ محاورہ ہے ۔ الفت بینم میں نے ان میں ہم آہنگی پیدا کردی اور راضی سے الفت ( بمعنی محبت ) ہے اور کبھی مرمالوف چیز کو الف و آلف کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ ( سورة آل عمران 103) جب تم ایک دوسرے کے دشمن نفے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) اگر تم دینا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے اور مولف اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس کے مختلف اجزاء کو یکجا جمع کردیا گیا ہو اور ہر جزء کو تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے اس کی صحیح جگہ پر رکھا گیا ہو ۔ اور آیت کریمہ ؛ لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ( سورة قریش 1) قریش کے مالوف کرنے کے سبب میں ایلاف ( افعال کا ) مصدر ہے اور آیت : وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 60) ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے ۔ میں مولفۃ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی بہتری کا خیال رکھا جائے حتی کہ وہ ان لوگوں کی صف میں داخل ہوجائیں جن کی وصف میں قرآن نے لو انفقت مافی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبھم لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ( سورة الأَنْفال 63) فرمایا ہے یعنی مخلص مسلمان ہوجائیں ۔ اوالف الطیر مانوس پرندے جو گھروں میں رہتے ہیں ۔- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے - إيلاف : مصدر قياسيّ للرباعيّ آلف، أصله أألف زنة أفعل، أو مصدر أولف زنة أفعل، فعلی الأول خفّفت الهمزة فقلبت ياء لانکسار ما قبلها، وعلی الثاني جری إعلال بالقلب، أصله أولاف، تحرّك ما قبل الواو بالکسر فقلبت ياء .. ووزن إيلاف إفعال .- ( قریش) ،- اسم علم للقبیلة العربيّة المشهورة، قيل هو تصغیر ترخیم من قویرش تصغیر قارش، جمعه قرش بضمّتين .
(1 ۔ 2) قریش کو حکم دیجیے تاکہ یہ توحید کو اختیار کرلیں یا یہ کہ میری نعمتوں کو ان کے سامنے بیان کیجیے تاکہ یہ توحید کی طرف مائل ہوجائیں جیسا کہ یہ سردیوں میں سفر یمن اور گرمیوں میں سفر شام کے عادی ہوگئے ہیں یا یہ کہ جیسا کہ قریش پر گرمی اور سردی کا سفر گراں نہیں اسی طرح ان پر وحدانی تبھی گراں نہیں۔
سورة القریش حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ ۔ ایلاف الف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے ، مانوس ہونے ، پھٹنے کے بعد مل جانے ، اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں ۔ اردو زبان میں الفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں ۔ ایلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجب کے معنی میں ہے ۔ مثلا عرب کہتے ہیں کہ لزید و ما صنعنا بہ ، یعنی ذرا اس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ۔ پس لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑا ہی قابل تعجب ہے کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوگئے جو ان کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے روگردانی کر رہے ہیں ۔ یہ رائے اخفش ، کسارئی ، اور فراء کی ہے ، اور اس رائے کو ابن جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے کسی بات کا ذکر کرتے ہیں تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھتی جاتی ہے کہ اس کے ہوتے جو شخص کوئی رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابل تعجب ہے ۔ بخلاف اس کے خلیل بن احمد ، سیبویہ اور زمخشری کہتے ہیں کہ یہ لام تعلیل ہے اور اس کا تعلق آگے کے فقرے فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ سے ہے ۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں تو قریش پر اللہ کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں ، لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں تو اسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں کہ اس کے فضل سے وہ ان تجارتی سفروں کے خوگر ہوئے ، کیونکہ یہ بجائے خود ان پر اس کا بہت بڑا احسان ہے ۔