2۔ 1 اس لیے کہ ایک تو بخیل ہے، دوسرا قیامت کا منکر ہے بھلا ایسا شخص یتیم کے ساتھ کیوں کر حسن سلوک کرسکتا ہے ؟ یتیم کے ساتھ وہی شخص اچھا برتاؤ کرے گا جس کے دل میں مال کے بجائے انسانی قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی اہمیت و محبت ہوگی۔ دوسرے اسے اس امر کا یقین ہو کہ اس کے بدلے میں مجھے قیامت والے دن اچھی جزا ملے گی۔
[٢] اہل عرب عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم کردیتے تھے۔ حالانکہ حقیقتاً میراث کے وہ ضرور حقدار ہونا چاہئیں۔ لیکن اہل عرب کا دستور تھا کہ جو شخص میت کے وارثوں سے زیادہ بااثر اور زور آور ہوتا وہی ساری میراث پر قبضہ جما لیتا تھا اور یتیموں کو دھتکار دیتا تھا۔ یہ ان کی زر پرستی اور انکار آخرت کا نتیجہ تھا۔ نیز اگر کوئی یتیم ان سے مدد مانگنے آتا تو اس سے برا سلوک کرتے تھے۔ اور اس کے اصرار پر دھکے مار کر دفع کردیتے تھے اور اگر کوئی کسی یتیم کی پرورش کا ذمہ لیتا بھی تھا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کرتا رہتا تھا۔
فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ ٢ ۙ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- دع - الدَّعُّ : الدفع الشدید وأصله أن يقال للعاثر : دع دع، كما يقال له : لعا، قال تعالی: يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] ، وقوله : فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] ، قال الشاعر : دَعَّ الوصيّ في قفا يتيمه - ( د ع ع ) الدع ۔ کے معنی سختی کے ساتھ دھکا دینے کے ہیں ۔ اصل میں یہ کلمہ زجر ہے جس طرح پھسلنے والے کو ( بطور دعا لعا کہا جاتا ہے ۔ اسیطرح دع دع بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں : ۔ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلى نارِ جَهَنَّمَ دَعًّا[ الطور 13] جس دن وہ آتش جہنم کی طرف نہایت سختی سے دھکیلے جائیں گے ۔ فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ [ الماعون 2] یہ وہی ( بدبخت ) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے شاعر نے کہا ہے جیسا کہ وحی یتیم کی گدی پر گھونسا مارتا اور اسے دھکے دیتا ہے ۔- يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔
یتیم کو دھکا نہ دیں - قول باری ہے (یدع الیتیم یتیم کو دھکے دیتا ہے) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ وہ یتیم کے حق سے اسے دھکے دے کر پرے کردیتا ہے۔
آیت ٢ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۔ ” یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ “- ظاہر ہے جو انسان اچھے برے اعمال کی جزا و سزا کو نہیں مانتا وہ معاشرے کے ایسے افراد کے لیے اپنا مال بھلا کیوںـ ضائع کرے گا جن سے اسے کسی فائدے کی توقع نہیں ؟
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 4 اصل میں فَذٰلِكَ الَّذِيْ فرمایا گیا ہے ۔ اس فقرے میں ف ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نہیں جانتے تو تمہیں معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو یا پھر یہ اس معنی میں ہے کہ اپنے اسی انکار آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 5 اصل میں يَدُعُّ الْيَتِيْمَ کا فقرہ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھاتا ہے اور اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بے دخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہا پنی پریشان حالی کی بنا پر رحم کی امید لیے ہوئے کھڑا رہے تو اسے دھکے دے کر دفع کردیتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے ، مثلا اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں سارے گھر کی خدمتگاری کرنے اور بات بات پر چھڑکیاں اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ علاوہ بریں اس فقرے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ اس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویہ یہی ہے ۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی برا کام ہے جو وہ کر رہا ہے ۔ بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بے بس اور بے یارومددگار مخلوق ہے ، اس لیے کوئی ہرج نہیں اگر اس کا حق مار کھایا جائے ۔ یا اسے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنا کر رکھا جائے یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اسے دھتکار دیا جائے ۔ اس سلسلے میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں لکھا ہے ۔ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا ۔ وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دیدے ۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر کار مایوس ہوکر پلٹ گیا ۔ قریش کے سرداروں نے ازا راہ شرارت اس سے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاکر شکایت کر ، وہ ابو جہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے ۔ بچہ بے چارہ ناواقف تھا کہ ابو جہل کا حضور سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں ، وہ سیدھا حضور کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ سے بیان کیا ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بد ترین دشمن ابو جہل کے ہاں تشریف لے گئے ۔ آپ کو دیکھ کر اس نے آپ کا استقبال کیا اور جب آپ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق اسے دے دو ، تو وہ فورا مان گیا اور اس کا مال لاکر اسے دے دیا ۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ان دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے ۔ وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے ۔ مگر جب انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہوکر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے ۔ اس نے کہا خدا کی قسم ، میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا ، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی ، اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بے یارو مددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا ، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اس اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا ۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 146 پر نقل کرچکے ہیں ، جو حضور کے اس زبردست اخلاقی رعب پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے کفار قریش آپ کو جادوگر کہتے تھے ۔
1: کئی کافروں کے بارے میں روایت ہے کہ اُن کے پاس کوئی یتیم خستہ حالت میں کچھ مانگنے کو آیا تو اُنہوں نے اُسے دھکا دے کر نکال دیا۔ یہ عمل ہر ایک کے لئے انتہائی سنگدلی اور بڑا گناہ ہے، لیکن کافروں کا ذِکر فرماکر اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ یہ کام اصل میں کافروں ہی کا ہے، کسی مسلمان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔