Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نماز میں غفلت اور یتیموں سے نفرت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کے دن کو جو جزا سزا کا دن ہے جھٹلاتا ہے یتیم پر ظلم و ستم کرتا ہے اس کا حق مارتا ہے اس کے ساتھ سلوک و احسان نہیں کرتا مسکینوں کو خود تو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس کار خیر پر آمادہ نہیں کرتا جیسے اور جگہ ہے ( كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ 17۝ۙ ) 89- الفجر:17 ) یعنی جو برائی تمھیں پہنتی ہے وہ تمھارے اعمال کا نتیجہ ہے کہ نہ تم یتیموں کی عزت کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا دینے کی رغبت دلاتے ہو یعنی اس فققیر کو جو اتنا نہیں پاتا کہ اسے کافی ہو پھر فرمان ہوتا ہے کہ غفلت برتنے والے نمازیوں کے لیے ویل ہے یعنی ان منافقوں کے لیے جو لوگوں کے سامنے نماز ادا کریں ورنہ ہضم کر جائیں یہی معنی حضرت ابن عباس کے کیے ہیں اور یہ بھی معنی ہیں کہ مقرر کردہ وقت ٹال دیتے ہیں جیسے کہ مسروق اور ابو الضحی کہتے ہیں حضرت عاء بن دینا فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ فرمان باری میں عن صلوتھم ہے فی صلوتھم نہیں یعنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں فرمایا نمازوں میں غفلت برتتے ہیں نہیں فرمایا اسی طرح یہ الف ظشامل ہے ایسے نمازی کو بھی جو ہمیشہ نماز کو آخری وقت ادا کرے یا عموماً آخری وقت پڑھے یا ارکان و شروط کی پوری رعایت نہ کرے یا خشو و خضو اور تدبر و غروفکر نہ کرے لفظ قرآن ان میں سے ہر ایک کو شامل ہے یہ سب باتیں جس میں ہوں وہ تو پورا پورا بدنصیب ہے اور جس میں جتنی ہوں اتنا ہی وہ ویل ہے اور نفاق عملی کا حقو دار ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے جب وہ غروب ہونے کے قریب پہنچے اور شیطان اپنے سینگ اس میں ملا لے تو کھڑا ہو اور مرغ کی طرح چار ٹھونگیں مار لے جس میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرے یہاں مراد عصر کی نماز ہے ججو صلوہ وسطی ہے جیسے کہ حدیث کے لفظوں سے ثابت ہے یہ شخص مکروہ وقت میں کھڑا ہوتا اور کوے کی طرح چونچیں مار لیتا ہے جس میں اطمینان ارکان بھی نہیں ہوتا نہ خشو و خضوع ہوتا ہے بلکہ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم ہوتا ہے اور کیا عجب کہ یہ نماز محض دکھاوے کی نماز ہو تو پڑھی نہ پڑھی یکاں ہے انہی منافقین کے بارے میں اور جگہ ارشاد ہے ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ ) 4- النسآء:142 ) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں یہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو تھکے ہارے بادل ناخواستہ صرف لوگوں کے دکھاو کے لیے نماز گذارتے ہیں اللہ کی یاد بہت ہی کم کرتے ہیں یہاں بھی فرمایا یہ ریا کاری کرتے ہیں لوگوں میں نمازی بنتے ہیں طبرانی کی حدیث میں ہے ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس کی آگ اس قدر تیز ہے کہ اور آگ جہنم کی ہر دن اس سے چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے یہ ویل اس امت کے ریاکار علماء کے لیے ہے اور ریاکاری کے طور پر صدقہ خیرات کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر حج کرنے والوں کے لیے ہے اور ریا کاری کے طور پر جہاد کرنے والوں کے لیے ہے مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص دوسروں کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے اللہ تعالیٰ بھی لوگوں کو سنا کر عذاب کریگا اور اسے ذلیل و حقیر کریگا ہاں اس موقعہ پر یہ یاد رہے کہ اگر کسی شخص نے بالکل نیک نیتی سے کوئی اچھا کام کیا اور لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی اس پر سے بھی خوشی ہوئی تو یہ ریا کاری نہیں اس کی دلیل مسند ابو یعلی موصلی کی یہ حدیث ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار نبوی میں ذکر کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو تنہا نوافل پڑھتا ہوں لیکن اچانک کوئی آ جاتا ہے تو ذرا مجھ بھی یہ اچھا معلوم ہونے لگتا ہے آپ نے فرمایا تجھے دو اجر ملیں گے ایک اجر پوشیدگی کا اور دوسرا ظاہر کرنے کا حضرت ابن المبارک فرمایا کرتے تھے یہ حدیث ریا کاروں کے لیے بھی اچھی چیز ہے یہ حدیث بروئے اسنا غریب ہے لیکن اسی معنی کی حدیث اور سند سے بھی مروی ہے ابن جریر کی ایک بہت ہی ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم میں سے ہر شخص کو مثل تمام دنیا کے دیا جائے اس سے مراد وہ شخص ہے کہ نماز پڑھے تو اس کی بھلائی سے اسے کچھ سروکار نہ ہو اور نہ پڑھے تو اللہ کا خوف اسے نہ ہو اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ سرے سے پڑھتے ہی نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ شرعی وقت نکال دیتے ہیں پھر پڑھتے ہیں یہ معنی بھی ہیں کہ اول وقت میں ادا نہیں کرتے ایک موقوف روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تنگ وقت کر ڈالتے ہیں زیادہ صحیح موقوف روایت ہی ہے امام بیہقی بھی فرماتے ہیں کہ مرفوع توضعیف ہے ہاں موقوف صحیح ہے امام حاکم کا قول بھی یہی ہے پس جس طرح یہ لوگ عبادت رب میں سست ہیں اسی طرح لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ برتنے کی کمی قیمت چیزیں لوگوں کو اس لیے بھی نہیں دتے کہ وہ اپنا کام نکال لیں اور پھر وہ چیز جوں کی توں واپس کر دیں پس ان خسیس لوگوں سے یہ کہاں بن آئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں یا اور نیکی کے کام کریں حضرت علی سے ماعون کا مطلب ادائیگی زکوٰۃ بھی مروی ہے اور حضرت ابن عمر سے بھی اور دیگر حضرات مفسرین معتبرین سے بھی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی نماز میں ریا کاری ہے اور مال کے صدقہ میں ہاتھ روکنا ہے حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں نماز تو چونکہ ظاہر ہے پڑھنی پڑتی ہے اور زکوٰۃ چونکہ پوشیدہ ہے اس لیے اسے ادا نہیں کرتے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ماعون ہر وہ چیز ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں جیسے کدال پھاوڑا دیگچی ڈول وغیرہ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں اور روایت میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم اس کی تفسیر یہی کرتے تھے نسائی کی حدیث میں ہے ہر نیکی چیز صدقہ ہے ڈول اور ہنڈیا یا پتیلی مانگے پر دینے کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ماعون سے تعبیر کرتے تھے غرض اس کے معنی زکوٰۃ نہ دینے کے اطاعت نہ کرنے کے مانگی چیز نہ دینے کے ہیں چھوٹی چھوٹی بےجان چیزیں کوئی دو گھڑی کے لیے مانگنے آئے اس سے ان کا انکار کر دینا مثلا چھلنی ڈول سوئی سل بٹا کدال پھائوڑا پتیلی دیگچی وغیرہ ایک غریب حدیث میں ہے کہ قبیلہ نمیر کے وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں خاص حکم کیا ہوتا ہے آپنے فرمایا ماعون سے منع کرنا انہوں نے پوچھا ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہا پانی انہوں نے پوچھا لوہے سے مراد کونسا لوہا ہے؟ فرمایا یہی تمہاری تانبے کی پتیلیاں اور کدال وغیرہ پوچھا پتھر سے کیا مراد ؟ فرمایا یہی دیگچی وغیرہ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے بلکہ مرفوع ہونا منکر ہے اور اس کی اسناد میں وہ راوی ہیں جو مشہور نہیں علی نمیری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ نے فرمایا مسلمان کا مسلمان بھائی ہے جب ملے سلام کرے جب سلام کرے تو بہتر جواب دے اور ماعون کا انکار نہ کرے میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ماعون کیا ؟ فرمایا پتھر لوہ اور اسی جیسی اور چیزیں واللہ اعلم الحمد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کے احسان اور رحم سے اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے " کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے ؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] دین کے چار معنی :۔ دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی کامل اور مکمل حاکمیت (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی (٣) قانون جزا و سزا (٤) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت۔ کفار مکہ ان چاروں باتوں کے منکر تھے۔ وہ صرف ایک اللہ ہی کو الٰہ نہیں مانتے تھے بلکہ اپنی عبادت میں دوسرے معبودوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اللہ کے قانون جزا و سزا کے بھی منکر تھے اور آخرت کے بھی۔ اس آیت میں اگرچہ بظاہر خطاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن تبصرہ کفار مکہ پر ہے کہ انکار آخرت نے ان میں کون سی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں پیدا کردی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ارء یت الذی یکذب بالدین…:”’ ع یدع دعا “ (ن) دھکے دیتا۔” کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جزا کو جھٹلاتا ہے…“ یہ اولاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے، اس کے بعد ہر شخص اس کا مخطاب ہے۔ ان آیات میں قیامت کے دن اعمال کی جزا کو جھٹلانے کی وجہ سے کسی شخص میں جو سنگ دلی اور شقاوت پیدا ہوتی یہ اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے سامنے چونکہ دنیا ہی سب کچھ ہوتی ہے، اس لئے اسے کسی یتیم سے ہمدرید اور مسکین کی غم خواری پر کسی فائدے کی توقع ہوتی ہے نہ ان کے حقوق غصب کرنے پر کسی باز پرس اور سزا کا خوف ہوتا ہے، لہٰذا وہ ان بےبس لوگوں کے معالمے میں نہایت بےرحم ہوتا ہے۔ یتیم اپنے باپ کی وراثت مانگے یا اپنا کوئی اور حق وہ اسے دھکے مار کر باہر نکال دیتا ہے۔ مسکین پر رحم کرتے ہوئے اسے خود کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے وہ کسی دوسرے کو اس کیلئے کہنے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ یتیموں اور مسکینوں سے ہمدردی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو جزا و سزا پر ایمان رکھتا ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو روز جزاء کو جھٹلاتا ہے سو (آپ اس کا حال سننا چاہیں تو سنئیے کہ) وہ شخص وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور محتاج کو کھانا دینے کی (دوسروں کو بھی) ترغیب نہیں دیتا (یعنی وہ ایسا سنگدل ہے کہ خود وہ کسی غریب کو کیا دیتا دوسروں کو بھی اس پر آمادہ نہیں کرتا۔ اور جب بندوں کا حق ضائع کرنا ایسا برا ہے تو خالق کا حق ضائع کرنا تو اور زیادہ برا ہے) سو (اس سے ثابت ہوا کہ) ایسے نمازیوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز کو بھلا بیٹھتے ہیں (یعنی ترک کردیتے ہیں) جو ایسے ہیں کہ (جب نماز پڑھتے ہیں تو) ریا کاری کرتے ہیں اور زکوٰة بالکل نہیں دیتے (کیونکہ زکوٰة کے لئے شرعاً یہ ضروری نہیں کہ سب کے سامنے ظاہر کر کے دے اسلئے اس کو بالکل نہ دینے سے بھی کوئی اعتراض نہیں کرسکتا بخلاف نماز کے وہ جماعت کے ساتھ علانیہ ادا کی جاتی ہے اس کو بالکل چھوڑدے تو سب پر نفاق ظاہر ہوجاوے اس لئے نماز کو محض دکھلاوے کے لئے پڑھ لیتا ہے) - معارف ومسائل - اس سورة میں کفار و منافقین کے بعض افعال قبیحہ مذمومہ کا ذکر اور ان پر جہنم کی وعید ہے، یہ افعال اگر کسی مومن سے سرزد ہوں جو تکذیب نہیں کرتا وہ بھی اگرچہ شرعاً مذموم اور سخت گناہ ہیں مگر وعید مذکور ان پر نہیں ہے اسی لئے ان افعال و اعمال سے پہلے ذکر اس شخص کا فرمایا ہے جو دین اور قیامت کا منکر ہے اس کی تکذیب کرتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ضرور ہے کہ یہ اعمال جن کا ذکر آگے رہا ہے مومن کی شان سے بعید ہیں وہ کوئی منکر کافر ہی کرسکتا ہے، وہ اعمال قبیحہ جنا کا اس جگہ ذکر اس سورة میں فرمایا ہے یہ ہیں، یتیم کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی توہین۔ مسکین محتاج کر باوجود قدرت کے کھانا نہ دینا اور دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دینا، نماز پڑھنے میں ریا کاری کرنا، زکوٰة ادا نہ کرنا یہ سب افعال اپنی ذات میں بھی بہت مذموم اور سخت گناہ ہیں اور جب کفر و تکذیب کے نتیجہ میں یہ افعال سرزد ہوں تو انکا وبال دائمی جہنم ہے جیسا کہ اس سورة میں اس کو ویل کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔- فویل للمصلین، الذین ھم عن صلاتھم ساھون الذین ھم یرآنءون یہ حال منافقین کا بیان فرمایا ہے جو لوگوں کو دکھلانے اور اپنے دعوائے اسلام کو ثابت کرنے کے لئے نماز تو پڑھتے ہیں مگر چونکہ وہ نماز کی فرضیت ہی کے معتقد نہیں اس لئے نہ اوقات کی پابندی کرتے ہیں نہ اصل نماز کی، جہاں دکھلانے کا موقع ہوا پڑھ لی، ورنہ ترک کردی عن صلاتھم میں لفظ عن کا مفہوم یہی ہے کہ اصل نماز ہی سے بےپروائی اختیار کرے جو منافقین کی عادت ہے اور نماز کے اندر کچھ سہو و نسیان ہوجانا جس سے کوئی مسلمان یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی خالی نہیں، وہ اس کلمہ کی مراد نہیں ہے کیونکہ اس پر وعید ویل جہنم کی نہیں ہو سکتی، اور اگر یہ مراد ہوئی تو عن صلاتھم کے بجائے فی صلاتھم فرمایا جاتا احادیث صحیحہ میں متعدد مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں سہو واقع ہونا ثابت ہے ویمنعون الماعون ماعون کے اصل لفظی معنے پشئی قلیل و حقیر کے ہیں اس لئے ماعون ایسی استعمالی اشیاء کو کہا جاتا ہے جو عادة ایک دوسرے کو عاریتة دی جاتی ہیں اور جن کا باہم لین دین عام انسانیت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے جیسے کلہاڑی پھاوڑو یا کھانے پکانے کے برتن جن کا ضرورت کے وقت پڑوسیوں سے مانگ لینا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا اور جو اس میں دینے سے بخل کرے وہ بڑا کنجوس کمینہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر آیت مذکورہ میں لفظ ماعون سے مراد زکوة اور زکوة کو ماعون اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ مقدار کے اعتبار سے نسبتہً بہت قلیل ہے یعنی صرف چالیسویاں حصہ، حضرت علی، ابن عمر، حضرت بصری، قتادہ ضعاک، غیرہ جمہور مفسرین نے اس آیت میں ماعون کی تفسیر زکوة ہی سے کی ہے (مضہری) اور اس کے نہ دینے پر جو عذاب ویل جہنم کا مذکور ہے وہ بھی ترک فرض ہی پر ہوسکتا ہے اشیاء استعمال کا دوسروں کو دنیا بہت بڑا ثواب اور انسانیت و مروت کے لحاظ سے ضروری سہی مگر فرض و واجب نہیں جس کے روکنے پر جہنم کی وعید ہو اور بعض روایات حدیث میں جو اس جگہ ماعون کی تفسیر استعمالی اشیاء اور بترنوں سے کی گئی ہے اس کا مطلب ان لوگوں کی انتہائی خست کا اظہار ہے کہ یہ زکوة تو کیا دیتے استعملای اشیاء جن کے دینے میں اپنا کچھ خرچ نہیں ہوتا اس میں بھی کنجوسی کرے ت ہیں تو وعید صرف ان اشیاء کے نہ دینے پر نہیں بلکہ زکوة فرض کی عدم ادائیگی اور اس کے ساتھ مزید بخل شدید پر ہے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۝ ١ ۭ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 2) کیا آپ نے عاص بن وائل سہمی کو نہیں دیکھا جو روز جزاء (قیامت کے دن) کو جھٹلاتا ہے اور یہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے یا یہ کہ یتیم کا حق نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُـکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ۔ ” کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ “- جو نہ تو بعث بعد الموت کا قائل ہے اور نہ ہی آخرت کی جزا و سزا کو مانتا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کے سوا ان کی کوئی اور زندگی نہیں ہے : وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُـنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُج (الجاثیۃ : ٢٤) ” وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے (کوئی اور زندگی ) سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے ‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ “۔- آخرت کے احتساب کا انکار کر کے انسان دراصل جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس کا کردار ع ” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “ کے فلسفے کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہ جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الماعون حاشیہ نمبر : 1 تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموما ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے ۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ، اور اس کا مطلب جاننا ، سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے ۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جانتا ہوں یا مجھے خبر ہے ۔ یا مثلا ہم کہتے ہیں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھو اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو ۔ پس اگر لفظ اَرَءَيْتَ کو اس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ یا تم نے غور کیا اس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ؟ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 2 اصل میں يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فرمایا گیا ہے ۔ الدین کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دین اسلام کے لیے بھی ۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلہ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں ۔ ابن عباس نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ، اور اکثر مفسرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر پہلی معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورۃ کا مدعا دینا سلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا ۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہوگا کہ اسلام اس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے ۔ سورة الماعون حاشیہ نمبر : 3 انداز کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس سوال سے بات کا آغاز کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں ، بلکہ سامع کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جازا و سزا کا انکار آدم میں کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے ، اور اسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں تاکہ وہ ایمان بالآخرۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani